تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-08-2014

نئی نسل نے ایسی تبدیلی تو نہیں مانگی تھی

بابا جان! یہ بہتر گھنٹے کتنے ہوتے ہیں؟ میں نے کہا‘ تین دن۔ پھر اسد نے پوچھا کہ یہ اڑتالیس گھنٹے کتنے ہوتے ہیں؟ میں نے کہا‘ اڑتالیس گھنٹے دو دن ہوتے ہیں مگر مجھے حیرانی اس بات کی ہے کہ تمہیں یہ حساب کیوں نہیں آتا۔ تمہیں حساب کی اکیڈمی جوائن کرنی چاہیے۔ اسد مسکرا کر کہنے لگا‘ بابا جان! مجھے تو پتہ تھا کہ اڑتالیس گھنٹے دو دن اور بہتر گھنٹے تین دن کے برابر ہوتے ہیں مگر ٹی وی پر پچھلے پانچ چھ دن سے بہتر گھنٹے اور اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائنز اور اعلانات سن رہا ہوں۔ نہ یہ اڑتالیس گھنٹے پورے ہو رہے ہیں اور نہ ہی بہتر گھنٹے۔ میں نے سوچا آپ ہی سے پوچھ لوں۔ شاید میرے حساب میں کوئی غلطی یا خرابی ہے کہ دو اور تین دن کا الٹی میٹم پانچویں اور چھٹے دن بھی چلا جا رہا ہے اور یہ اڑتالیس اور بہتر گھنٹے ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے۔ 
شاہراہ دستور پر دھرنے کو آج (جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں) پانچواں دن ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ یہ معاملہ کب تک چلے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان دونوں اپنے اپنے حامیوں اور ورکروں کو ویسے ہی لارے لگا رہے ہیں جیسے پی آئی اے والے کرتے ہیں۔ لائونج میں بیٹھے ہوئے اور چیک ان کائونٹر پر کھڑے مسافر واپس گھر نہ چلے جائیں یا شور نہ مچائیں‘ وہ وقفے وقفے سے فلائٹ کی روانگی میں تاخیر کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ پہلے آدھ گھنٹہ‘ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر پون گھنٹہ اور اسی طرح چھوٹے چھوٹے تاخیری اعلانات۔ کل ملا کر چار گھنٹے تاخیر سے روانگی۔ مجھے خود ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ تاخیر کا شکار ہونے والی کم از کم پچاس فیصد پروازیں کینسل ہو جاتی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ عمران خان کی اڑتالیس گھنٹے تاخیر کا شکار ہونے والی یہ پرواز بالآخر کینسل ہو جائے۔ 
ملتان سے جانے والے کئی لیڈر واپس ملتان آ چکے ہیں۔ صرف جاوید ہاشمی‘ شاہ محمود قریشی اور ایم پی اے ظہیر الدین علیزئی اسلام آباد میں ہیں اور ان کے ہمراہ اعجاز جنجوعہ ہے۔ خالد خاکوانی‘ اعظم خاکوانی‘ ندیم قریشی‘ رانا جبار‘ عباس راں‘ خالد جاوید وڑائچ اور درجنوں دیگر ''مخلص‘‘ کارکن اور لیڈر واپس آ چکے ہیں اور گھروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ورکرز نوجوان ہیں‘ پڑھے لکھے ہیں۔ روایتی سیاسی حربوں سے تنگ آ کر عمران کی طرف آئے تھے مگر وہاں بھی انہیں اب کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آ رہا۔ مطمح نظر صرف اور صرف اقتدار ہے۔ جمہوریت اور آئین کی پاسداری کا نعرہ لگانے والے مسلسل غیر آئینی اور غیر جمہوری رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ میڈم نے پوچھا کہ یہ ہفتے کے روز انگلی کون کھڑی کرے گا؟ یہ امپائر کون ہے؟ میں نے کہا‘ مجھے تو کچھ علم نہیں کہ یہ امپائر کون ہے۔ اگر اس امپائر سے مراد بوٹوں والے ہیں تو ایسے امپائر کا انتظار کرنے والے اور اکسانے والے کہاں کے جمہوریت پسند اور کہاں کے آئین کے پاسدار ہیں؟ اور اگر اس امپائر سے مراد خود عمران خان ہیں تو بھلا اس سے زیادہ Rigging اور کیا ہوگی کہ خود ہی کھلاڑی ہے‘ خود ہی کپتان ہے اور خود ہی امپائر بھی۔ 
ابھی وقت ہے کہ ہم جمہوریت اور آئین کو بھی بچا سکتے ہیں اور عزت بھی۔ باعزت واپسی صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ اپنی بات سو فیصد منوا کر ہی واپس آئیں۔ وہ تمام چیزیں جن سے فریق اول پہلے بالکل انکاری تھا‘ اگر ان میں سے ساٹھ فیصد بھی منوا لی جائیں تو فتح ہے۔ فتح ایک مختلف المعانی لفظ ہے۔ اس کے اپنی مرضی کے مفہوم نکالے جا سکتے ہیں مگر اصل فتح اخلاقی میدان میں ہوتی ہے۔ اس میدان میں میاں صاحب پہلے ہی شکست خوردہ ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے جائز مطالبات سے صرفِ نظر کیا۔ بات چار حلقوں سے چلی اور میاں صاحب کی محصوری تک چلی گئی۔ اب اور کچھ بھی کہا جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت کی رٹ زیرو ہو چکی ہے۔ تمام سرکاری کام عملی طور پر ٹھپ ہو چکا ہے۔ میاں صاحب سے استعفے کا مطالبہ تو بہرحال غیر آئینی ہرگز نہیں کہ محض مطالبہ کرنے سے آئین کہیں نہیں روکتا اور دھرنا دینا بھی جمہوری حقوق کا حصہ ہے۔ دھرنا دینا شاید آئین میں درج حقوق کے استعمال کا ہی ایک پرامن طریقہ ہے‘ آئین کے آرٹیکل سولہ کے تحت ''امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد پابندیوں کے تابع‘ ہر شہری کو پرامن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا‘‘۔ اور آئین کا آرٹیکل پندرہ واضح کرتا ہے کہ ''ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفاد عامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع‘ پاکستان میں رہنے اور ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اس کے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق ہوگا‘‘۔ جہاں آرٹیکل سولہ پُرامن دھرنے کی اجازت دیتا ہے‘ وہیں آرٹیکل سولہ سڑکوں پر کنٹینر لگانے سے روکتا ہے اور پارلیمنٹ اور سیکرٹریٹ کی جانب جانے والے راستوں کو بلاک کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ 
ہر گزرتا ہوا دن عمران خان کی اور میاں نوازشریف کی اخلاقی حیثیت کو کمتر کر رہا ہے۔ دونوں فریق خسارے میں جا رہے ہیں۔ میاں صاحب کی حکومت کی رٹ اور انتظامی صلاحیتیں عالمی سطح پر ریاست کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہیں۔ عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی خود پی ٹی آئی کے ورکرز کے لیے آزار بن رہی ہیں اور وہ موجودہ صورتحال پر باقاعدہ شرمندہ ہیں اور دفاعی انداز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ رہ گئی بات ان آٹھ دس ہزار افراد کی جو اسلام آباد جمع ہیں تو اس سے کہیں زیادہ لوگ تو طاہرالقادری کے گرد جمع ہیں۔ اپنی عقل استعمال کیے بغیر تقلید کرنے والے چند ہزار لوگ تو کسی کو بھی میسر آ سکتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان اندھے معتقدین کے زور پر کروڑوں لوگوں کو یرغمال بنا لیں۔ 
عمران خان کو شاید اندازہ نہیں کہ ان کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ گیارہ مئی کو ایک ہی دن اسلام آباد اور راولپنڈی میں دھرنا۔ پھر عمران خان کے چودہ اگست کو عین آزادی مارچ کے دن طاہرالقادری کا انقلاب مارچ۔ سوموار کو اگلے روز ریڈ زون میں داخلے کا عمران کا اعلان اور اگلے روز اسی وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی پارلیمنٹ کو ریڈ زون میں داخلے کا حکم۔ کیا یہ سب اتفاقات ہیں؟ اگر ایک منٹ کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عمران کے پروگرام کی کاپی کی‘ نقل ماری اور عمران کو بطور حفاظتی شیڈ استعمال کیا تو اب عمران خان کا یہ اعلان کہ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کو کچھ کہا گیا تو وہ اس کی حمایت میں اپنے لوگوں کو بھی ان کے ساتھ اکٹھا ہونے کا کہہ دیں گے‘ معاملے کو دوسرا رخ دے رہا ہے۔ عمران خان کو شاید اندازہ نہیں کہ پی ٹی آئی کا جنونی اور پی اے ٹی کے مذہبی جوشیلے دو الگ الگ دنیائوں کے باسی اور دو الگ سیاسی نظریات کے حامل لوگ ہیں جن کے درمیان شاید ایک سو اسی درجے کا فرق ہے۔ تحریک انصاف کے لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پروگرام سے‘ سیاسی نظریات سے اور طریقہ کار سے سو فیصد اختلاف کرتے ہیں اور دونوں کے ملاپ پر صرف رنجیدہ نہیں بلکہ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران شاید Desperate ہیں‘ یعنی منتشر الذہنی کا شکار ہیں۔ وہ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جن سے صرف انہیں نقصان ہو رہا ہے اور سارا فائدہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ہو رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کسی غیر آئینی امپائر کے بجائے ملک کو دیکھا جائے اور آئین کو دیکھا جائے۔ 
ڈالر سو روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ معیشت کو کئی سو ارب کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ کاروبار برباد ہو رہے ہیں۔ غریب آدمی بددعائیں دے رہا ہے۔ بے یقینی نے ہر کام ٹھپ کر دیا ہے۔ عمران خان آہستہ آہستہ تنہائی کی طرف جارہے ہیں۔ اگر نظام لپیٹا گیا تو میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ عمران خان کی ساری سیاسی جدوجہد اور کامیابی بھی دریا برد ہو جائے گی۔ بڑے لیڈر انا کے اسیر نہیں ہوتے اور اپنی ذات سے اور خواہشات سے بالاتر ہو کر سوچتے ہیں۔ میاں نوازشریف اینڈ کمپنی نے بھی کبھی اپنی ذات اور خواہشات سے اوپر جا کر نہیں سوچا‘ افسوس کہ عمران خان بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ نئی نسل عمران خان کو روایتی سیاستدانوں سے مختلف سمجھتی ہے اور اسی بات سے متاثر ہو کر عمران کو فالو کر رہی ہے۔ موجودہ صورتحال سے نئی نسل پریشان اور مایوس ہو رہی ہے۔ یہ صرف اور صرف عمران خان کا نقصان ہے۔ میاں صاحب کا کیا ہے؟ وہ تو پہلے بھی خود اپنی حکومت کے دشمن ثابت ہوتے رہے ہیں اور اب بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔ عمران خان کو اپنے ووٹروں کا خیال کرنا چاہیے جو تبدیلی چاہتے تھے مگر ایسی نہیں‘ جیسی وہ آج کل دیکھ رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved