لواری ٹنل کو ہر صورت 3 سال
میں مکمل ہونا چاہیے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''لواری ٹنل کو ہر صورت 3 سال میں مکمل ہونا چاہیے‘‘ اور یہ بیان اس لیے دیا جا رہا ہے کہ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا ہے کہ میں موجودہ صورتِ حال سے ہی اس قدر پریشان ہوں کہ لواری ٹنل کی تعمیر جیسے معمولی موضوعات پر بیان دینے کے قابل ہی نہیں ہوں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''قوم مشکل کی گھڑی میں شمالی وزیرستان کے محب وطن قبائل اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے‘‘ اگرچہ ہم بھی اب تک تو یہی سمجھ رہے تھے کہ بعض سیاسی قوتیں ہمارے ساتھ کھڑی ہیں لیکن اب پتہ چلا ہے کہ ہم الگ کھڑے ہیں اور وہ الگ‘ بلکہ ہمیں مزید الگ کرنے کے در پے بھی ہیں، حالانکہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ دل میں ارادہ جو کچھ بھی رکھتی ہو‘ کم از کم کھڑی تو ہمارے ساتھ ہوں‘ اگرچہ یہ نوبت ہمارے اپنے اعمال ہی کی وجہ سے آئی ہے کیونکہ ہم عادت سے مجبور ہیں اور آپ سب جانتے ہیں کہ عادتیں قبر تک ساتھ دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نو سال کے طویل عرصے میں ٹنل کا مکمل نہ ہونا افسوسناک ہے‘‘ اور اس مفید کام کو چھوڑ کر سب میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
وزیراعظم پر الزامات لگانے والے اپنے
گریبان میں جھانکیں... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم پر الزامات لگانے والے اپنے گریبان میں جھانکیں‘‘ اگرچہ اپنے گریبان میں جھانکنے سے بھی انہیں وزیراعظم کے کمالات ہی دکھائی دیں گے کہ اقتدار کے دوران انہوں نے جتنا ثواب کما لیا ہے‘ کوئی اور اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور اب ان پر صرف حسد کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چیئرمین تحریک شاہراہِ دستور پر دستور کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں‘‘اس سے ان کی بزدلی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ایسے کارنامے دلیری اور جرأت کا تقاضا کرتے ہیں جو ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران نو بال پر آئوٹ چاہتے ہیں‘ مگر ایسا نہیں ہوگا‘‘ البتہ رن آئوٹ ہو سکتا ہے جبکہ امپائر بھی اسی تاک میں ہیں؛ تاہم یہ بھی سوچ لیں کہ اس طرح وہ ہمیں سیاسی شہید بنا دیں گے اور دھاندلی وغیرہ کے داغ ہمارے دامن سے دُھل جائیں گے۔ اگرچہ اس کے علاوہ بھی کئی پکے داغ موجود ہیں جن کے لیے ابھی کوئی ڈیٹرجنٹ ایجاد نہیں ہوا ہے اور جو پکے پنکچروں ہی کی طرح مستقل ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں اخباری نمائندوں اور اراکین اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم جمہوریت پر شب خون نہیں
مارنے دیں گے... آصف علی زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے‘‘ کیونکہ اگر اس بارے ہم سے پوچھا گیا تو ہم صاف انکار کردیں گے بلکہ اول تو اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ خاکسار کے پاس وزیراعظم کی باعزت رخصتی کے کئی صدری نسخے موجود ہیں جو آج ضیافت کے دوران وزیراعظم کو پیش کردوں گا کیونکہ کھانا کھانے کے بعد وہ ان چھوٹی موٹی باتوں سے کچھ دیر کے لیے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''احتجاج اور مطالبات کرنا عوامی جماعتوں کا حق ہوتا ہے‘‘ اور صحیح طور پر منتخب ہونے والی حکومتوں کو ان سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں ملکی صورت حال کی وجہ سے وطن واپس آیا ہوں‘‘ تاکہ وزیراعظم کو مشورہ دوں کہ انہوں نے 14مہینے گزار لیے ہیں‘ اب زیادہ لالچ نہ کریں کیونکہ لالچ کرنا بہت بُری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی مشورہ دیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کریں‘‘ حالانکہ اسے سعیٔ رائیگاں ہی کہا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ
مل کر کام کرتے رہیں گے... امریکہ
امریکہ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ''ہم وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے‘‘ یعنی جب تک وہ وزیراعظم رہتے ہیں‘ کیونکہ اگر انہیں کسی غیر آئینی طریقے سے ہٹا بھی دیا گیا تو اس پر پُرزور احتجاج کرنے کے بعد‘ ان کے بعد جو مقتدر شخصیت ہوگی اس کے ساتھ مل کر ہی ہمیں کام کرنا پڑے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے کہا کہ ''ہم پاکستان میں موجودہ صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں‘‘ اور جب یہ صورت حال تبدیل ہوئی تو اس کا جائزہ لیے بغیر ہی نئے آنے والوں کے ساتھ کام شروع کردیں گے کیونکہ ہم فارغ بیٹھنے کی بجائے کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں کسی غیر آئینی اقدام کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے‘‘ اگرچہ یہ غیر آئینی کام کرنے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور ایک اشارے سے ہی سارا کام نمٹا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکی سفیر رچرڈ اولسن پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں‘‘ کیونکہ دور سے تماشا دیکھنے کی بجائے نزدیک سے نظارہ کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز واشنگٹن سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
ہم چاہیں تو پورا پاکستان اسلام آباد
میں جمع کر سکتے ہیں... فضل الرحمن
جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم چاہیں تو پورا پاکستان اسلام آباد میں جمع کر سکتے ہیں‘‘ صرف وزیراعظم کے اشارہ کرنے کی دیر ہے‘ البتہ اشارے سے پہلے صاحبِ موصوف کو یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ وہ اس کام کے لیے ہماری کیا خدمت کرنے کو تیار ہوں گے کیونکہ حق الخدمت طلب اور وصول کرنے میں ماشاء اللہ کوئی قباحت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان غیر سنجیدہ آدمی ہیں‘‘ یعنی مذاق مذاق میں ہی لوگ اکٹھے کر کے حکومت سمیت ہم سب کو ایک مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں کی سیاست سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے‘‘ اور ملک کو جتنا نقصان ہوگا اس سے ہمارے منافعے میں بھی فرق پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''امپائر کی طرف سے انگلی کی باتیں کرنے والے فوج کی طرف اشارہ کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ معاملات اس قدر صاف دکھائی دے رہے ہیں کہ ایسا کوئی اشارہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ دن چڑھے گا تو سب دیکھ لیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
ماندہ تختے بھی، ظفرؔ، بیچ کے بیٹھا ہے جو شخص
ٹوٹی کشتی کو بچانے کے لیے آیا تھا