تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     24-08-2014

حبس زدہ موسم میں شاعری کا دروازہ

سیاست کے اس حبس زدہ موسم میں شاعری کا دروازہ کھولتے ہیں تاکہ کچھ تازہ ہوا آئے۔ اگست کی پچیس قریب ہو تو پھر احمد فراز ضرور یاد آتے ہیں۔ 25 اگست 2008ء کو احمد فراز اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ سچا تخلیق کار‘ یقینا اپنی تخلیق میں زندہ رہتا ہے۔ احمد فراز بھی تمام عمر اپنا وجود اپنے شعروں میں پروتا رہا اور آخر میں ''شہر سخن آراستہ‘‘ (فراز کا مکمل دیوان) کر کے‘ ملک عدم کو چل دیا۔ سو اشعار کی صورت وہ آج بھی زندہ ہے۔ 
احمد فراز بھی کیا کمال شاعر تھا۔ جو محبت‘ شہرت اور گلیمر احمد فراز کو حاصل ہوا وہ صرف احمد فراز ہی کا نصیب تھا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شاعری کو تو مقبولیت کی سند مل جاتی ہے مگر شاعر بطور شخصیت پڑھنے والوں میں اتنا مقبول اور پسندیدہ نہیں ہوتا۔ احمد فراز کے ساتھ ایسانہیں تھا۔ احمد فراز کے سینکڑوں اشعار زبانِ زد عام ہیں۔ وہ نوجوانوں سے لے کر پختہ سوچ کے حامل‘ ادبی ذوق رکھنے والوں میں یکساں پسند کیے جاتے تھے ۔چلّی کے ممتاز شاعر پابلونرودا کے بارے میں ایک نقاد نے کہا تھا کہ پابلو نرودا ہر عمر کے لوگوں میں یکساں پسند کیاجاتا ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایک پروفیسر نے بھی کیا جس نے بیس برس تک یونیورسٹی میں طالب علموں کو پابلو نرودا کی شاعری پڑھائی۔ اس نے کہا کہ ''نرودا کی شاعری میں سب کے لیے اپنا اپنا پابلو نرودا موجود ہے۔ محبت کرنے والوں کے لیے محبت کی نظمیں اور انقلاب پسندوں کے لیے انقلابی نظمیں۔ اسی طرح سیاست اور سماج کا سدھار چاہنے والوں کے لیے بھی ان کے ذوق کے عین مطابق شاعری موجود ہے‘‘۔ فراز بھی ایسا ہی خوش قسمت تخلیق کار تھا۔ اس نے بھی اپنی شاعری میں محبت اور انقلاب کے موضوع کو یکساں کر کے دنیا بھر میں اردو پڑھنے والے ہر عمر کے مداح پیدا کیے۔ محبت فرازکی شاعری کا سب سے اہم موضوع تھا۔کبھی محبوب کی محبت تو کبھی وطن کی محبت...!! محبوب چہروں کے لیے فرازؔ نے کیسی دلنشیں شاعری کی۔ 
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں 
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے 
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں 
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں 
احمد فراز کی لکھی ہوئی غزلیں معروف مغنیوںنے گائیں۔ احمد فراز کی لکھی ہوئی شاعری جب مغنیوںنے گائی تو اس کے الفاظ کے پارس سے وہ خود سونا ہو گئے۔ کبا خوب صورت غزل ہے یہ چند اشعار دیکھیے: 
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں 
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں 
اب نہ وہ میں ہوں‘ نہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ 
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں 
محبت سے گندھی نظمیں اور اشعار لکھنے والا فرازؔ اس وقت ایک بار پھر ''دریافت‘‘ ہوتا ہے جب جنرل ضیاء الحق مارشل لگاتاہے اور ایک جبر کی فضا‘ ملک میں پیدا ہوتی ہے۔ آمریت ایک نئے احمد فراز کو جنم دیتی ہے اور وہ محبت کے نرم و نازک جذبوں کی شاعری کرنے والا انقلابی شاعری کرنے لگتا ہے۔ فرازؔ کی نظم ''محاصرہ‘‘ اسی دور میں لکھی گئی ہے۔ یہ نظم اپنے شعری رچائو میں بھی کمال ہے۔ جبر اور آمریت کے ماحول میں شاعر کے باغیانہ جذبات کی عکاسی بھی خوب ہے۔ 
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا 
جو غاصبوں کو قصیدوں سے ہم کنار کرے 
مرا قلم تو امانت ہے مرے لوگوں کی 
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے 
اس کے بعد جبر کے ہر دور میں احمد فراز ایک باغی کی طرح پکارتا رہا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ مشرف کے دور میں احمد فرازؔ نے اپنی انقلابی نظموں کو مشرف کی آمریت کے خلاف ہونے والوں جلسوں میں پڑھا اور خوب داد سمیٹی۔ خصوصاً جب پرویز مشرف نے 3 نومبر کی ایمرجنسی نافذ کی‘ میڈیا کی بندش اور آئین پاکستان کی پامالی پر پورا ملک سراپا احتجاج تھا‘ وہیں احمد فراز نے بیماری کے باوجود احتجاجی جلسوں میں شرکت کی۔ اور سچی بات ہے کہ احمد فراز کی موجودگی‘ اس کا اپنی باغیانہ نظمیں پڑھنے کا مخصوص انداز‘ ماحول کو گرما دیتا۔ 
کس کا گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر 
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی ہوئی 
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال 
اب چشمِ بد ہے جانب خیبر لگی ہوئی 
احمد فرازؔ ان دنوں میں بے حد بیمار تھا۔ وہ اکثر مسکرا کر کہتا کہ میں آمر کو بھیج کر ہی دنیا سے جائوں گا اور قدرت نے اس کے لفظوں کی لاج رکھ لی۔ 18 اگست 2008ء کو مشرف نے استعفیٰ دیا اور 25 اگست 2008ء کو احمد فراز نے اپنے چاہنے والوں سے رخصت چاہی۔ 
اردو کے اس عظیم شاعر کے کلام کے ساتھ اس وقت بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ انٹرنیٹ پر کچھ بدذوق لوگوں نے جنہیں شعر کی الف ب کا پتہ نہیں‘ گھٹیا قسم کی شاعری احمد فراز کے نام سے جگہ جگہ مختلف ویب سائٹس پر محفوظ کی گئی ہے۔ اردو ادب کے لیے کام کرنے والے ادارے آخر کیا کر رہے ہیں جو انہوں نے ابھی تک اس سائبر کرائم کا نوٹس نہیں لیا۔ دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کا کلام انٹرنیٹ پر موجود ہے مگر جب ہم احمد فراز کی شاعری کو گوگل کرتے ہیں تو کوئی مستند ویب سائٹ آسانی سے نہیں ملتی‘ جو ویب سائٹس ملتی ہیں ان پر عجیب سی شاعری احمد فراز کے نام سے موجود ہے۔ جو لوگ ہمہ وقت ایس ایم ایس بھیجنے کے عارضے میں مبتلا ہیں‘ وہ بھی اسی قسم کی شاعری احمد فرازؔ کے نام سے ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلانے کا جرم کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک ادبی جرم ہے۔ قابل احترام ظفر اقبال صاحب سے گزارش کروں گی کہ وہ بھی ضرور اس سائبر کرائم کے حوالے سے کچھ لکھیں۔ ان کے کہے میں زیادہ وزن ہوگا۔ اردو کے لیے کام کرنے والے ادارے احمد فرازؔ کی شاعری پر ایک مستند ویب سائٹ بنائیں تاکہ اس بے مثل شاعر کی خوب صورت تخلیق انٹرنیٹ پر بھی خالص شکل میں محفوظ ہو سکے۔ یہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور فرازؔ کے نام پر الٹی سیدھی شاعری والی ویب سائٹس بھی بلاک کردینی چاہئیں تاکہ اردو ادب سے نابلد‘ بدذوق لوگ فرازؔ کے نام کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved