بے شک آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ بے شک تقدیر ہی غالب ہے ۔ فرمایا: اس زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو۔
تجزیہ تمام ہوا، اب فریاد ہے ، جس کا سننے والا کوئی نہیں ۔ ادھر عبارت تمام ہوئی ، ادھر ٹی وی کھولا تو معلوم ہوا کہ منظر ہی بدل چکا ؎
وہی کارواں، وہی راستے، وہی منزلیں، وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں
کوئی سلیقہ، کوئی قرینہ ایسا بھی ہو کہ شاہراہِ دستور پر عہدِ آئندہ کے خوابوں میں گم ، شور وغوغا کرنے والے غور فرمانے پر آمادہ ہوں۔ ہجوم کی نفسیات یہی ہوتی ہے کہ بالآخر وہ اپنے ہی خیال کے سحر میں گم،وہ سرمست ہو جاتاہے ۔ ایک خیالی جنّت وہ آباد کرتاہے ۔ اپنے تمام تر احساسات اور امنگوں کے ساتھ اسیر ،اس میں وہ قیام فرما ہوتاہے ۔ زندگی اور زمانے کے حقائق سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے ۔ اسد اللہ خاں غالبؔ کیا ایک آدمی سے مخاطب تھے یا ایک پورے زیاں کار عہد سے ؎
حالِ دل لکھوں کب تک، جائوں ان کو دکھلائوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
کپتان کا وہ جملہ دل پہ دستک دیتا رہا: میں اس لیے جلد نیا پاکستان بنانا چاہتا ہوں کہ شادی کر سکوں ۔انیس برس سیاست میں گزارنے کے باوجود، زندگی کو اب بھی وہ ایک میچ کی طرح دیکھتا ہے۔ فتح و کامرانی کی ایک منزل کے بعد دوسری منزل ۔ ازل سے آدمی اپنی آرزوئوں اور امنگوں کا قیدی ہے ۔ بے قراری سے وہ تمنا کرتاہے کہ گرد و پیش اس کے سپنوں کی صورت گری کریں ، اس کی تمنّائوں میں ڈھل جائیں۔ زندگی کا مطالبہ مختلف ہوتاہے کہ آدم زاد حقائق کا ادراک کرے۔ خود کو ان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ اپنے باطن پہ آدمی کم ہی نگاہ ڈالتاہے۔ اپنا احتساب کرنے پر کم ہی وہ آمادہ ہوا کرتاہے ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے میں نے اللہ کو پہچانا۔ وہ خود کو پہچان لینے کے آرزومند تھے اور اللہ کے متلاشی بھی۔ ا س ہیرو اور اس ہجوم کے بارے میں کیا کہا جائے، جو زندگی کو فقط خارج میں دیکھتا ہے ۔
ہر ضروری خبر پڑھ لی ۔ خبر کہیں نہ تھی ۔ دور دراز تک کہیں احساس و ادراک کی کونپل پھوٹتی نظر نہ آئی ۔ کیا کریں ؟ اب کیا لکھیں ؟ ایک ایک کر کے کتنے ہی دلچسپ واقعات حافظے میں ابھرنے لگے۔ وہ مشہور اور مشتاق بھارتی اداکارہ ، جو کبھی کپتان سے ملنے آئی تھی ۔ جس نے کہا تھا : وقت آگیا ہے کہ اب میں شادی کرلوں اور آپ کے سوا کوئی جچتا نہیں ۔ اس نے ٹال دیا، اس نے گریز کیا۔ جمائما کا قصہ اور بھی سنسنی خیز ہے ۔ جب اپنے بھائیوں کے ساتھ اس نے کرکٹ کی دنیا کے عظیم لیجنڈ کو دیکھا اور مائل ہوئی ۔ وہ فیصلہ جو اچانک ہوا ، وہ شیروانی جو کسی سے ادھار مانگی گئی ۔ یا للعجب اس کے بازو اس قدر طویل تھے کہ تہہ کرنے پڑے ۔ دلہن کے باپ سے دولہا کی ملاقات اور اس کا اظہارِ پسندیدگی ۔ پھر انکشاف کا وہ لمحہ ، جب اسے ادراک ہوا کہ کہانیوں میں لکھا گیا، یہ شہزادے اور شہزادی کا بیاہ نہیں ، جس
کے بعد راوی چین ہی چین لکھتاہے ۔ ایک سطح پر سب عامی ہوا کرتے ہیں۔ ''پری نہیں، وہ ایک انسان ہے‘‘ ایک بوڑھے آدمی نے کپتان کی کھڑکی تلے نصف شب کو کہا اور وہ حیران ہوتا رہا ۔
پھر انکشاف کی وہ شام ، جب اس نے کہا: قصہ تمام ہوا، اب راستے الگ ہیں ۔ سوال صرف یہ ہے کہ معاملے کو نمٹایا کس طرح جائے ۔ عرض کیا ، دانا اور صاحبِ علم دنیا میں کم ہیں مگر ایک کو میں جانتا ہوں ۔ پھر تین گھنٹے کی وہ طویل ملاقات ،جس میں فیصلہ صادر ہوا۔ اسے بتایا گیا کہ قصور خاتون کا ہے اور نہ اس کا ۔ یہ ماحول، ذوق اور تربیت کا معاملہ ہے ۔ زندگی کی ترجیحات کا۔ ایک مسلسل ہنگامہ اور ایک پیہم مصروفیت اسے درکار ہے ۔ اگر وہ وزیراعظم بن گیا ہوتا اور اظہارِ ذات کے مواقع خاتون کو میسر رہتے تو وہ سمندر پار نہ جاتی ۔ اب لندن کاطرزِ حیات اس کی پناہ گاہ ہے ؛البتہ یہ ممکن ہے کہ رنج اور تلخی کے بغیر یہ قصہ تمام ہو جائے ۔ سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اولاد کا کیا بنے گا؟ اسے بتایا گیا کہ ذہنی طور پر بیٹے اس کے ساتھ رہیں گے اور مسلمان رہیں گے ۔
فیصلہ صادر ہوا اور اضطراب کے چند ایام کے بعد اس نے رہائی پالی ۔ ایسی رہائی ، جس نے آزادی کی راہ پر اسے بگٹٹ کر دیا۔ یاد ہے کہ انہی دنوں ایک بار اس سے کہا : شادی کر لو، ایک نارمل زندگی ہی آسودہ زندگی ہوا کرتی ہے ۔ اختلاف کی بات دوسری ہے ، بیس برس کی رفاقت میں چند ہی بار وہ مجھ سے بگڑا۔ یہ لمحہ ا ن میں سے ایک تھا۔ فریاد کرتے ہوئے اس نے کہا : میری آزادی کیا تمہیں پسند نہیں ۔ آزاد زندگی جینے والا آدمی پابندیوں کے مہ و سال سے اکتا گیا تھا ۔ عائلی زندگی میں بحث مباحثے کے ایّام اسے یاد آتے اورپریشان کرتے ۔
ا یک دوسرے موقعے پر جب اس نے کہا : تمہارا مشورہ کیا ہے تو عرض کیا: اب بھی وہی ، مگر ایک ایسی عام سی پاکستانی ، بے اے پاس، خوبصورت خاتون ،جو گھر کی ہو رہے اور تمہاری سیاست سے جس کا کوئی واسطہ نہ ہو ۔
کہانی کے بعض حیران کن پہلو ہیں ۔ لکھنے والا مگر لکھ نہیں سکتا۔ کبھی زہدکی آرزو اور خود کو تھام لینے کی کوشش ، کبھی کھل کھیلنے کی تمنّا اور اس کی بے چینی ۔ ایک ذاتی دوست کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آپ کس قدر لکھ سکتے ہیں ؟
خود سے وہ بھاگ رہا تھا اور پیہم ۔ مقابلے اور محاذ آرائی کا وہ عادی ہے مگر اپنے آپ سے نہیں ، زمانے اور حالات سے ۔ اس کی نیک سیرت والدہ دنیا سے چلی گئیں اور اس کے روحانی پیشوا میاں بشیر بھی ۔ راہ دکھانے والا اب کوئی نہیں ، جو ہے، اس کا وہ سامنا نہیں کر سکتا کہ خود اپنے مقابل کھڑا ہونے کی تاب اس میں نہیں:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
ایک طویل زمانہ ہے ، جس کے گم شدہ اوراق اب حافظے کی لوح پر ابھرتے ہیں ۔ لگ بھگ سو برس کا ایک افغان بوڑھا۔ پشتو کے سو ا جو کوئی زبان نہ جانتا تھا۔ بشاشت کے ساتھ اس نے مجھے بتایا کہ جب سوال کیا گیا تو اس نے کہا : جسے چھوڑ چکے ہو ، وہ بھی آمادہ ہے اور...
طالبِ علم حیراں رہ گیا۔ وہ تو اپنی ذات کے حصار میں گم ہے ۔ اپنے خوابوں کی جولانیوں میں شاداب ۔ شاید اب وہ کبھی شادی نہ کر سکے ۔ اب اسے اپنی تقدیر کا سامنا کرنا ہے ۔ اس وقت ، جب زندگی کی سب سے بڑی فتح حاصل کر کے آئندہ معرکوںکی طرف وہ پیش قدمی کر سکتاہے ، اب بھی وہ خود ہی سے دوچار ہے ۔
لائبریری میں کچھ وقت اور بیت گیا۔ پھر اس دانائے راز کے کلام پر نظر پڑی ؎
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
اس سیلِ سبک سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک
بے شک آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے ۔ بے شک تقدیر ہی غالب ہے ، تقدیر ہی۔ فرمایا: اس زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو ۔