تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-08-2014

شیروں کا صفحہ

پیارے شیرو! 
حق تو یہ تھا کہ آپ کا صفحہ طوطوں سے پہلے شائع کیا جاتا کیونکہ آپ جنگل کے بادشاہ ہیں‘ لیکن جنگل تو سارے یار لوگوں نے کاٹ کر بیچ کھائے ہیں اور آپ لوگ شیرانوالہ گیٹ میں آ بسے ہیں بلکہ اپنے نام بھی رکھ لیے ہیں مثلاً شیر خان‘ شیر دل اور شیر زمان وغیرہ۔ بہرحال جہاں رہو‘ خوش رہو کیونکہ جب سے ن لیگ والوں نے آپ کو اپنا انتخابی نشان قرار دے کر عزت افزائی کی ہے‘ ملک بھر میں یوں سمجھیے کہ پچھلے سوا سال سے آپ ہی کا دور دورہ ہے اور جنگل نہ سہی‘ جہاں تہاں آپ کی بادشاہت بھی قائم ہے جس کو کچھ دنوں سے خطرات گھیرے ہوئے ہیں؛ تاہم آپ شیر بنیں اور حوصلہ نہ ہاریں‘ بُرا وقت ٹل بھی سکتا ہے یعنی کبھی پھر آنے کے لیے۔ بلکہ اب تو حکومت کی دیکھا دیکھی لوگوں نے کاغذی شیر بھی بنا بنا کر خلقِ خدا کو ڈرانا شروع کردیا ہے لیکن لوگ چونکہ خود بھی شیر ہوتے جا رہے ہیں اس لیے انہوں نے ڈرنا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے بھی‘ سنا ہے کہ شکار تو شیرنی کرتی ہے اور آپ سارا دن بیکار پڑے رہتے ہیں‘ یہ بہت بُری بات ہے۔ کم از کم اپنے نام کی ہی کچھ لاج رکھ لیا کریں‘ یعنی بادشاہی کے علاوہ آپ کو کچھ آتا جاتا ہی نہیں ہے‘ اگرچہ آپ کو کچھ سمجھانا شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے والی ہی بات ہے؛ تاہم حیرت ہے کہ آپ شکار نہیں بھی کرتے اور شیر کا حصہ پھر بھی طلب کرتے ہیں‘ اگرچہ یہ کام انگریزی زبان میں زیادہ کرتے ہیں۔ سو‘ یہ صفحہ پڑھنے میں آپ کو دقت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ن لیگ کے سارے کارکن آپ کی اس سلسلے میں مدد کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ آپ اور آپ کے جملہ عزیز و اقارب تو حکومتی عہدوں پر کام کر رہے ہوں گے۔ بہرحال‘ اس کاوش کے بارے میں ہم آپ کی قیمتی رائے کے منتظر رہیں گے کہ یہ آپ کو کیسی لگی۔ 
سبق آموز واقعات 
٭... جنگل میں ایک بار شیر اور ہاتھی کا ٹاکرا ہو گیا تو شیر نے ہاتھی سے پوچھا: 
تم جانتے ہو جنگل کا سب سے طاقتور جانور کون ہے؟ ‘‘یہ سن کر ہاتھی نے سونڈ میں لپیٹ کر اسے اٹھایا اور کوئی پچاس فٹ پرے پھینک دیا۔ شیر مٹی وغیرہ جھاڑ کر بولا: 
''اگر تمہیں معلوم نہیں تھا تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات تھی!‘‘ 
٭... ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا: 
''فرض کرو تم جنگل میں جا رہے ہو اور نہتے ہو‘ سامنے سے شیر آ جائے تو تم کیا کرو گے؟‘‘ 
''میں بھاگ کر درخت پر چڑھ جائوں گا‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ 
''اور اگر شیر بھی درخت پر چڑھ گیا تو پھر تم کیا کرو گے؟‘‘ پہلے نے سوال کیا۔ 
''میں نہر میں چھلانگ لگا دوں گا!‘‘ دوسرے کا جواب تھا۔ 
''اور‘ اگر شیر بھی نہر میں چھلانگ لگا دے تو پھر؟‘‘ پہلے نے کہا۔ 
''میں وہ بھی تمہیں بتاتا ہوں‘‘ دوسرے نے کہا۔ ''پہلے تم مجھے یہ بتائو کہ تم شیر کے ساتھ ہو یا میرے؟‘‘ دوسرا بولا۔ 
٭... جنگل میں شیر کی شادی تھی اور مہمانوں کی بڑی گہما گہمی تھی۔ ایک چوہا کچھ زیادہ ہی سرگرم تھا۔ کبھی وہ دیگوں کی طرف متوجہ ہوتا اور کبھی دیگر امور کی طرف‘ تو کسی نے اس سے پوچھا کہ شادی تو شیر کی ہو رہی ہے‘ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اس پر وہ بولا: 
''شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا!‘‘ 
٭...بندر نے ایک دن شیر سے کہا کہ جنگل میں کیسے کیسے دلچسپ مناظر ہوتے ہیں‘ تم ہر وقت شکار کی لائن میں ہی لگے رہتے ہو۔ کبھی فطرت کا حسن دیکھنے کے لیے بھی وقت نکالو! چنانچہ شیر اس کے ساتھ چل پڑا اور سارا دن اس کے ساتھ گھومتا پھرا۔ دوسرے دن شیر کہیں جا رہا تھا تو اسے ہاتھی اور بندر اکٹھے جاتے ملے۔ انہیں دیکھ کر شیر ہاتھی سے بولا: 
''آج تم اس بدبخت کے ہتھے چڑھ گئے ہو‘ کل اس نے صبح سے شام تک جنگل میں پھرا پھرا کر میری مت مار دی تھی‘‘۔ 
٭...ایک لکڑہار اجنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لیے گیا تو اسے ایک بلی نظر آئی جو اِدھر اُدھر روتی پھرتی تھی۔ لکڑہارے نے اس سے رونے دھونے کی وجہ پوچھی تو وہ بولی: 
''کیا بتائوں‘ میں بھی کبھی شیرنی ہوا کرتی تھی لیکن جنگل کے شیر نے مجھ پر ظلم ڈھا ڈھا کر میری یہ حالت کردی ہے‘‘ لکڑہارے نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اچھا‘ میں کچھ کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد شیر بھی اُدھر آ نکلا جسے دیکھ کر لکڑہارا بولا: 
''تم بلی پر اتنا ظلم کرتے ہو‘ تمہیں شرم نہیں آتی؟‘‘ 
''یہ میرا اور بلی کا معاملہ ہے‘ تم مامے لگتے ہو؟‘‘ شیر بولا: 
''لیکن میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا‘‘ لکڑہارے نے کہا۔ 
''تم کیا کر لو گے؟ ‘‘شیر بولا۔ 
''میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا‘‘ لکڑہارے نے کہا۔ 
''تو آئو‘ کر لو!‘‘ شیر بولا۔ 
''ابھی تو میں ساتھ والے گائوں میں ایک ضروری پیغام دینے جا رہا ہوں‘ تم یہیں ٹھہرو‘ وہاں سے آ کر تمہاری خبر لوں گا‘‘ لکڑہارا بولا۔ شیر نے کہا‘ ٹھیک ہے۔ لیکن لکڑہارا چند قدم دور جا کر رک گیا اور بولا: 
''لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم بھاگ جائو گے!‘‘ 
''سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘ میں کیوں بھاگوں گا‘‘ شیر بولا۔ چنانچہ لکڑہارا دس قدم جا کر پھر لوٹ آیا اور بولا: 
''میری تسلی نہیں ہوتی‘ مجھے یقین ہے کہ تم بھاگ جائو گے‘‘ لکڑہارا بولا۔ 
''تمہاری تسلی کس طرح ہوگی؟‘‘ شیر بولا۔ اس پر لکڑہارے نے کہا کہ میں تمہیں یہاں رسے سے باندھ دیتا ہوں اور واپس آ کر تمہیں کھول کر لڑائی کر لوں گا۔ شیر نے کہا‘ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد لکڑہارے نے اسے درخت کے تنے کے ساتھ کھڑا کیا اور رسے کے ساتھ بل دے دے کر خوب کس کر باندھ دیا اور اس کے بعد اپنی کلہاڑی سے ایک اچھا سا سوٹا بنایا اور شیر کی دُھنائی شروع کردی۔ شیر کی چیخ پکار سن کر بلی بھی اُدھر آ نکلی جسے دیکھ کر شیر بولا: 
''جب میں تمہارے جتنا ہی رہ جائوں گا تو پھر تو یہ مجھے چھوڑ دے گا نا!‘‘ 
پسندیدہ اشعار 
اسدؔ اس جفا پر بُتوں سے وفا کی 
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی 
نہ بینی کہ چوں گربہ عاجز شود
برآرد بہ چنگال چشمِ پلنگ 
............
ع کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے 
اور 
ع اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی 
آج کا مطلع 
ہے اور فضا‘ آب و ہوا اور ہی کچھ ہے 
یکطرفہ محبت کا مزا اور ہی کچھ ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved