تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-08-2014

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

عوام نے 5سال کے لیے منتخب کیا‘
انہیں مایوس نہیں کروں گا...نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عوام نے 5سال کے لیے منتخب کیا، استعفیٰ دے کر انہیں مایوس نہیں کروں گا‘‘ بلکہ وہ خود ہمیں منتخب کرنے کی بجائے باقاعدہ مایوس کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں بروقت پتا چلا گیا اور بروقت تمام انتظام کرلیاگیا اور جس میں بڑی بڑی ہستیوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور بعد میں ہم نے بھی حتی المقدور ان کی خدمت کرکے دکھا دی، ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ '' تمام آئینی مطالبات مان لیے ، اب احتجاج کا جواز نہیں ‘‘ اگرچہ وہ مطالبات انتہائی تاخیر کے ساتھ اور اس طرح سے مانے گئے کہ ان سے مظاہرین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، لیکن مطالبات تو مطالبات ہی ہوتے ہیں خواہ وہ وقت پر مانے جائیں خواہ تاخیر کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ '' حکومت مدت پوری کرے گی‘‘ اور اس کا یقین مجھے برادر خورد زرداری صاحب نے بھی دلایا ہے لیکن ان کی باڈی لینگوئج کچھ اور ہی کہہ رہی تھی حالانکہ خاکسار نے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی، اگرچہ ان کھانوں سے زیادہ تر استفادہ خاکسار نے ہی کیا۔ آپ اگلے دن میاں شہبازشریف سے ملاقات کررہے تھے۔
میرے استعفے کی افواہیں پھیلانے والی سازشی ذہنیت ناکام ہوگی...شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ '' میرے استعفے کی افواہیں پھیلانے والی سازشی ذہنیت ناکام ہوگی‘‘ جبکہ پرچہ درج ہونے پر شاید مجھے خود ہی مستعفی ہونا پڑے، اس لیے افواہیں پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' عوام کی تائید و محبت میرے ساتھ ہے، اعتماد مجروح نہیں کرسکتا‘‘ اگرچہ یہ تائید و محبت اور اعتماد مجھے الیکشن کے بعد ہی حاصل ہوئے ہیں کیونکہ پہلے تو صورت حال خاصی مخدوش تھی جس پر بہت سی مساعی جمیلہ کو کام میں لانا پڑا اور یہ جمیلہ سے شکیلہ ہوتی چلی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ '' مائنس ون فارمولا والے بتائیں کہ نوازشریف کا جرم کیا ہے‘‘ کیونکہ دھاندلی اگر ہوئی بھی ہے تو سارا کام تو فرشتوں نے کیا ہے۔ نوازشریف تو گھر بیٹھے کھانا وغیرہ کھا رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ '' مارچ ، دھرنا سیاست کرنے والوں کا قوم محاسبہ کرے گی‘‘ بشرطیکہ اس سے پہلے ہمارا محاسبہ نہ ہوگیا کیونکہ آنے والے بہت زور آور ہوں گے جن کے سامنے کوئی پرنہیں مارسکتا۔ آپ اگلے دن دنیانیوز سے خصوصی بات چیت کررہے تھے۔
حکمرانوں کے ہاتھوں سے وقت تیزی
کے ساتھ نکل رہا ہے... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے ہاتھوں سے وقت تیزی کے ساتھ نکل رہا ہے‘‘ اور زرداری صاحب کے نمایاں و خفیہ اشاروں کے باعث اس نے زیادہ تیزی کے ساتھ نکلنا شروع کردیا ہے اور اگر اس دبائو سے حکومت پیپلزپارٹی کو بھی شامل اقتدار کرتی ہے تو یہ وقت نہ صرف یہ کہ ایک جگہ پر رک سکتا ہے بلکہ ہمارے خلاف جملہ مقدمات کی سوئی بھی الٹی چلنے لگے گی اور اسی لیے پارٹی کے جملہ زعماء کے بیانات کا لب و لہجہ مخالفانہ ہوتا جارہا ہے تاکہ مظاہرین کے ساتھ ساتھ ہمارے مسائل کا حل بھی نکل سکے۔ انہوں نے کہا کہ '' ملک میں جمہوریت کو بچایا جائے‘‘ کیونکہ جمہوریت کے موجودہ برانڈ سے ہی ہم سب کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
تاجر اور سول سوسائٹی کے افراد حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ '' تاجر اور سول سوسائٹی کے افراد حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ اگرچہ تاجروں کا اظہار محبت برادری ہونے کی وجہ سے ہی ہے کیونکہ حکومت بھی مکمل طور پر ان کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ اس کے سہارے کھڑی ہے لیکن اگر یہ کھڑے کھڑے تھک جائے تو انہیں تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ بھی جانا چاہیے جس دوران وہ حکومت سے مزید مراعات کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ ایسے سنہری مواقع بار بار نہیں آتے جبکہ یہ جب بھی آئے خود ہم نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کبھی کفران نعمت کے مرتکب نہیں ہوئے، ماشاء اللہ۔ انہوں نے کہا کہ '' وزیراعظم کے استعفے اور 30دن گھر بیٹھنے کی باتیں غیر منطقی ہیں ‘‘ کیونکہ گھر بیٹھنا واقعی تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس طرح آدمی باہر کے نظاروں سے یکسر محروم ہوجاتا ہے جبکہ وزیراعظم کا تو اصل کام ہی غیر ملکی دورے ہیں ۔آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
عمران خان کی شفاف انتخابات کے لیے کاوشیں قابل ستائش ہیں...وٹو
پیپلزپارٹی کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی شفاف انتخابات کے لیے کاوشیں قابل ستائش ہیں‘‘ جبکہ زرداری صاحب کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد تو یہ کاوشیں اور بھی قابل ستائش نظر آنے لگی ہیں جو کسی وقت بھی کوئی دھوبی پٹڑہ مار سکتے ہیں کیونکہ جب سے حکومت کمزور ہوئی ہے ہماری پارٹی ایسا لگتا ہے کہ خاصی مضبوط لگنے لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' وزیراعلیٰ پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹائون پر استعفیٰ دینا چاہیے ‘‘ بلکہ اگر یہی لیل و نہار رہے تو وزیراعظم کے استعفے کی بھی سفارش کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ '' ہم جمہوریت کا دفاع کریں گے ‘‘ اگرچہ نیب کے مقدمات کا دفاع کرنے میں آج کل زیادہ مصروف ہیں اور اپنی پرانی مصروفیات کو یاد کرکے دل پشوری کرتے رہتے ہیں کہ وہ سنہری زمانہ کب لوٹ کر آئے گا۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا بیان جاری کررہے تھے۔
آج کا مقطع 
ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved