تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-08-2014

میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں

کیا کریں؟قائد اعظمؒ ہمیں ملک دے گئے۔ 68 سال ہو گئے، ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کا کیا کریں؟ دنیا میں کل 193 ملک ہیں۔ ان میں کئی صدیوں پرانے ہیں، کئی عشروں پرانے ۔ منجھلوں میں شاید ہم سینئر ہوں۔ایک بھی ملک ایسا نہیں جو68 سال کے عرصے میںآئین بنانے اور توڑنے میں ہمارا مقابلہ کر سکے۔انگریز ‘ ایجادات میں مشہور ہیں۔ وہ ہزاروں سال کی تاریخ میں ایک بھی آئین نہیں بنا سکے۔ روایات کا ایک ذخیرہ ہے جس سے کام چلاتے آ رہے ہیں۔ ان سے تحریری آئین کے بارے میں پوچھا جائے تو منہ دیکھنے لگتے ہیں۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا۔ ایک سے زیادہ آئین نہیں بنا سکا۔ آئین تو دور کی بات ہے، آئین میں اتنی ترامیم بھی نہیں کر سکا جتنی ہم ہر نئے آئین میں کر ڈالتے ہیں۔ امریکہ ترقی اور ایجادات میں صف اول کا ملک ہونے کے باوجود‘225سال سے ایک ہی آئین پر گزاراکر رہا ہے؛ حالانکہ موجودہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کو بنتے بنتے کئی عشرے لگے تھے۔ وہ چند ریاستوں سے شروع ہوا اور 50 سے اوپر ریاستوں پر چلا گیا۔ رقبے میں ہر نئے اضافے کے ساتھ‘ آئین میں چند الفاظ کا ردوبدل ہوا۔ نیا آئین بنانے کی توفیق نہ ہوئی۔ اس معاملے میں امریکی قوم اتنی کاہل ہے کہ اس نے قریباً 10 سال کا عرصہ‘ آئینی مسودہ تیار کرنے میں لگادیا۔ اس کی منظوری پر ایک سال لگایا۔ اب تک اسی آئین کو لئے بیٹھا ہے۔ ہم نے ماشاء اللہ بالی سی عمریا میں 10 سے زیادہ آئینی انتظامات کر دکھائے ہیں۔ جن میں مارشل لابھی تھے۔ انہی کوہم نے بطور آئین استعمال کیا۔ عبوری آئین بھی تھے۔ مستقل آئین بھی تھے اور ان میں بھی اتنی کثرت سے ترامیم کیں کہ فیشن کی طرح ہمارا آئین بھی ہرچند سال کے بعد نئے فیشن کے مطابق ہوتا گیا۔ 
آج کل ہمیں پھربے چینی ہو رہی ہے۔ طرح طرح کی آئینی ترامیم ہمارے ذہنوں میں کلبلا رہی ہیں۔ ہر کوئی تبدیلی کی تجاویز دے رہا ہے۔ اگر یہ پارلیمنٹ رہ گئی تو ایک یا جڑواں آئینی ترامیم کو تو ضرور جنم دے کے رہے گی۔ اگر عمر پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پانچ سات ترامیم کہیں نہیں گئیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جن قوموں کو آئین پر عمل کرنا ہوتا ہے‘ وہ ایک پر ہی گزارا کر لیتی ہیں اور جو قومیں آئین کو مذاق سمجھتی ہیں‘ وہ اس سے کھلونے کی طرح کھیلتی ہیں۔ باربار توڑتی ہیں۔ بار بار جوڑتی ہیں۔ جب ٹوٹے ہوئے آئین کے ٹکڑے جوڑنے کے قابل نہیں رہتے تو نیا آئین بنا کے اس سے پھر کھیلنے لگتی ہیں۔ یہی حال حکومتوں کا ہے۔ حکومتیں بنانے اور توڑنے میں سب سے زیادہ شہرت جاپان کی ہے۔ مجھے جاپانیوں کا ریکارڈ معلوم نہیں کہ وہاں 68سال میں کتنی حکومتیں بنیں اور ٹوٹیں؟ یاد رکھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ میرا جاپان سے کونسا واسطہ پڑتا ہے؟ مگر سچی بات ہے‘ مجھے اپنے ملک کی ٹوٹنے بننے والی حکومتوں کی تعداد بھی معلوم نہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے؟ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری‘ نہ تو پہلی یاد میں‘ اپنے ملک میں بنی اور ٹوٹی ہوئی حکومتوں کی تعداد بتا سکتا ہے اور نہ ایک ہی سانس میں گن سکتا ہے۔ عام طور سے آئین کے تحت بنائے گئے قوانین میں معاشروں کوڈھالا جاتا ہے اور ہم اپنے شوق اور مزاج کے مطابق آئین کو بدل دیتے ہیں۔ بطور مسلمان ہماری شان بھی یہی ہے ع
خود بدلتے نہیں‘ قرآں کو بدل دیتے ہیں
آج کل ہم آئین کو پھر سے بدلنے پر تلے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ کچھ لوگ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور کچھ وزیراعظم کو استعفیٰ دینے سے روک رہے ہیں۔ وزیراعظم عجیب مشکل میں ہیں۔ استعفیٰ دینے کی سوچتے ہیں تو ان کی وزارت عظمیٰ پر پلنے والے بے شمار ضرورت مندوں کے ہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے اور وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کے درخواستیں کرتے ہیں کہ ''حضور والا! استعفیٰ مت دیجئے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ہمارا کیا بنے گا؟‘‘ استعفیٰ نہیں دیتے تو اقتدار کے نئے امیدوار رونادھونا ڈال دیتے ہیں کہ ''حضور !ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ خدا کا واسطہ‘ استعفیٰ دے دیجئے۔‘‘ وزیراعظم کے منصب اور ذات سے وابستہ لوگوں کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن وہ لوگ جن کا تعلق وزیراعظم کے خاندان سے ہے اور نہ حکومت سے‘ نیندیں ان کی بھی اڑ گئی ہیں۔ وہ انتخابی دھاندلی کا شور سن کرسونا بھو ل گئے ہیں۔ آنکھ لگتی ہے تو ہڑبڑا کے جاگ جاتے ہیں۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سوچتے ہیں کہ دھاندلی ثابت ہو گئی تو پارلیمنٹ کا کیا بنے گا؟ پارلیمنٹ نہ رہی تو ہمارا کیا بنے گا؟ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یہ سیاست ہی کے معاملات نہیں۔ عام زندگی میں بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔ نوکری مانگنے والا خود اعتمادی سے یہ نہیں بتاتا کہ اس کی تعلیمی اسناد کیا ہیں؟ تعلیم کے میدان میں اس کی کارکردگی کیا ہے؟ امتحانی نتائج میں کیا امتیاز حاصل کیا ہے؟ ہر کوئی پہلے اپنے خاندان میں نظر دوڑاتا ہے۔ کوئی بڑا افسر‘ سیاستدان یا اسمبلی کا ممبر‘ رشتے داروں میں مل جائے تو نوکری کا طلب گار ‘ ماں باپ کو ساتھ لے جا کر رشتہ دار کے گھر ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔ طرح طرح کے خاندانی واقعات کا ذکر کرکے اسے یاد کرایا جاتا ہے کہ ان کے آپس میں کتنے گہرے رشتے ہیں؟ اور پھر رشتے داری کی بنیاد پر اسے کہا جاتا ہے کہ وہ نوکری دلوائے، کیونکہ اس تازہ تازہ دریافت ہونے والے رشتے دار کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ کوئی امتحانات میں امتیازی حیثیت لیتا بھی ہے تو اس کی بنیاد پر نوکری نہیں مانگتا۔ اپنی ساری اسناد دکھانے اور قابلیت کی تفصیل بتانے کے بعد آخر میں وہ بھی یہی کہتا ہے کہ ''جناب! انکار نہ کیجئے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ 
ہمارے وزیراعظم نوازشریف کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ ان کی برادری ماشاء اللہ وسیع و عریض ہے۔ جو رشتے دار تعلیم یافتہ اور لائق ہیں‘ وہ پہلے سے اپنے کام کر رہے ہیں۔ جو تجارت میں ہیں‘ وہ خوشحال ہیں۔ جو ملازمتوں میں ہیں‘ وہ بھی اچھی تنخواہیں لے رہے ہیں، لیکن بہت سے ایسے ہیں‘ جو کچھ بھی نہیں کر پائے۔ ایسے لوگ وزیراعظم کے گھر جا پہنچتے ہیں۔ ساتھ ماں باپ یا بڑے بہن بھائی ہوتے ہیں اور وہ ''قریبی‘‘ عزیز کے لئے جاب کا مطالبہ کرتے ہوئے‘ وزیراعظم سے کہتے ہیں کہ ''اسے کسی اچھی جگہ لگا دیجئے۔ بیچارے کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ الیکشن کے لئے ٹکٹ مانگناہو تو امیدوار کہتا ہے''میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ وزارت مانگنے والا اپنی بپتا سُنا کر رحم کی درخواست کرتا ہے''میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ ان دنوں جتنے بھی لوگ‘ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنے کے دعوے کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر یا تو خود دھاندلی کی پیداوار اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں یا ان کے عزیز بڑے بڑے عہدوں پر قبضے جماچکے ہیں۔ ان سب کو فکر پڑی ہے کہ پارلیمنٹ ٹوٹ گئی توان کا کیا بنے گا؟ لہٰذا وہ اپنی پارٹیاں‘ اپنے نظریات‘ اپنے اختلافات‘ اپنے تعصبات‘ اپنی محبتیں‘ اپنی نفرتیں‘ سب کچھ بھول کر‘ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بچانے کے لئے جانوں پر کھیل جانے کے دعوے کر رہے ہیں، کیونکہ ان سب کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ کبھی ان سے سنجیدگی کے ساتھ پوچھا جائے کہ آپ اسمبلیوں میں کس لئے آئے ہیں؟ تو وہ ملک و قوم کے لئے تعمیر و ترقی کے منصوبے نہیں بتائیں گے، اصلاح معاشرہ کے لئے اپنے خیالات ‘ آپ کے سامنے پیش نہیں کریں گے، نظریات کاذکر نہیں کریں گے، اسمبلیوں میں آنے کی جو غرض و غایت وہ بتائیں گے‘ اس کا خلاصہ یہی ہو گا کہ ''میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ یہی لوگ ہیں‘ جو ہمارے لئے آئین بناتے ہیں، یہی آئین توڑتے ہیں، یہی آئینی ترامیم کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ہر پانچ چھ سال کے بعدیہ اسمبلیوں میں مفادات کی تقسیم پر لڑتے لڑتے‘ ایک دوسرے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ جو اختیارات اور وسائل پر قابض ہوتے ہیں‘ وہ کرسی نہیں چھوڑتے اور عوام تنگ آ کر ''گو سلطان گو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ سلطان ٹھینگا دکھا کر جواب دیتا ہے کہ ''میںاستعفیٰ نہیں دوںگا۔‘‘ کرسی سے ناامید خادمان قوم‘ ڈنڈے والے باباجی کے دروازے پر جا کر صدا لگانے لگتے ہیں کہ ''ہماراکچھ کرو۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ 
جب ساری قوم ہی سارے کام چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے کرتی ہو تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ صرف بچے پیدا کرتی ہے اور انہیں روزی کا ذریعہ بنا کر‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کے واسطے دینا شروع کر دیتی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو بڑے ہو کر اپنے بچے پیدا کرنے لگتے ہیں اور پھر ہم سب کہتے پھرتے ہیں ''میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ پولیو کے قطرے پلانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved