تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-08-2014

جمہوریت کوبدنام کس نے کیا؟

حیران ہوتا ہوں‘ یہ وہی جمہوریت ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا نے ترقی کی‘ جس کا پرچار ہم اس وقت پاکستان میں کر رہے ہیں اور جسے یہاں گالیاں پڑ رہی ہیں ؟ آج جب میرے جیسے جمہوریت پسند اس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ ہمیں سیاستدانوں کے ہاتھوں بک جانے کے طعنے دیتے ہیں‘ کیونکہ اس جمہوریت سے انہیں کچھ نہیں ملا۔ 
پورا یورپ جنگ عظیم دوم میں تباہ ہوگیا تھا ۔ یورپی قوموں نے جمہوریت کو نہیں چھوڑا‘ اپنے آپ کو تباہی سے بھی نکالا اور تعمیر نو بھی کی۔ آج یورپ کسی اور دنیا کا خطہ لگتا ہے‘ جہاں داخل ہونے کی کوشش اور اچھی زندگیوں کی تلاش میں ہمارے غریب لوگ کنٹینروں میں دم گھٹ کے مرجاتے ہیں‘ وہاں ایسی جمہوریت ہے کہ وزیراعظم کی بیوی بھی اگر ٹرین کا ٹکٹ نہ خریدے تو اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔ 
اس کے برعکس ہم اس طرح تباہ بھی نہیں ہوئے تھے جیسے یورپ ہوا تھا مگر آج ان دونوں خطوں کی حالت دیکھ لیں۔ جمہوریت سے یورپی قوموں نے مطلب عوام کی خدمت لیا اور ہمارے ہاں اسے چند طاقتور لوگوں نے لوٹ مار کا ذریعہ بنالیا۔ سیاست لوگوں کے لیے ایک کاروبار بن گئی۔ کاروباریوں نے سوچا کہ پرچون دکان کون چلائے‘ وہ بھی سیاست میں کود پڑے اور آج سب سیاستدانوں کے اپنے اپنے کاروبار بھی ہیں اور حکومتی اختیار بھی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سیاستدانوں کے بچے دودھ‘ دہی اور مرغیوں کا کاروبار بھی کریں اور ان کی قیمتیں بھی خود طے کریں۔ 
آج کل جمہوریت پسند ہمیں روزانہ جمہوریت کا لیکچر دیتے ہیں۔ لگتا ہے ہم سب جمہوریت کے دشمن ہیں اور اگر ہم نے اس طرح کالم لکھنے اور ٹی وی پروگرامز کرنا بند نہ کیے تو جمہوریت ختم ہوجائے گی ۔ تو کیا جمہوریت میڈیا کی وجہ سے خطرے میں ہے ؟ اگر عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان کو سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر میڈیا عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کو کوریج دینا بند کر دے تو آج ہی ملک میں سکون ہوجائے گا ۔ اسفندیارولی اور محمود اچکزئی بھی یہی فرماتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ہر کوئی تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ جب پاکستان کی تاریخ لکھی جائے تو ان کا نام احترام سے لیا جائے۔ کیا تاریخ کبھی ان جمہوریت پسندوں سے نہیں پوچھے گی کہ کہیں ان کے لالچ اور خاندانی بادشاہت نے تو جمہوریت کا بستر گول نہیں کرایا تھا؟ 
لیڈر فرماتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ پچھلے پانچ برسوں میں عوام نے صرف فون کارڈز کی مد میں 125 ارب روپے ٹیکس ادا کیا ہے اور احسن اقبال جیسے لوگ صرف گیارہ ہزار روپے ٹیکس دے کر ''بہتر پاکستان‘‘ پر بھاشن بھی دیتے ہیں۔ کیا اچکزئی اپنے اندر بیٹھے بادشاہ سلامت کو سمجھا نہیں سکتے تھے کہ ہو سکتا ہے ان کے خاندان کے لوگ بہت قابل ہوں لیکن کیا کریں‘ پاکستانی لوگ یہی سمجھیں گے کہ ان کے نزدیک جمہوریت کا مطلب اپنے بھائی کا عہدہ ہے۔ آج وہ کیسے دھمکیاں دے سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی طرف بڑھنے والے ہاتھ توڑ دیے جائیں گے؟ سب جانتے ہیں کہ وہ یہ ہاتھ توڑ کر اپنے گورنر بھائی کی نوکری بچانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح جب زاہد خان اور اسفندیار ولی ہمیں پریس کانفرنس میں جمہوریت کے فوائد گنوا رہے تھے تو ان کی باتوں میں ہمیں کوئی اثر نہیں لگ رہا تھا۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امیر حیدر خان ہوتی کی وزارت اعلیٰ میں خیبر پختون خوا میں چار ارب روپے سے پولیس کے لیے جو اسلحہ خریدا گیا تھا‘ اس میں سے ایک ارب روپے کا کمیشن کھانے والے اور کوئی نہیں، امیر حیدر کے عزیز تھے اور یہ سب تفصیلات نیب پشاور عدالت میں وعدہ معاف گواہ نے پیش کر دی ہیں کہ کیسے دوبئی میں ڈالروں میں یہ کمیشن وصول کیا گیا۔ 
مجھے بتائیں میں کیوں اسفندیار ولی یا زاہد خان کے لاڈلوں کی لوٹ مار کو جمہوریت کا نام دوں۔ کیا کبھی اسفندیار اور زاہد خان نے اس پر بھی پریس کانفرنس کی تھی کہ ان کے صوبے کے بہادر پختون سپاہی اپنی جانیں دے رہے تھے اوران کے عزیز سیاستدان ان کے لیے خریدی گئی بلٹ پروف جیکٹ ، گولیوں اور اسلحہ کے معیار پر کمپرومائز کر کے ایک ارب روپے کما رہے تھے۔ لوگ اس جمہوریت کے لیے کیوں کھڑے ہوں گے جس کی وجہ سے ڈاکٹر عاصم حسین راتوں رات کروڑ پتی بن جائیں یا فہمیدہ مرزا خاموشی سے اپنی شوگر ملز کا ستاسی کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرا لیں یا اسحاق ڈار اپنے بیٹے کو اکتالیس کروڑ روپے کا قرضِ حسنہ دیں اور وہی غریب بیٹا لاکھوں روپے کی پینٹنگز خرید لے یا سلیم مانڈی والا جیسا وزیرخزانہ اسلام آباد کے جدید شاپنگ مال میں خاموشی سے اپنے بھائی کے نام پر سینما ہائوس بنا لے۔ 
باقی چھوڑیں بقول رانا ثناء اللہ کے‘ ہر ایم این اے اور ایم پی اے ہر ترقیاتی سکیم میں سولہ فیصد کمیشن ایڈوانس لیتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دور میں کل ایک سو ستر ارب روپے ایم این ایز اور دیگران میں ترقیاتی فنڈز کے نام پر بانٹا گیا۔ اگر سولہ فیصد ہر ایم این اے نے لیا ہو تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ بیس ارب روپے کا کمیشن ان ایم این ایز نے کھایا تھا۔ پاکستان کی ''زکوٹا جن‘‘ جیسی فیڈرل اور صوبائی بیوروکریسی نے اس میں سے کیا کچھ کھایا ہوگا‘ اس کا حساب نہیں ہوسکتا ۔ اگر سولہ فیصد مرکزی اور سولہ فیصد صوبائی بیورکریسی نے کمیشن کھایا ہو تو سیدھے سیدھے پچاس ارب روپے تو بیوروکریسی اور سیاستدان مل کر کھا گئے۔ اس کے بعد باری لگی ہو گی اس ٹھیکیدار کی جس نے بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو پچاس ارب روپے کا کمیشن کھلایا ہوگا‘ اس نے خود کتنا کمیشن رکھ کر کام کیا ہوگا۔ یوں ایک سو ستر ارب روپے میں سے ایک سو ارب روپے سیاستدانوں، فیڈرل اور پروونشل بیوروکریسی اور ٹھیکیدار کھا گئے ہوں‘ باقی ستر ارب روپے پورے ملک پر خرچ ہوئے ہوں گے تو کام کا معیار کیا ہوگا؟ اور عوام تک کیا پہنچا ہوگا؟ اب آپ کو سمجھ آجانی چاہیے کہ یہ سیاستدان کیوں ضلعی حکومتوں کے خلاف ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ترقیاتی سکیموں کے نام پر پچاس ارب روپے کماتے ہیں۔ اگر یہ فنڈز ضلعی حکومت کو ملنا شروع ہوگئے تو ان کی جیبیں خالی رہ جائیں گی۔ 
سب کو علم ہے کہ جمہوریت کے فوائد عام آدمی کو نہیں‘ سیاستدانوں اور ان کے بچوں کو پہنچتے ہیں ۔ قانون ایسا بنایا گیا ہے جس کے تحت ہر وزیر کو مفت سرکاری رہائش گاہ ملتی ہے۔ اگر وہ اپنے گھر میں رہے تو اسی ہزار روپے کرایہ لے سکتا ہے۔ ہر ماہ تنخواہ اور الائونس کے ایک لاکھ روپے بھی لیتا ہے۔ ہوائی سفر چاہے ملکی ہو یا غیرملکی‘ اس کا ٹکٹ اور رہنے کے لیے ہوٹل اور جو بھی خرچہ ہوگا وہ سرکاری ہوگا‘ ساتھ ہر روز کا ٹی اے ڈی اے بھی ملے گا۔ گاڑیاں‘ پٹرول اور فون تک مفت۔ یہ ساری عیاشی عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ہوتی ہے۔ کوئی بجلی گیس کے بل نہیں دیتا کیونکہ قانون کے تحت ان کے سارے بل عوام نے (ٹیکس سے) ادا کرنے ہیں۔ گھر کا فرنیچر بھی عوام کے پیسوں سے خریدا جاتا ہے اور فردوس عاشق اعوان جیسی وزیر تو جاتے وقت گھر کے پردے، برتن، ٹی وی، فریج، حتیٰ کہ ٹشوز کے ڈبے تک ساتھ لے جاتی ہیں۔ مالِ مفت‘ دلِ بے رحم۔ پھر بھی فرماتے ہیں کہ اگر جمہوریت کو کچھ ہوا تو پاکستان نہیں رہے گا ۔ یہ بھلا کیسی اور کہاں کی جمہوریت ہے کہ پورا خاندان اقتدار میں بیٹھ کر عوام کے خرچے پر عیاشیاں کرتا ہے اور اگر کوئی سوال کرے تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے اور وہ ہاتھ میں مائیک لے کر ٹی وی پر ہمیں دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں کہ جمہوریت کو کچھ ہوا تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔ 
اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی دور میں بوئنگ طیارے کی خریداری میں ہونے والی کرپشن پر انکوائری کمیٹی بنائی تھی جس کے سربراہ خواجہ آصف تھے۔ اس ڈیل میں کروڑوں ڈالرز کمائے گئے تھے۔ کہاں گئی وہ انکوائری؟ جن کے خلاف انکوائری ہونی تھی‘ ان سے وہ رائے ونڈ میں بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے۔ جس کے خلاف وہ اپنے سیکرٹری قانون کو ہدایت دے چکے تھے کہ وہ سوئٹزر لینڈ کی عدالت میں دوبارہ کیس فائل کریں کہ وہ ان کی شہید زوجہ کا لاکھوں ڈالرز کا ہار زرداری صاحب کو نہ دیں اور اس کے لیے وکیل کو فیس بھی دی جا چکی تھی۔ اب انہی سے مشورے ہورہے ہیں کہ جمہوریت کو کیسے بچائیں۔ تو پھر لوگ کیوں نہ آپ سے پوچھیں کہ یہ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ لوگوں نے متعارف کرارکھی ہے۔ مجھے خود نواز لیگ کے ایک وزیر نے بتایا کہ ہر میگا پروجیکٹ میں تیس فیصد کمیشن کھایا جارہا ہے۔ اس نے میگا پروجیکٹ کے لیے بڑے پیمانے پر سریا خریداری کی کہانی سنائی کہ کیسے ایک بڑے خاندان کے کارخانے کو باقاعدہ اربوں روپے کی ادائیگی ایڈوانس میں کی گئی ہے۔ 
جب یہ طے کر لیا گیا ہے کہ ان سیاستدانوں نے جمہوریت کا نام لے کر کرپشن کرنی ہے تو پھر ان کے مگرمچھ کے آنسوئوں پر کون بھروسہ کرے گا‘ چاہے وہ آنسو محمود خان اچکزئی کے ہوں یا اسفندیار ولی کے؟ حضور... عوام اور میڈیا نہیں بلکہ آپ نام نہاد جمہوریت پسند ہی جمہوریت کے دشمن ہیں اور آپ ہی نے اسے بدنام کر رکھا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved