تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-08-2014

ٹانگ‘ پھلانگ‘ بانگ اور مزید انتظار حسین

انتظار حسین میرے سینئر ہیں‘ لیکن اتنے بھی نہیں کہ ان کے ساتھ لڑائی نہ لے سکوں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ بھئی یہ کیا نوراکُشتی ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکل پاتا۔ ان کا مطلب یا خواہش شاید یہ ہے کہ یہ لڑائی ایسی ہو کہ بقول صوفی تبسمؔ ؎ 
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم 
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم 
تاہم مسئلہ چونچ یا دم کا نہیں بلکہ ٹانگ کا تھا۔ ایک صاحب نے ہوٹل میں جا کر مرغِ مسلم کا آرڈر دیا۔ بیرا جب کھانا لے کر آیا تو مرغے کی ایک ٹانگ غائب تھی۔ ان صاحب نے پریشان ہو کر پوچھا‘ اس کی دوسری ٹانگ کدھر ہے؟ تو بیرا بولا: 
''جناب‘ یہ دو مرغے لڑ پڑے تھے جس کی وجہ سے اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی!‘‘ 
''میرے لیے وہ مرغا لائو جو اس لڑائی میں فتحیاب ہوا تھا‘‘ وہ صاحب بولے۔ 
سو‘ چونچ اور دم سے ہوتا ہوا یہ ٹانگ کا ذکر ایک بار پھر آ گیا ہے تو وہ جملہ بھی کہ مرغے کی ایک ہی ٹانگ۔ یہ اصل اور پوری کہانی کیا ہے‘ اس پر سے انتظار حسین ہی پردہ اٹھا سکتے ہیں کہ جاتک کہانیاں تو انہیں پوری کی پوری ویسے بھی حفظ ہیں‘ ان میں دیگر پنکھی پکھیروئوں کی طرح کہیں مرغا مرغی بھی در آتے ہوں گے؛ تاہم میں کوشش کروں گا کہ اب انتظار صاحب کی ٹانگ کا ذکر مزید نہ آئے کہ پہلے ہی بہت آ چکا ہے یعنی ع 
لذیذ بُود حکایت دراز تر گُفتم 
اب لفظ ''لذیذ‘‘ سے پھر خیال مرغے کی بھنی ہوئی ٹانگ کا آ جاتا ہے جو جیب میں پیسے نہ بھی ہوں تو کھائی جا سکتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک صاحب ہوٹل میں گئے اور مرغِ مسلّم سمیت کئی دیگر ڈشوں کا بھی آرڈر لگایا۔ کھانا سیر ہو کر کھانے کے بعد موصوف نے بیرے کو بلایا اور کہا‘ ''دیکھو‘ میں نے پچھلے سال بھی یہاں سے کھانا کھایا تھا لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے اور تمہارے منیجر نے تم لوگوں سے میری دھلائی بھی کرائی تھی اور پھر ہوٹل سے باہر پھنکوا دیا تھا‘‘۔ 
''صاحب جی‘ مجبوری تھی‘ کیا کریں‘ ہم تو ملازم لوگ ہیں‘‘ بیرا بولا: ''معافی چاہتا ہوں‘‘۔ 
''معافی وغیرہ کی ضرورت نہیں‘‘ وہ صاحب بولے۔ ''تم لوگ تیار ہو جائو‘ میرے پاس پیسے آج بھی نہیں ہیں!‘‘ 
مرغے کے ساتھ اگر مرغی کا ذکر نہ آئے تو بہت زیادتی ہے جو عام طور پر کُڑکُڑ کہیں کرتی ہے اور انڈے کہیں اور دیتی ہے۔ یوں بھی ہم اس کی قدر نہیں کرتے حالانکہ یہ سونے کا انڈہ بھی روزانہ دے سکتی ہے۔ پھر‘ ہم بے صبرے بھی تو فاسٹ بائولر عمران خان کی طرح واقع ہوئے ہیں کہ ہر روز ایک انڈہ وصول کرنے کی بجائے ذبح کر کے‘ یا اس کے بغیر ہی اس کا پیٹ پھاڑ ڈالتے ہیں کہ سارے انڈے ایک ہی دفعہ دستیاب ہو جائیں اور‘ ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ دیکھیں‘ اس شورا شوری میں عمران خان کے ہاتھ کیا آتا ہے۔ 
سو‘ جہاں تک محاورے کا تعلق ہے تو عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک ہم نے بھی باندھ رکھا ہے یعنی ؎ 
چارپائی پہ یوں نہ بیٹھا کھانس 
اُٹھ کے بوڑھی سی کوئی مرغی پھانس 
یہ شعر انتظار صاحب کے لیے بھی کارگر ہو سکتا ہے کہ ہر کام تقاضائے عمر کے مطابق ہی کرنا چاہیے؛ چنانچہ مرغی کا انتظام باہر سے ہی کرنا چاہیے کیونکہ گھر کی مرغی تو ویسے بھی دال برابر ہوتی ہے۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ مرغی کا ذکر تکرار سے کر کر کے مرغوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جبکہ ان کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا زمانہ تھا کہ جب گائوں میں اس وقت تک صبح ہی نہیں ہوتی تھی جب تک مرغا بانگ نہیں دیتا تھا۔ وہ بُڑھیا والا قصہ تو آپ نے بھی سُن رکھا ہوگا۔ پھر‘ اس کا ایک فائدہ یا فضیلت یہ بھی ہے کہ اس سے ہوا کا رُخ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے‘ اور اسی لیے اسے مرغِ باد نُما بھی کہا جاتاہے‘ بلکہ اس سے تو سواری کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ مکرر منقول ہے کہ ایک صاحب گھوڑے پر سوار اپنے تعلق داروں سے ملنے کے لیے اُن کے گائوں میں پہنچے تو ان کی خاطر و مدارت کے لیے گوشت کی ضرورت محسوس کی گئی جو کہ دستیاب نہ تھا‘ اور مہمان سے بار بار اس سلسلے میں معذرت بھی کی گئی۔ اتفاق سے صحن میں اُن کا ایک مرغا بھی پھر رہا تھا۔ جب گوشت کی ضرورت کی تکرار حد سے بڑھی تو مہمان نے کہا کہ اگر گوشت پکانا اتنا ہی ضروری ہے تو آپ میرا گھوڑا ذبح کرلیں! 
''وہ تو ٹھیک ہے‘ لیکن آپ واپس کس پر جائیں گے؟‘‘ گھروالوں نے پوچھا۔ 
''کوئی بات نہیں‘ میں آپ کے مرغے پر بیٹھ کر لگا جائوں گا‘‘ مہمانِ عزیز نے جواب دیا۔ 
مرغوں کے ساتھ ایک زیادتی کا حوالہ یہاں بے حد ضروری ہے کہ جب مرغانِ چمن کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد مرغے نہیں بلکہ دیگر پرندے یعنی بلبلیں اور کوئلیں وغیرہ ہوتی ہیں جنہیں بہرحال بھُون کر کھایا نہیں جا سکتا۔ مرغی کے خودکفیل ہونے کا معاملہ بھی قابل غور ہے کہ یہ مرغے کے بغیر بھی انڈے دے سکتی ہے‘ فارمی انڈے جس کی ایک درخشاں مثال ہیں‘ یعنی مرغی کا گزارا تو مرغے کے بغیر ہو سکتا ہے‘ مرغے کا مرغی کے بغیر نہیں۔ البتہ دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مرغی کو پھانسنا پڑتا ہے جبکہ مرغ کو پکڑ کر بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے‘ البتہ مرغی شفقتِ مادری سے محروم ہوتی ہے یعنی جب دھوپ اور گرمی سے اس کے پائوں جلنے لگیں تو وہ اس سے بچنے کے لیے اپنے بچے بھی پائوں کے نیچے رکھ لیتی ہے! 
بات تو مرغے کی ٹانگ‘ بلکہ انتظار صاحب کی ٹانگ سے شروع ہوئی تھی‘ مرغیاں درمیان میں اپنے آپ ہی آتی چلی گئیں اور ٹانگ کا ایک مصرف اُسے توڑنا بھی ہے جیسے کہ ہم بعض اوقات شاعری کی ٹانگ توڑ دیتے ہیں۔ صاحبِ موصوف نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مہاتما بدھ کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا ذکر کیا ہے حالانکہ اس کی مورتیوں میں جسم کا شاید ہی کوئی حصہ ٹوٹ پھوٹ سے بچا ہو‘ حتیٰ کہ ایک مجسمے کی یار لوگوں نے ناک تک توڑ رکھی ہے۔ بہرحال‘ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم صاحبِ موصوف کی ٹانگ کی کُلی صحتیابی کے لیے دعا کریں۔ 
ایک بزرگ کو ٹانگ میں درد کی شکایت رہتی تھی۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گئے جس نے مکمل دیکھ بھال کے بعد کہا کہ یہ پیرانہ سالی کی وجہ سے ہے‘ جس پر بابا جی بولے: 
''لیکن ڈاکٹر صاحب‘ میری دوسری ٹانگ کی عمر بھی تو اتنی ہی ہے‘ اس میں درد کیوں نہیں ہوتا‘‘ 
سو‘ ہم اپنے دوست کو بہانے بہانے سے یاد کرتے اور خوش ہوتے رہتے ہیں؛ تاہم امید ہے کہ آئندہ وہ کوئی اچھا بہانہ بھی مہیا کریں گے حالانکہ جانتے ہیں کہ ؎ 
یاد اُس کی اتنی خوب نہیں‘ میرؔ باز آ 
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا 
آج کا مطلع 
لہو کی سرسبز تیرگی ہے کہ رنگ اُڑتے لباس کا ہے 
سمجھ میں آئے کہاں کہ منظر حواس کے آس پاس کا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved