تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     28-08-2014

مطالعہ اور خوراک

مجھے حال ہی میں تین کہانیوںنے بہت متاثر کیا۔ پہلی کہانی ایک ٹی وی چینل پر دکھائی گئی۔ اس کے مطابق حالیہ دورے کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری کی رائے ونڈ محل میں ستر کھانوںسے تواضع کی گئی۔ دستر خوان پر دال چاول اور بھنڈی بھی رکھی گئی تھی لیکن مچھلی کے تکوں اور ہرن کے گوشت کی موجودگی میں دال چاول یا بھنڈی کی طرف کس نے دیکھا ہوگا؟ خورونوش کی شہرت رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے سابق سیاسی حریف اور موجودہ ''بڑے بھائی‘‘ کی تسکینِ کام و دہن میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ بہت سے سفارت کاروں سے میں نے شریف برادران کی کہانیاںسنی ہیں کہ جب وہ غیر ملکی مہمانوں، جیسا کہ صدر یا وزیرِ اعظم، سے ملتے ہیں تو ان کا اصل ایجنڈا کیا ہوتا ہے؟وہ متعلقہ سفارت کار سے دریافت کرنا نہیں بھولتے۔۔۔''لنچ یا ڈنر میں کیا ہے؟‘‘اُنہیں اس سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا کہ غیر ملکی میزبان سے ملنے کے لیے کن پوائنٹس کا جائزہ لیا جانا ہے یا بات چیت کا کیا موضوع ہونا چاہیے یا دونوں ممالک کے دوطرفہ تعاون کے لیے کیا چیز سود مند ہوسکتی ہے؟
دوسری کہانی، جو مجھے بھائی، وہ پاکستانی اساتذہ اور والدین کی طرف سے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا عمل ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب دیں۔ اس سے وہ برداشت اور تحمل جیسی خوبیاں سیکھ سکتے ہیں جو ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گی جب وہ جوان ہوںگے۔ ہمارے معاشرے میں ان خوبیوں کا فقدان ہے اور اس کی وجہ مطالعہ کی کمی اور معلومات کی زیادتی ہے۔ جب آپ تنقیدی مطالعہ نہیں کرتے تو ملنے والی معلومات کا تجزیہ نہیںکرپاتے۔ چنانچہ یا تو آپ کسی خبر پر بلاتحقیق یقین کرلیںگے یا اسے بیک جنبش ِ قلم رد کردیںگے۔اس ماحول میں مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ''سی ایل ایف‘‘ (چلڈرن لٹریچر فیسٹول) ، کراچی میں گزشتہ فروری کو منعقد کیا تاکہ بچوں کو مطالعہ کی طرف راغب کیا جا سکے۔ آ کسفورڈ یونیورسٹی پریس ، پاکستان ، کی ایم ڈی امینہ سید نے اپنے پیغام میں کہا۔۔۔ ''مطالعہ کی عادت بچوں میں زندگی کے تصورات اجاگر کرتی ہے۔ یہ اُن میں قوتِ فیصلہ پیدا کرتی ہے اور نت نئی معلومات سے آشنا کرتے ہوئے اُن کی ذہنی آبیاری کرتی ہے۔ اس سے وہ دیگر ممالک اور وہاں کی بودو باش سے آگاہ ہوتے ہیں۔‘‘
تیسری کہانی دراصل اُس بات کی تصدیق ہے جو امینہ نے کہا ہے۔۔۔ دیگر ممالک اور ان کی ثقافت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا۔ اس کہانی کا تعلق ملالہ یوسف زئی اور اس کی مطالعہ کی عادت سے ہے۔ دنیا کے سب سے بااثر اخبار، دی نیویارک ٹائمز نے ملالہ کی کتاب پر تبصرہ شائع کیا ہے۔ اس میں سترہ سالہ پاکستانی بہادر لڑکی کی پوری تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ جب ملالہ سے پوچھا گیا کہ اُسے کون سے مصنف اور کتابیں پسند ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ میں اُس کا جواب سن کر چونک گئی۔ یقینا جب سے وہ مغربی دنیا میں آئی ہے اور اس نے دنیا کے اہم مقامات کی سیر کی ہے، اس کی ذہنی سطح بلند ہوگئی ہے۔ 
اپنی کتاب۔۔۔''میں ملالہ ہوں‘‘ میں وہ کہتی ہے کہ اسے ''The Wizard of Oz‘‘ بہت اچھی لگی تھی۔ یہ کتاب اُس نے اُس وقت پڑھی تھی جب وہ قاتلانہ حملے کے بعد برطانیہ میں زیر ِ علاج تھی۔جب نیوریارک ٹائمز کے نمائندے نے اُس سے پوچھا کہ اُس نے حال ہی میںکون سی کتاب پڑھی ہے تو اُس کا جواب تھا، ''Of Mice and Men‘‘، جس کے مصنف جان سیٹن بیک ہیں۔ ملالہ کا کہنا تھا کہ اُسے 1930ء کی دہائی کی وہ صورت ِ حال بہت پسند ہے کہ جس کی عکاسی جان سٹین بیک اپنی کہانیوں میں کرتے ہیں۔ ملالہ کا کہنا ہے ۔۔۔''مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ اُس وقت عورتوںسے امریکہ میں کیسا سلوک کیا جاتا تھا اور غریب مزدور کیسی زندگی بسر کرتے تھے۔یقینا کتابیں انسانی معاشروں میں روا رکھی جانے والی ناانصافی کو محفوظ کرلیتی ہیں تاکہ بعد میں آنے والے ان کے بارے میں جان سکیں۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم پاکستانیوںنے جان سٹین بیک کو پڑھا ہوگا۔ وہ ایک سنجیدہ مصنف ہیں اور سنجیدہ موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔ ستائیںکتابوںکے مصنف اس امریکی کو 1962ء میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ ان کی کتابوںمیں واقعات نگاری کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی پائی جاتی ہے لیکن کہانی کا بھرم قائم رہتا ہے۔ جان سٹین بیک کو پڑھنے کا مطلب ہے کہ ملالہ کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ جب اُس سے اس کی پسندیدہ ترین کتاب کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے Paulo Coelho کی The Alchemist کا نام لیا۔ اس ناول میں ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو ایک خزانے کی تلاش میں سفر اختیار کرتا ہے لیکن اس سفر کے دوران اُسے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے جو ایک خزانے سے کم نہیں ہوتا۔ آخر میں اُسے خزانہ مل بھی جاتا ہے۔ اس کہانی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمیں خود پر یقین کرنا چاہیے۔ 
اس کا مطلب ہے کہ سترہ سالہ ملالہ ذہانت اور آگاہی کا سفر طے کررہی ہے۔ سوات کی یہ نوجوان لڑکی اب عالمی معاملات پر بات کررہی ہے۔ وہ ادب کی دنیا سے بھی آشنا ہے، وہ سیاست پر بھی بات کرلیتی ہے، اس کے پاس مستقبل کا تصور بھی موجود ہے۔ ہمارے بچے کیا پڑھتے ہیں؟ غلط سوال۔ کیا وہ کچھ پڑھتے ہیں؟دراصل یہ آج کے پاکستانی والدین کے سامنے ایک سنجیدہ سوال ہے۔ خبر ہے کہ پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کی تعداد گررہی ہے۔ میں حیران ہوں کہ چند عشروں کے بعد کوئی شخص اخبار پڑھ سکے گا؟بہت سنگین سوال ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کو ہنسی آئے۔۔۔ اپنے ارد گرد رہنے والے سو سے زائد افراد سے، جن کی عمر تیس سال سے کم ہو، پوچھ کر دیکھیں کہ کیا انہوں نے اپنی نصابی کتب کے علاوہ کوئی اور کتاب پڑھنے کی زحمت کی ہے۔ مزید سنجیدہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یقین کریں ہمیں اس مسئلے پر مسلسل دھرنے دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو تعلیم یافتہ جاہل بننے سے بچا سکیں۔ یہ نہ عمران کا مسئلہ ہے اور نہ قادری صاحب کا۔ یہ ہر والدین کا مسئلہ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved