تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-08-2014

اس شکست کا مطلب کیا ہے ؟

چار صوبوں میں ہوئے انتخابات میں بی جے پی کی ویسی خراب حالت تو نہیں ہوئی‘جیسی اتراکھنڈ میں ہوئی تھی یعنی کوئی صوبہ ایسا نہیں ہے ‘جہاں بی جے پی یا اس کی اتحادی پارٹی نہ جیتی ہو۔بی جے پی کا پورا صفایا کہیں نہیں ہوا۔ ہو بھی کیسے سکتا تھا؟ ابھی تین مہینے پہلے لوک سبھاچنائو میں اسے جیسی واضح اکثریت ملی تھی‘اسے دیکھتے ہوئے شطرنج کا یک دم الٹ جانا ممکن نہیں تھا۔ پچھلے تین مہینے میں مودی سرکار نے ایسا کچھ نہیں کیا ‘جس سے غصے میں ہو کر عوام اسے جھکا سکیں؟ 
لیکن مجموعی اٹھارہ میں سے دس نشستوں کا کیا مطلب؟ بی جے پی کل 8 نشستوں پر ہی جیت پائی۔پنجاب میں تو ایک سیٹ اس کی اتحادی پارٹی اکالی دل کو ملی ۔باقی تینوں صوبوں بہار‘ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں اس نے پہلے سے جیتی ہوئی نشستیں کھوئی ہیں۔ حالانکہ صوبائی الیکشن میں مقامی مدعوں (ایشوز) کا ہی زیادہ اثر ہوتا ہے لیکن یہ سوال اٹھنا فطرتی ہے کہ کیا مودی کا جادو اب پھیکا پڑنے لگا ہے ؟ میرے خیال سے سوال ہی غلط ہے ۔کیونکہ لوک سبھا انتخابات میں جو اصلی جادو چلا تھا ‘وہ تھا سونیااور من موہن بدعنوانی کا!اس بدعنوانی کے کیچڑ میں مودی کا کمل (کنول) کھلا تھا۔ اب چاہے صوبائی الیکشن ہوں یا لوک سبھا کے۔ حقیقی ایشو تو بھارت کے پردے سے غائب ہو گیا ہے ۔اب اگر مودی سرکار کوئی کرشماتی جلوہ دکھائے گی تو پھر ہی اسے ووٹ مل سکیں گے۔ تقریراب پھیکی پڑ گئی ہے ۔بہار میں اپوزیشن کے اتحادیوں کو نشستیں بھی زیادہ ملیں اور ان کے ووٹوں کی تعداد بھی بی جے پی سے کہیں زیادہ ہو گئی۔ اگر اسی طرح کے اتحاد دیگر صوبوں میں بھی ہو گئے تو کوئی حیرانی نہیں کہ اگلے دو ڈھائی سال میں ہی مرکزی سرکار کی رخصتی کے ڈھول بجنے لگیں ۔
تازہ صوبائی انتخابات کے نتائج اور اس سے پہلے مقامی چنائو (بلدیاتی انتخابات) کے نتیجوں نے خطرے کی گھنٹی ابھی سے بجا دی ہے ۔اگر بی جے پی کے لیڈر لوک سبھا چنائو کی جیت کو اپنی عوام پسندی کا ثبوت سمجھ بیٹھیں گے تو وہ بہت بڑی غلطی کریں گے۔ یہ فتح تو صرف ایک موقع ہے۔ اس موقع کو بی جے پی کیسے بھناتی ہے‘اس پر اس کے مستقبل کا دارومدار ہوگا۔اسے یہ نہیں بھولنا ہو گا کہ بھارتی سماج ابھی بھی ذات پات‘علاقائی اور مذہبی مشکلات میں جکڑا ہوا ہے ۔اب جن صوبوں کے چنائو اگلے دو سال میں ہونے ہیں ‘وہاں یہی روایتی طبقے اثر و کردار ادا کریں گے ۔یا انہی طبقوں کی تگڑم لڑانے میں بی جے پی مہارت حاصل کرے یا وہ خاص تبدیلی کے کوئی کرشماتی قدم اٹھائے۔
'سی سیٹ‘ وزیراعظم کا امتحان 
یونین پبلک سروس کمیشن کے افسر کتنے بے شرم اور ضدی ہیں؟ سی سیٹ (C.SAT)کا تازہ سوالی پیپر اس کا جواب ہے!چوبیس اگست کو ہوئے امتحان میں ملک بھر سے چار لاکھ پچاس ہزار طلبا بیٹھے۔ انہیں سوالات کا جو پرچہ دیا گیا‘اسے آپ دیکھیں تو دانتوں تلے انگلی دبا لیں۔ کمیشن کی طرف سے سرکار نے پارلیمنٹ کو جودلاسے دیے تھے اس کوئسچن پیپر نے ان کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
سرکار نے دو دلاسے دیے تھے ایک تو یہ کہ 22.5 نمبروں کے جو سوالات صرف انگریزی میں ہوتے ہیں‘ ان کے جواب طلبا کو نہیں دینے ہوں گے۔ یعنی دو سو نمبر کے پرچے میں سے 22.5 نمبر نکال دیے جائیںگے۔لیکن ہوا کیا ؟ہوا یہ کہ اس بار انگریزی کے سوالوں کی تعداد9 سے کم ہوکر 6 کر دی گئی۔ یعنی طلبا کو‘ 22.5 نمبروں کے بجائے 15نمبروں کی ہی چھوٹ ملے گی ۔7.5 نمبرںکی یہ ٹھگی کمیشن نے کس سے پوچھ کر کی ؟ٹھگی کا صاف مطلب تو یہ ہے کہ کمیشن کو اس وزیر کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہے ‘ جس نے سینہ تان کر 22.5 نمبروںکے انگریزی سوالوں کی چھوٹ کا اعلان کیا تھا۔ 
اس امتحان میں قوت فیصلہ ‘مسائل کے حل کی اہلیت اور باہمی تعلقات کی لیاقت کا حساب ہوتا ہے ۔اس بار اس طرح کے سوال پوچھے ہی نہیں گئے ۔اسی طرح ریاضی جیسے موضوعات کے متعلق47 سوال پوچھے گئے جبکہ ہمیشہ چالیس سوال پوچھے جاتے ہیں ۔طلبا کے ذہنی ٹیسٹ کے متعلق چھ سے سات سوال پوچھے جاتے ہیں ۔وہ بھی اس بار نہیں تھے۔ دوسرے الفاظ میں 'سی سیٹ‘کے جس پرچے پہ سب سے زیادہ اعتراض تھا ‘اس نے اب پہلے سے بھی زیادہ قابلِ اعتراض صورت اختیار کر لی ہے ۔کریلا اور نیم چڑھا۔تحریک کرنے والے طلبا کی ایک بڑی ڈیمانڈ یہ تھی کہ 'سی سیٹ‘ کے سوالوں کی کیفیت بدلی جائے۔ ان کا جھکائو ایسا ہوتا ہے کہ جس سے ریاضی اور سائنس کے طلباکو ضرورت سے زیادہ فائدہ ملتا ہے اور معاشرتی مضامین اور آرٹس کے طلبا کو بلاوجہ نقصان ہوتا ہے ۔
اتنا ہی نہیں ‘اس پرچے میں ہندی ادب والے طلبا کیلئے جو سوال پوچھے گئے ہیں ‘وہ خاص ہندی میں نہیںبلکہ انگریزی میں ہیں۔ ان کا ہندی ترجمہ اتنا فضول ہے کہ اس کی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ اس کمیشن کو فوراً ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ وطن پرست افسروں کو تعینات کیا جائے۔کمیشن نے جو فضول ترجمہ کیا ہے ‘اس نے پارلیمنٹ کے منہ پر کالی دوات مل دی ہے‘ اس نے ہندی کی بے عزتی کی ہے ‘اس نے سرکاری زبان کوٹھوکر لگائی ہے اور لاکھوں طلبا کو للکار دی ہے کہ وہ غلامی کے اس گڑھ کمیشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں یا یہ ٹھیک ہو جائے۔کئی ہندی اخباروں نے اس بے کار ترجمے کے نمونے پیش کیے ہیں۔ انہیں میں دہرا نہیں رہا ہوں لیکن پوچھتا ہوں کہ اب ان طلبا کو سرکار کیا جواب دے گی ؟ان طلبا کو تحریک ختم کرنے کیلئے میں برابر سمجھاتا رہا لیکن میں اب ان سے کیسے کہوں گا کہ یہ نریندر مودی کی سرکار ہے ؟یہ تو من موہن کی سرکار سے بھی زیادہ نکمی اور دبو سرکار نکلی !تین ہفتے وہ وزیر کیا کرتا رہا‘ جس نے پارلیمنٹ کو بھروسہ میں رکھا؟ضروری ہے کہ 'سی سیٹ‘ کے پرچوں کو اب پوری طرح بدلا جائے۔ انہیں خاص ہندی میں بنایاجائے ۔ سبھی بھارتی زبانوں میں ہوں۔ یہ وزیر اعظم کا پہلا امتحان ہے ۔اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو مان لیجئے کہ اس سرکار کے نیچے لڑھکنے کا سفر رواں ہو گیا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ مودی ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ 
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved