آج وزیروں کی ایک جوڑی نے‘ اچانک دوپہر کے وقت ‘نمودار ہوکر ٹی وی چینلوں پر دعویٰ کیا '' ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیشن کورٹ کے اس حکم کے خلاف جس میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کرنے نہیں جا رہے۔ہم نے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دے دی ہے اور ہم قانون کے مطابق اپنا دفاع کریں گے‘‘۔الفاظ بہت اچھے ہیں۔قانون پسندی بھی قابل تعریف ہے۔کاش وزیروں کی جوڑی نے یہ کام از خود کیا ہوتا۔جس ایف آئی آر کا ذکر ہے‘ وہ73دن پہلے پولیس کے اعلیٰ حکام کے سپرد کی گئی تھی اور ملک کے ایک سابق وزیراعلیٰ اسے جمع کرانے والوں کے ساتھ گئے تھے لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔میں نہیں جانتا کہ موجودہ حکومت کے وہ کون سے خیر خواہ ہیں؟ جو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے ایف آئی آر کے اندراج میں‘ رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے حالانکہ یہ ایک بنیادی حق ہوتا ہے۔ منہاج القرآن میں جو14 خواتین اور مردوں کو اندھا دھند گولیاں برسا کر‘ شہید کر د یا گیا تھا‘ ان کی ناجائز ہلاکتوں کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آردر ج کرانے کی انتھک کوششیں کی گئیں لیکن پولیس کے اہلکار ٹس سے مس نہ ہوئے۔ متعلقہ تھانے کا عملہ پراسرار طور سے روپوش ہو گیا۔میڈیا پر شور اٹھا۔ علامہ طاہرا لقادری‘ جن کی جماعت کے لوگ شہید کئے گئے تھے‘ وہ مطالبے کرتے رہے لیکن عوام کے نرغے میں آئی ہوئی حکومت نے‘ اس ایف آئی آر پر بھی سودے بازی کرنے کی کوشش کی۔وزیروں کی جوڑی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے میڈیا کے سامنے‘ یہ موقف اختیار کیا کہ ''ہم نے ڈاکٹر طاہر القادری کو پیش کش کی کہ ہم آپ کی ایف آئی آر درج کر لیتے ہیں اور آپ اپنا دھرنا ختم کر لیں‘‘۔بزعمِ خودمنتخب حکومت کے یہ اراکین‘ کیسی گھٹیا سودی بازی کر رہے تھے؟ یعنی وہ مظلوموں کے حقوق غصب کر کے‘ ان پر سودی بازی کر رہے تھے۔
ایسی سودا بازی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ایف آئی آر لکھوانا ‘ہر شہری کا قانونی حق ہے۔ اسی طرح احتجاجی مظاہرہ کرنے کا حق بھی‘ عوام کو قانون نے دیا ہے اور منتخب حکومت کے دو وزیر‘ یہ بنیادی حق دینے کے عوض‘ اپنے لئے رعایت مانگ رہے تھے یعنی وہ ایف آئی آر لکھوانے اور احتجاج کرنے کے اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر‘ وزیروں کے ممنون احسان ہوں۔ بدلے میں وہ ان کے غصب شدہ آئینی حق وا گزار کرنے کو تیار تھے۔بات یہیں تک رہتی تو بھی غنیمت تھا لیکن ادنیٰ سودے بازی کا یہ معاملہ‘ وزیراعظم ہائوس تک گیا اور وہاں کے نمائندوں نے سیاسی احتجاج ختم کرنے کے عوض‘ایف آئی آر کے اندراج کی ''رعایت‘‘ دینے کی پیش کش کی۔ کسی ''آئینی اور جمہوری‘‘ ملک میں منتخب حکومت کو ایسی سودے بازیاں کرتے ہوئے کسی نے دیکھا ہے؟ اللہ جانے یہ لوگ اپنے ذہن اور ضمیر کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے ایف آئی آر کا اندراج رکوانے کے لئے‘ سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی ۔ پولیس کو اعلیٰ ترین عہدیداروں نے دہشت زدہ کررکھا تھا کہ اگر اس نے ایف آئی آر درج کی تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مقتولوں کے ورثا آہ وفغاں کرتے ہوئے تھک گئے۔ ان کے وکلاء تھانوں میں بیٹھ بیٹھ کے پریشان ہو گئے۔ کوئی ان کی ایف آئی آر لکھنے کو تیار نہیں تھا اور پولیس نے اپنے طور پر جو ایف آئی آر لکھی ‘ اس میں مقتولوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ سنا ہے کہ پولیس کی طرف سے لکھی گئی ‘اس ایف آئی آر میں صرف پولیس ایکشن کے بارے میں لکھا گیا تھا ‘جس میں پولیس والوں کو چوٹیں لگیں اور وہی زخمی ہوئے۔ کسی ہلاکت کا ذکر تک نہ تھا۔ اس نا انصافی کے خلاف‘ مدعیان فریاد لے کر‘ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج‘ راجہ اجمل خان کی عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے ایک منصف کی طرح‘ ہر طرح کے خوف وخطر سے بے نیاز ہو کر‘ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ 21ملزموں کی فہرست میں ملک کے وزیراعظم‘ صوبے کے وزیراعلیٰ‘ وفاقی اور صوبائی وزیروں اور دیگر اہم شخصیتوں کے نام شامل تھے۔پاکستان کے شاہی خاندان ‘ کے دو افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن راجہ اجمل خان نے ‘بے پناہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ مظلوموں کا ساتھ دیا حالانکہ انہوں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا تھا لیکن پاکستان میں ایسا کب ہوتا ہے؟ اس عدالتی حکم کے باوجود ایف آئی آر نہیں لکھی گئی۔ اس ظلم کے خلاف‘ مدعی اپنا کیس لے کر لاہور ہائی کورٹ میں گئے‘ وہاں یہ کیس مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ کی عدالت میں پیش ہوا۔ انہوں نے ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ‘ایف آئی آر درج کرنے کے حکم پر عمل کرنے کے احکامات صادر کر دئیے۔ حکومت نے مظلوموں کی ایف آئی آر کا اندارج روکنے کے لئے‘ جسٹس علی باقر نجفی کا ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا‘ اس نے نہ صرف ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کی توثیق کی بلکہ اعلیٰ ترین حکام کے طرز عمل کو بے نقاب کرتے ہوئے‘ اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ان لوگوں نے اپنے اختیارات کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے‘ مظلوموں کو داد رسی سے محروم رکھنے کی کوشش کی اور سفارش کی کہ ایف آئی آر بلاتاخیر درج کرنے کا حکم دیا جائے۔ حکومت یہ رپورٹ بھی دبا کر بیٹھ گئی۔ قریباً 3ہفتے ہو گئے۔ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ رپورٹ کہاں گئی؟ دنیا نیوز چینل کے سٹار اینکر کامران شاہد نے‘ سارے میڈیا پر سبقت لے جاتے ہوئے‘ یہ رپورٹ اپنے ذرائع سے حاصل کر کے‘ ٹاک شو میں ‘ اس کے اقتباسات پیش کر دئیے۔ پروگرام میں پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے رپورٹ کے وجود سے انکار کر دیا۔ کامران نے اصرار کرتے ہوئے‘ رپورٹ کے اقتباسات دہرائے تورانا صاحب نے اس سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں تو یہ الفاظ موجود ہی نہیں اور اعتراض کیا کہ'' یہ تو ایک خفیہ رپورٹ ہے۔ آپ نے کہاں سے حاصل کی؟ اور اسے میڈیا پر کیوں پیش کر رہے ہیں‘‘؟ جس پر بہت تکرار ہوئی‘ جسے دنیا بھر میں ناظرین نے دیکھا اور اسی ٹاک شو میں کامران شاہد کو ایک سینئر صحافی کے جارحانہ دلائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک طرف سابق وزیراپنی سابقہ پوزیشن کے بل پر‘ کامران کو دبانے اور ڈرانے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک سینئر میڈیا مین تابڑ تو ڑ دلائل دیتے ہوئے‘ کامران کے صحافتی کارنامے کو‘ان کی غلط بیانی ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ جھڑپ میری عدم موجودگی میں ہوئی۔ میں اس پروگرام میں تاخیر سے پہنچا تھا لیکن اس بحث کی بازگشت سننے میں ضرور کامیاب ہوا اور کامران شاہد سے رپورٹ کے مندرجات جاننے کی کوشش کی‘ جس میں انہوں نے بتایا کہ کمیشن کی معاون ہماری پرائم خفیہ ایجنسیوں کے دو نمائندوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر‘ حقائق بیان کر دئیے ہیں اور بتایا ہے کہ اعلیٰ ترین منصب پر فائز لوگوں نے بھی کمیشن کے سامنے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ کامران شاہد کے انکشافات سارے میڈیا پر نشر ہونے لگے۔ اگلے روز اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ‘ اس خفیہ رپورٹ کے انکشافات منظر عام پر آگئے جن پر حکومت پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ حکومت ہر قیمت پر ایف آئی آر کا اندراج روکنے پر تلی تھی۔ اس کے نمائندے‘ خفیہ طور سے مقتولوں کے اہل خاندان کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پہلے انہیں 10,10لاکھ روپے کی پیش کش کی گئی تھی کہ وہ ایف آئی آر نہ لکھوائیں لیکن وہ اپنی جماعت کے لیڈروں کی مدد سے‘مقدمہ درج کرانے کی جدوجہد کرتے رہے‘ جسے حکومت مسلسل ناکام بناتی رہی۔آخر میں حکومتی نمائندوں نے‘ مقتولوں کے خاندان سے کہا کہ وہ اسلامی قانون کے تحت دیت لے کر‘ ملزموں کو معاف کر دیں۔ سنا ہے کہ اس کے بدلے میں‘ کروڑوں کی بھاری رقوم پیش کی گئیں۔ مقتولوں کے ورثا‘ غریب لوگ ہیں۔انہوں نے اتنی بڑی رقم خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی لیکن وہ اپنے ایمان پر قائم رہے اور اصرار کیاکہ ان کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ حکومت درپردہ و رثا کو دیت دے کر‘ ان سے یہ لکھوانا چاہتی ہے کہ ہم نے خون بہا وصول کر لیا ہے اور ہم برضا و رغبت اپنے عزیز وںکا خون معاف کرتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ ایف آئی آر لکھنے میں‘ حیلے بہانوںسے کام لے کر‘ مدعیان کو دھکے کھلائے جا رہے تھے اور پھر یہ معاملہ اتنی اعلیٰ سطح پر گیا کہ وزیراعظم کے نمائندوں نے‘ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کا حصہ بنا کر‘ اس ایف آئی آر پر‘ سودے بازی کی کوشش کی۔ یہ نمائندے بھی وہی حرکت کر رہے تھے جو وفاقی وزرا نے کی یعنی ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ مظلوم شہریوں کو ڈرایا جا رہا تھا کہ وہ ایف آئی آر لکھوانے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق سے دستبرداری پر تیار ہو جائیں اور بدلے میں حکومت کی ضرورتیں پوری کر دیں۔یہ ہے وہ جمہوریت ‘ جس کا تحفظ کرنے کے لئے ‘ہمارے نام نہاد پارلیمانی نمائندے ‘اتفاق رائے سے قراردادیں پاس کر رہے ہیں۔جو لوگ مظلوموں کو انصاف دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ انہیں جمہوریت دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر‘ عوام کی جیبوں پر جو ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں‘ ان پر کوئی منہ نہ کھولے۔ توقع کی جاتی ہے کہ عوام ہر ظلم پر خاموش رہیں۔ ان کے پیروں کو گولیوں سے بھون کر‘ ختم کردیا جائے تو آواز نہ اٹھائیں۔تھانے میں شکایت لے کر نہ جائیں اور اگر زیادہ بے چین ہیں تو مقتولوں کی قیمت وصول کر لیں مگر ایک سر پھرے ٹی وی اینکر اور آزادی پسند میڈیا پرسن نے شاہی خاندان اور اس کے درباریوں کو قانون کے سامنے پیش ہونے پر مجبو رکر دیا ہے۔ مجھے تو اس کی بھی توقع نہیں تھی۔ غنیمت ہے کہ قانون کا ہاتھ یہاں تک پہنچ گیا‘ اس سے آگے کی مجھے تو کوئی امید نہیں۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ مقتولوں کے مظلوم پسماندگان کو کچھ زیادہ انصاف عطا فرما دے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سیاست میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کریں‘ وہ اپنی جگہ لیکن انہوں نے مظلوموں کو آوازاٹھانے اور اپنا حق مانگنے کے حوصلے ضرور دے دئیے ہیں۔