تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     29-08-2014

سیاست جرائم پیشہ کا کاروبارکیسے بنی؟

بھارتی سپریم کورٹ کی بدھ کے روز دی گئی ایک آبزرویشن پڑھ کر کمینی سی خوشی ہوئی ہے کہ جرائم پیشہ سیاستدان صرف ہمارے ہاں نہیں ہیں بلکہ ہمارے ہمسائے بھی اس نیک کام میں شریک ہیں بلکہ ہم سے بھی شاید دو ہاتھ آگے ہیں ۔
اگر بھارتی اداکار اجے دیوگن کی نئی فلم سنگھم ریٹرنز دیکھ لیں تو لگے گا کہ دونوں ملکوں میں دراصل جمہوریت کے نام پر جرائم پیشہ لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے اور یوں جمہوریت ان کے نزدیک قبضہ گروپوں کا جتھہ بن کر رہ گئی ہے جس میں کچھ طاقتور طبقات مل کر کمزور لوگوں کے وسائل لوٹ لیتے ہیں ۔
بھارتی سپریم کورٹ نے ایک اہم بات کہی ہے کہ سیاست جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے جس سے لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد کم ہوا ہے اور جمہوریت ان جرائم پیشہ سیاستدانوں کی وجہ سے خطرات میں گھر چکی ہے۔ 
یہ بات بھارت کی سیاست کے بارے میں ان کی اپنی عدالت نے کہی ہے حالانکہ ہم سمجھتے تھے بھارتی جمہوریت کی وجہ سے شاید وہاں کے سیاستدان ہمارے سیاستدانوں سے بہتر ہیں کیونکہ وہاں ہندوستان کی آزادی کے بعد سے مسلسل جمہوریت چل رہی ہے ۔ 
ہم شاید اپنے آپ کو شک کا فائدہ دے سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہوریت اس طرح نہیں رہی جیسے بھارت میں رہی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ہماری ایک پریشانی تو دور کر دی ہے کہ میرے جیسے سمجھتے تھے کہ اگر پاکستان میں جمہوریت چلتی رہتی تو شاید برائیاں ایک ایک کر کے ختم ہو جاتیں اور جرائم پیشہ اس مقدس پیشے میں داخل نہ ہوپاتے۔ تاہم بھارت کی اس مثال سے لگتا ہے کہ شاید ہم کسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ جمہوریت میں جرائم پیشہ سیاست میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ 
کبھی تو لگتا ہے کہ جمہوریت نام کی چیز اس خطے کے لیے نہیں بنی تھی۔ اگر ایک قدم آگے جائیں تو شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمہوریت مسلمانوں کو تو بالکل سوٹ نہیں کرتی کیونکہ پچاس سے زائد مسلمانوں میں سے صرف ایک دو ملکوں میں جمہوریت ہے اور جہاں ہے وہ ترکی اور پاکستان جیسے حالات کا شکار ہیں ۔ 
دراصل دنیا کے دیگر حصوں میں جمہوریت کو انسانی ترقی اور طاقتور لوگوں کا احتساب کرنے کا نظام سمجھا گیا تو ہمارے جیسے معاشروں میں اسے لوٹ مار کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ۔ یہ بات سمجھ لی گئی کہ اگر آپ اپنی برادری کو اکٹھا کر کے، یا غریبوں کو لنگر کھلا کر اور سرکاری بیوروکریٹس کو ملا کر الیکشن جیت لیں تو پھر آپ کو یہ حق مل جاتا ہے کہ آپ کھل کھیلیں ۔ ہمارے نزدیک جمہوریت کرپشن کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے اور اب اس پر کوئی پریشان بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی عزت میں کوئی کمی آتی ہے۔ 
اگرغور کریں تو پتہ چلے گا کہ پاکستانی سیاستدانوں کو کرپٹ کرنے میں ہمارے اپنے قومی اداروں کا بڑا کردار رہا ہے جن کے بارے میں سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کرانے والے کون تھے۔ سب نے مل کر کروڑوں روپے ایک ایجنسی سے لے کر سیاستدانوں میں بانٹے۔ سپریم کورٹ کے کہنے پرایف آئی اے کا کمیشن بنا تو اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اس کا کیا بنا؟ نادرا کے چیئرمین طارق ملک کے خلاف تو ایف آئی اے نے راتوں رات ایف آئی آر بھی درج کر لی، ان کے ریڈ وارنٹ بھی جاری ہوگئے لیکن کسی سیاستدان کو ہاتھ نہ لگایا جس نے آئی ایس آئی سے پیسے لے کر الیکشن لڑا تھا۔ جس جس نے جو کچھ کھانا پینا تھا وہ کھاپی لیا۔
ویسے سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ سیاستدانوں کو کرپٹ کرنے کا کام محمد خان جونیجو کے دور میں شروع ہوا جب اس وقت کے وزیر خزانہ محبوب الحق نے ترقیاتی سکیموں کے نام پر ہر ایم این اے کو لاکھوں روپے دینے شروع کیے۔ پہلے چند لاکھ روپے ہر ایم این اے کو ملتے تھے تو اب ہر ایم این اے دس کروڑ سے کم پر راضی نہیں ہوتا ۔ 
اب تو یہ حالت ہوچکی ہے کہ پچھلے سال تک نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز اور سینیٹر نے خیبر پختونخوا کے چند کرپٹ ٹھیکیداروں کی مدد سے کروڑوں روپے کے فنڈز بیچے۔ مرد تو مرد، ایم این ایز خواتین نے بھی ایک کروڑروپے پر بیس لاکھ روپے کا کمیشن بنایا۔ یہ ہم جمہوریت کو چلانے کی قیمت ادا کررہے تھے۔ ایسے ایسے ناموں نے یہ ترقیاتی فنڈز بیچے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اللہ نے انہیں کیا کچھ نہیں دیا تھا لیکن پھر بھی چند لاکھ کے لیے وہ بک گئے اور بکتے جارہے ہیں ۔ 
سیاستدانوں کو کردار اور پیسے میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ان میں سے اکثریت نے پیسے کا انتخاب کیا ہے۔ ٹرانسفر ہو یا پوسٹنگ یا پھر نوکری انہوں نے ہر ایک میں اپنا ریٹ رکھ لیا ۔اور تو اور ان سیاستدانوں کے بیوی بچوں نے بھی مال بنانا شروع کر دیا ۔ قومی اسمبلی کے ایک سابق سپیکر نے تو نوکری دینے کے لیے ایک نوجوان سے پانچ کنال زمین اپنے نام کرالی تھی ۔ ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ اس قومی اسمبلی میں ایک خاتون ملازمہ کے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا جو سکینڈل سامنے آیا ، اس پر فہمیدہ مرزا نے انہیں چپ کرانے پر زور دیا کہ بدنامی ہوگی ۔ چند ماہ کا کنٹریکٹ دے کر چپ کرایا گیا ۔ نئے سپیکر نے بھی کچھ دن نوکری میں توسیع دی تاکہ وہ چپ رہے اور پھر اسے ایک دن نوکری سے نکال دیا گیا ۔
یہ ہے وہ انصاف جو قومی اسمبلی نے ایک خاتون کو دیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی رومانہ کاکڑ کا جو حشر کیا گیا وہ سب کو یاد ہوگا۔
یہ ہیں ہمارے منتخب نمائندے۔ 
نواز شریف پارلیمنٹ میں جا کر جمہوریت کے لیے قربانی دینے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ قربانی تو جارج واشنگٹن جیسے لوگ دیتے ہیں جب وہ تیسری دفعہ صدر بننے سے انکار کرتے ہیں... اور آج تک اس روایت پر امریکن چلتے ہیں۔ جب کہ نواز شریف نے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے لیے پارلیمنٹ سے اٹھارویں ترمیم منظور کرائی تھی۔ 
ہمارے ہاں جمہوریت کے لیے جتنی قربانی دی جاتی ہے وہ سب اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے۔ ملکی مفاد کا نام استعمال کر کے خود فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ اگر اس ملک اور جمہوریت کے مفادات عزیز ہوتے تو آج اس ملک میں ضلعی حکومتیں ہوتیں اور شہروں کو منتخب میئر چلا رہے ہوتے نہ کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم افتتاحی فیتے کاٹ رہے ہوتے۔ 
آج اگر اس ملک میں نوے ہزار بلدیاتی کونسلر بیٹھے ہوتے تو جمہوریت کو جھٹکے نہ لگ رہے ہوتے کیونکہ گیارہ سو ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹر کی بجائے نوے ہزار منتخب لوگوں کا بوجھ ہوتا جسے اٹھانا کسی غیرآئینی طاقت کے لیے آسان نہ ہوتا۔ 
کہاں قومی اسمبلی،سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے گیارہ سو پارلیمنٹیرین جن کے بارے میں رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ہر ترقیاتی سکیم میں سولہ فیصد کمیشن لیتے ہیں اور کہاں نوے ہزار کونسلر جو بغیر تنخواہ کے کام کرتے اور ہر وقت علاقے اور محلے داران کی گریبان پکڑنے کو تیار بھی رہتے۔ 
اس ملک کے سیاستدان نے سوچ لیا ہے کہ وہ کبھی اپنے فرائض پورے نہیں کرے گا۔ وہ شور جمہوریت کا مچائے گا لیکن احتساب کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ 
ایک دن چوہدری نثار علی خان پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں نہیں آئے تو ان کی عدم موجودگی میں یاسمین رحمن نے ایک آڈٹ پیرا پر سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر کے خلاف ایکسپورٹ فنڈ سے موبائل فون خریدنے اور لاکھوں روپے کی بیرون ملک کالز کرنے پر ریکوری ڈال دی۔ اگلے دن چوہدری نثار بھاگے بھاگے آئے اور انہوں نے اجلاس طلب کر کے باقاعدہ اس فیصلے کو ریورس کیا اور ایک خط بھی ہمایوں اختر کو لکھا کہ ان کی کمیٹی سے غلطی ہوگئی تھی اور ریکوری کا حکم واپس لے لیا گیا اورمعذرت بھی کی گئی۔ 
اب بتائیں یہ کون سا انصاف کا نظام ہے کہ چودہ لوگوں کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج کرانے کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ 
کسی دن ہر ترقیاتی سکیم پر سولہ فیصد کمیشن کھانے والے یہ سیاستدان پارلیمنٹ میں یہ بھی بحث کر لیں کہ سیاست میں جرائم پیشہ کیسے داخل ہوئے جنہوں نے جمہوریت کو گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا ہے... اور اسے چلانے کے لیے اس ملک کے عوام سے بھتہ بھی مانگتے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved