تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     29-08-2014

انصاف کہاں ہے؟

آج ملک شدید قسم کی مایوسی، سیاسی محاذآرائی،دھرنا بازی، لاقانونیت، قتل و غارت اور ان کے نتیجے میں کساد بازاری اور معاشی انحطاط کا شکار ہے جبکہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے نظام، بلکہ ریاست خطرے کی زد میں دکھائی دیتی ہے۔ تاہم معاشرے کو جس مہلک ترین مرض کا سامنا ہے وہ عوام مخالف اشرافیہ طبقے، طاقتور بیوروکریسی، جاگیرداراور سرمایہ دار سیاست دانوں ، ارب پتی ملائوں اور ٹائیکونز کا گٹھ جوڑ ہے۔ باہم اختلافات کے باوجود، یہ سب دھڑے عوام کو دبائے رکھنے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ایک ہیں۔ یہ بہت ڈھٹائی سے قانون شکنی کا ارتکاب کرتے ہیں ، نیز دولت اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست پر کنٹرول کا ثبوت دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ 
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور اس ریاست کے قیام کے بعد بھی پاکستانی عوام کے حقوق جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے سلب کرلیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس طاقت ور طبقے نے ملک کو اپنی جاگیر اور خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھا۔قانون کی پامالی کی تازہ ترین مثال سترہ جون کو ماڈل ٹائون لاہورمیں پیش آنے والا سانحہ تھا جس میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے چودہ افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے لیکن کسی کی گرفتاری تو کجا، تادمِ تحریر پولیس نے کیس کی کارروائی بھی شروع نہیںکی۔ عدلیہ اور ایگزیکٹو متاثرہ فریق کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اشرافیہ اور حکمران عوام کے حقوق کی مطلق پروا نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں ایک جمہوری ریاست کے شہری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک لوگ ان کی ''رعایا ‘‘ ہیں جنہیں وہ خیرات میں کچھ رعایتیں دے کر شاہانہ طرزِحکومت قائم کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر ریاستی قوانین کا کوئی اطلاق نہیںہوتا ۔ ملک کے بہت سے حلقوں نے پچیس اگست کو سپریم کورٹ کے حکم۔۔۔''ہمارے لیے شاہراہ ِ دستور کو خالی کردیا جائے‘‘۔۔۔پر تنقید کی ۔ یہ صورت ِحال جارج اورول کے شاہکار ناول ''اینیمل فارم‘‘ کی مشہور لائن۔۔۔''Some are more equal than others‘‘۔۔۔ کی یاد دلاتی ہے۔ 
انصاف سے محرومی اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے پاکستان موجودہ حالات کا شکار ہے۔16 مارچ 2009 ء کو سیاسی جماعتوں، میڈیا، وکلا برادری اور سول سوسائٹی نے دوسالہ جدوجہد کے بعد عدلیہ کی کامیاب بحالی کا جشن منایا تھا ۔۔۔ وہ بحالی جو ایک احتجاجی لانگ مارچ کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔ تاہم آج اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے جج حضرات اس احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنے کوغیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔ اُس وقت لانگ مارچ کرتے ہوئے آنے والے نواز شریف صاحب عدلیہ کی بحالی کے ایک جانباز ہیرو دکھائی دیتے تھے، تاہم بعد میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے بتایا کہ گوجرانولہ سے پہلے ایک اہم شخصیت کی فون کال نے تمام معاملہ حل کرادیا۔ مسٹر احسن نے تحریک میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں وہ بھی پشیمان دکھائی دیے اور اسی طرح علی احمد کرد بھی۔ ایسا محسوس ہوا کہ عدلیہ کی بحالی بہت سی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ 
عدلیہ کی بحالی سے جڑے ایک ''نئے پاکستان ‘‘ کا خواب بکھر گیا۔ آج کل ایک اور نئے پاکستان کی بات کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ اسے بھی ماضی کی شکست ِ آرزو کے آئینے میں دیکھتے ہیں ، اس لیے اُنہیں نقش بننے کی بجائے بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک اور بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ عدلیہ کی بحالی سے لے کر اب تک قائم ہونے والی دونوںحکومتیں کراچی امن و امان کیس ، گمشدہ افراد کیس اورتیل، چینی اور بجلی کے نرخوں میں تخفیف کرنے کے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرتی رہیں۔ اُ س وقت طاقتور سیاسی حلقوںنے عوام کو باور کرایا کہ اصل اختیار ان کے پاس ہے ۔ اس تمام چکر میں پاکستان کے عام آدمی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔اورتو اور، ماتحت عدلیہ کی اصلاح ہو سکی اور نہ ہی عام آدمی کو انصاف مل سکا۔ چنانچہ وہ لوگ جو ایک سنہرے دور کی توقع لگائے بیٹھے تھے، نظام سے مایوس ہونے لگے۔اعلیٰ عدلیہ نے بھرپور فعالیت تو دکھائی لیکن کیا کچھ بھی نہیں، بلکہ اس پر الزام بھی لگنا شروع ہو گیا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کی مرتکب ہورہی ہے۔ اسی دوران سابق چیف جسٹس صاحب کے بیٹے کا ایک کیس منظر عام پر آیا ۔ اس نے عدلیہ کو متنازع بنادیا۔ اُ س وقت تک عدلیہ کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے والی بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء رہنما کھل کر عدلیہ پر تنقید کرنا شروع ہوگئے تھے۔ 
اسی طرح جمہوریت کا تسلسل بھی ایک خوشنما خواب تھا۔ زرداری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور پھر ''پرامن طریقے‘‘ سے اقتدار پی ایم ایل (ن) کو منتقل ہوگیا لیکن طاقتور طبقے نے ریاستی اداروں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے عوام تک جمہوریت کے ثمرات نہیں پہنچنے دیے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی مقامی حکومتوں کے قیام کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ گراس روٹ لیول تک اختیارات کی منتقلی سے عوام کو تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، ٹرانسپورٹ ، ہائوسنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں، لیکن سپریم کورٹ حکومت کو مجبور نہ کر سکی کہ آئین کے آرٹیکل 140-A کے تحت مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کرائے جائیں۔ 
اس تمام صورت ِحال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ کسی انقلاب کی راہ دیکھنے لگے۔ مشرف اور شوکت عزیز اور پھر زرداری دور میں اُنھوں نے اشراف کو جیبیں بھرتے دیکھا تھا جبکہ ان کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔اس کے بعد موجودہ حکومت سے توقعات لگائی گئی تھیں لیکن اس پاک سرزمین کے باسیوں کو شدت سے احساس ہونے لگا کہ اس ملک پر عوام کی نہیں، ''خاندانوں ‘‘ کی حکومت ہے۔ یہاں ترقی کے لیے روابط، پیسہ، سیاسی طاقت اور چالبازی کی ضرورت ہے۔ موجودہ بحران کے نتیجے میں معیشت، ریاست کی عملداری اور حکومت تیزی سے تحلیل ہورہی ہیں۔ آئین کے آرٹیکلز 8 اور 28 کے تحت عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے اور آرٹیکلز 29اور38 کے تحت ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کی بجائے سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ اِ نہیں ،جیسا کہ وہ دعوے کرتے ہیں، پاکستان میں جمہوریت کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ صرف اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے انتخابی کامیابی چاہتے ہیں۔منتخب ہونے کے بعد وہ کی گئی ''سرمایہ کاری‘‘ کو منافع سمیت عوامی وسائل سے پورا کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر واجب الادا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے ۔ 
موجودہ صورت ِحال اور مستقبل میں پیش آنے والی ایسی یا اس سے بھی شدید صورت ِ حال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکمران وقت کی چال پہچانیں اور عوام کو ان کے حقوق دیں۔ اُنہیں احساس ہونا چاہیے کہ ملک کا عام شہری بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن اُسے کوئی سہولت نہیں ملتی۔ دوسری طرف سرمایہ دار اور نام نہاد حکمران جمہوریت کے بل بوتے پر بڑی ڈھٹائی سے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ گزشتہ کئی عشروںسے ریاستی ادارے بتدریج تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ کسی حکومت کی طر ف سے ان کو بہتر بنانے کی عملی اور واضح کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ جہاں تک دفاعی اداروں کی پالیسی کا تعلق ہے تو عام شہری یہ دیکھ کر چکرا جاتا ہے کہ جن انتہا پسند گروہوں کو اثاثے قرار دے کر عشروں تک پالا گیا، اب انہی کے خلاف جنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ کیا اس ملک کا کوئی والی وارث ہے؟ کیا کسی سے کوئی پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved