آپ نے Missing Personsکے بارے میں تو بہت سنا اور پڑھا ہوگا ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی تلاش میں بہت توانائیاں صَرف کیں ، لیکن صرف محدود کامیابی مل سکی۔ کل ایک محترم عزیز کا ٹیلی فون آیا کہ آپ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کی اس لئے حمایت نہیں کررہے کہ مسلم لیگ (ن) والوںنے آپ کو ڈالر دے رکھے ہیں۔ اس عزیز سے گزارش ہے کہ وہ ڈالرشاید آپ کے پاس غلط پتے پر چلے گئے ہیں ، اَزرَاہِ کرم انہیں مُرسَل اِلَیہ (Addressee)تک پہنچا دیں۔ ہرشخص کو اپنا مرجعِ عقیدت اور معیارِ عقیدت منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر ایک آپ کی طرح سوچے گایا آپ کی ہر بات سے سوفیصد اتفاق کرے گا، یہ توقع رکھناعَبَث ہے اور خلافِ عقل ہے۔ میں یہاں چند باتیں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں ۔
محمد نواز شریف صاحب سے پوری زندگی میں میری چند علماء کے ہمراہ دو ملاقاتیں ہیں اور وہ اس دور میں جب 1993ء میں ان کی حکومت معزول کردی گئی تھی اور وہ ابتلا کے دور سے گزر رہے تھے، لہٰذا وہ کسی دَادودَہش یا انعام واکرام کا دور نہیں تھا۔ انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر مجھے کامل اقتدار ملا تو میں آپ لوگوں کے مشورے سے اسلامی احکام کا نفاذ کروں گا۔ مگر جب 1997ء میں انہیں کامل اقتدار ملا تو انہوں نے ایفائے عہد نہیں کیا بلکہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جو پہلا قومی خطاب کیا، اس میں جمعۃ المبارَک کی تعطیل کے خاتمے کا اعلان تھا، اس کا ہمیں دکھ ہوا اور ان کی ترجیحات کا بھی پتا چل گیا۔1999ء کے بعد جب وہ جلا وطن ہوئے ، تو بہت سے لوگ سُرور پیلس جدہ میں ان سے ملے ، کچھ بعد میں لندن میں ان سے ملے ، لیکن ہم اس سعادت سے بہرہ ور نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی اس کی خواہش رہی ۔ 1993ء کے بعد سے آج تک میری ان سے کوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ ملاقات یا رابطہ نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے بیٹے کی وفات پر انہوں نے کافی دن بعد تعزیت کے لئے ٹیلی فون کیا۔
محمد شہبازشریف صاحب سے ان کے 2008ء تا2013ء کی وزارتِ اعلیٰ کے غالباً پہلے سال چند ملاقاتیں ہوئیں۔ دو ملاقاتیں اتحادِتنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین کے ہمراہ کھلے اجلاس میں ہوئیں اور ان میں ابتدا میں جو انہوں نے ہمارے مطالبات کے حوالے سے حوصلہ افزاباتیں کیں ، بعد میں ان پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ اہلسنت والجماعت کے علماء کے ساتھ بھی دو ملاقاتیں ہوئیں ، ان کا بھی کوئی ماحَصَل نہیں نکلا ۔ اس کے بعد سے آج تک اُن سے بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔ اس طرح کی ملاقاتیں سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ہوئیں ، جب تحریکِ ناموسِ مصطفیﷺ کے دوران لاہور میں ناخوشگوار واقعہ ہوا اور ہمارے علماء کو جیل میں ڈالا گیا، تو اس حوالے سے ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔
ادارۂ منہاج القرآن کے بانی وسربراہ علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب سے ہمارا شروع سے تعلق رہا ۔ ابتدائی دور ہی میں ہمارے کچھ علماء کے اُن سے اختلافات ہوگئے تھے، ان کے خلاف کتابیں لکھی گئیں ، ان کے خلاف فتوے جاری ہوئے ، لیکن ہم ان تمام اُمور سے الگ تھلگ رہے۔ میری اور ہمارے چند ہم خیال علماء ِ کرام کی یہ خواہش اور حسنِ ظن تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، لہٰذا کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی صلاحیت اور قابلیت سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دینِ اسلام اور اہلسنت وجماعت کو فائدہ پہنچے ۔
سالِ گزشتہ ان کی تحریک کے دوران بہت سے ٹیلی ویژن چینلز نے ان کے حوالے سے اظہارِ خیال کی دعوت دی ، مگر میں نے اجتناب کیا۔ ان کی موجودہ تحریکِ انقلاب کے بارے میں بھی میں نے الیکٹرانک میڈیا پر کوئی مثبت یا منفی تاثرات نہیں دیے، کیونکہ میڈیا میں اپنا موقف پورا بیان کرنے کا موقع نہیں ملتا اورسیاق وسباق سے ہٹ کر نامکمل اور ناتمام گفتگو سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیںاور کوئی خیر کی صورت برآمد نہیں ہوتی ۔
ایک اعتقادی مسئلے کے بارے میں علماء کی ایک مجلس میں سوال ہوا، اس پر میں نے اور چند ممتاز مفتیانِ کرام نے رائے دی، جسے کسی نے موبائل میں ریکارڈ کرکے نیٹ پر ڈال دیا۔ وہ علمی موقف ہے اور اس پر ہم پوری شرح صدر کے ساتھ اب بھی قائم ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے اَزراہِ کرم میرے بیٹے کی وفات پر کینیڈا سے فون کے ذریعے تعزیت کی، ان کے ادارے کے افراد بھی تعزیت کے لئے تشریف لائے ، نمازِ جنازہ اور سوئم میں بھی شرکت کی ، اس کے لئے میں ان کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں ۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں حکومتِ پنجاب کی انتظامیہ نے ان کے لوگوں کے خلاف وحشیانہ اور ظالمانہ انداز میں جو کارروائی کی،اُس میں اُن کے ڈیڑھ درجن کے قریب افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ، میں نے کینیڈا ٹیلی فون کرکے ڈاکٹر صاحب سے تعزیت کی اور سنگدلانہ کارروائی کی شدید مذمت بھی کی ۔ اسی طرح ان کے صاحبزادے سے بھی میں نے تعزیت کی اور تمام افراد سے ہمدردی کا اظہار کیا اور اخبار میں بھی اس سنگدلانہ کارروائی کی شدید مذمت کی اورعدالتی تحقیقات کے ذریعے مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ۔
اصلاحِ اَحوال یاانقلاب کے لئے ڈاکٹر صاحب کے وژن ، مقاصد واَہداف اور حکمتِ عملی کا ہمیں پتا نہیں ہے، نہ ہی کسی درجے میں علمائِ اہلسنت سے کوئی مشاورت کی گئی ہے ،البتہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ چوہدری برادران، شیخ رشیداحمدصاحب اور مجلس وحدت المسلمین کے رہنما اُن کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں ، لہٰذا اس صورتِ حال میںمکمل اتفاقِ رائے ممکن نہیں ہے۔ آج ہی ہم نے اخبار میں پڑھا ہے کہ پانچ سو مشائخ نے ان کے پروگرام سے اتفاق کیا ہے، اُنہیں مبارَک ہو، ہمیں اِس کی تفصیلات کا بھی علم نہیں ہے۔
جہاں تک موجودہ صورتِ حال کا تعلق ہے، پاکستان ہمارا وطن ہے،جو موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہے۔ حکمرانوں کے تو کئی اَوطان ہوتے ہیں، ہمارا ایک ہی وطن ہے اور وہ پاکستان ہے ۔ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا جینا اور مرنا پاکستان میں ہے ۔ لہٰذاہمیں پاکستان کی فلاح ، بقا، استحکام اور امن وعافیت سب سے زیادہ عزیز ہے ۔ فساد ، تخریب اور بدامنی کی ہر صورت پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ ہماری رائے میں اگر حکمت سے مقاصد کا تعین ہوتااور بڑے پیمانے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ، تو منظر اس سے بالکل مختلف ہوتا۔ آج اگر پارلیمنٹ وزیراعظم کی پُشت پر ہے ، تواس کا سبب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ساری پارلیمنٹ یا اس کا مُعتدبہ حصہ وزیر اعظم کے مُحبّینِ صادقین اور عُشّاق میں شامل ہوگیا ہے ، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سب اسی کشتی میں سوار ہیں اور اگر یہ کشتی ڈولنے لگتی ہے یا ڈوبتی ہے تو سب ایک ہی ساتھ ڈوبیں گے اور کوئی بھی جیتے جاگتے اپنے آپ کو تباہی سے دوچار کرنا پسند نہیں کرے گا۔
محمد نواز شریف صاحب کے طرزِ حکومت پر ہم اپنے کالموں میں گفتگو کرچکے ہیں کہ وہ اپنی ذات کے اسیر ہیں ،اسی کو ان کے مخالفین بادشاہت سے تعبیر کرتے ہیں، بقولِ شاعر ؎
اسی لئے تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو، یوسفِ بے کارواں ہو کر
لیکن سرِ دَست انقلاب مارچ اور آزادی مارچ نے انہیں پارلیمنٹ سے جوڑ دیا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ اِن کو جوڑنے والی یہ ایلفی(یعنی مُشترکہ مفادات) کتنی مضبوط ہے اور کب تک انہیں جوڑے رکھے گی؟۔ لیکن اُن کے مخالفین نے وقتی طور پر ان کے لئے یہ انتظام کردیا ہے۔ ہمارا تو ان کی کابینہ کے لوگوں سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اور چوہدری نثار علی خان نے تو صرف ایک مکتبۂ فکر کے صرف اُن علمائِ کرام سے رَوَابط رکھے ہیں،جن کے جہادی عناصر سے اُستادی شاگردی یا پیری مریدی کے تعلقات ہیں ۔ دوسرے مکاتبِ فکر کے علماء ِ کرام سے چوہدری صاحب نے کسی قسم کا کوئی رابطہ قائم کرنے کی مطلق زحمت نہیں فرمائی ۔ لیکن ہمارے لئے مقامِ حیرت ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک دونوں کی قیادت نے انہیں اپنے ساتھ شامل ہونے کی پیشکش کی ہے ، ع: ''تیری آواز مکے اور مدینے‘‘، واقعی چوہدری نثار علی خاں بڑے کمال کے آدمی ہیں ، ایک ہی وقت میں آگ اور پانی سے قربت کا تعلق قائم کرنے کا فن صرف انہیں کو آتاہے۔