''دھرنے کیوں اور کیسے شروع ہوئے، بحث ہونی چاہیے‘‘ یہ وزیراعظم کا مطالبہ ہے ۔بار بار وہ آرمی چیف سے ملتے ہیں اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اپنے خلاف انہیں کسی بڑی سازش کی بو آرہی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فوج نے خود کو مظاہرین کے مقابل کھڑا کردینے کی حکومتی حکمتِ عملی کی کامیاب مزاحمت کی۔ تحریکِ انصاف اور نون لیگ، فریقین کا سانس پھولا ہوا اورمعرکہ اب آخری مرحلے میں ہے ۔کپتان کی اب تک کی ساری حکمتِ عملی غلط ہے ۔ بوکھلا کر حکومت سانحۂ ماڈل ٹائون جیسی کوئی حماقت کر بیٹھی تو پی ٹی آئی کو ہزیمت ہوگی ۔ ایک طویل عرصے تک عمران خان پھر اسے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں گے ۔ راوی چین ہی چین لکھے گا ؛تا آنکہ سیاست کے رموز سے آشنا اور مضبوط اخلاقی بنیادیں رکھنے والی کوئی نئی جمہوری جماعت حکمران خاندان کا بسترا گول کر دے... اور ایک دن یہ ہو کر رہے گا۔
دھرنے کیوں اور کیسے ہوئے ؟ چار حلقے کھول دینے کا مطالبہ وزیراعظم کے استعفے میں کیسے بدلا ؟ نئے الیکشن کمیشن ، سپریم کورٹ کے ذریعے دھاندلی کی تحقیقات اور بڑی انتخابی اصلاحات سمیت تحریکِ انصاف کے تقریباً تمام مطالبات مان لینے کے باوجود ڈیڈلاک کیوں ختم نہ ہوا ؟حکومت اور لانگ مارچ کرنے والوں کے درمیان ضامن بننے والی ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی ،مظاہرین کے ریڈ زون میں داخلے کے باوجود، معاہدہ شکنی کے باوجود آج تک اسی طرح بغلیں کیوں بجا رہی ہیں ؟
حیرت انگیز طور پر قومی سیاست کا افق سوالات سے بھرپور ہے لیکن جواب ایک بھی نہیں ۔
حیرت انگیز طور پر سب سے قبل یہ الطاف حسین تھے، 2اگست کو جنہوں نے نوا زشریف کو اپنی جگہ کوئی اور وزیراعظم چن لینے کا مشورہ دیا تھا۔ بہت بعد میں تحریکِ انصاف نے تیس دن کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ حیرت انگیز طور پر 26اگست کے روز ایک بار پھر یہ الطا ف حسین ہی تھے ، جنہوں نے اپنے 25اراکینِ اسمبلی کے مستعفی ہو جانے کی پیشکش کی۔ ایم کیو ایم نے آج تک تو ایسی پیشکش نہیں کی۔ اب کیوں؟ کیا کراچی میں تحریکِ انصاف کی پیش رفت سے خوفزدہ پارٹی کپتان کو بند گلی بلکہ کھائی میں دھکیل رہی ہے ؟ جہاندیدہ مولانا فضل الرحمن اتنے متحرک کیوں ہیں ؟ کپتان نے یہ کیوں کہا تھا کہ جلد دوسری جماعتوں کے اراکین تحریکِ انصاف سے آملیں گے ؟ کیا قومی سیاست میں تحریکِ انصاف کی آمد کے بعد بدلے ہوئے قومی منظر نامے سے خوفزدہ تمام جماعتیں مل کر عمران خان کی معاملہ نا فہمی سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں ؟ کیا بظاہر تحریکِ انصاف کا منعقد کیا ہوا یہ میلہ اسی کی چادر چرانے کے لیے سجایا گیا ہے ؟
میں کوثر و تسنیم میں نہائے ہوئے ، آبِ زمزم میں ڈوبے ہوئے ان مولوی حضرات پر لکھتا، جنہیں تحریکِ انصاف کی خواتین کا ہاتھ لہرانا بے حیائی دکھائی دیتا ہے ۔ اصل اعتراض انہیں گانے بجانے نہیں بلکہ سیاست میں صنفِ نازک کی اس شمولیت پر ہے ، مستقبل کے پاکستان میں جو ان کا بے معنی سا کردار ختم کر سکتی ہے ۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ، عورت ان کے نزدیک ذاتی جاگیر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اپنے فیصلے اگر وہ خود کرنے لگیں، اگر وہ اپنا دماغ استعمال کرنے لگیں تو ان کے ہاتھ کیا رہے گا؟
زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ حکومتی پیشکشیں مسترد اورمحض وزیرِ اعظم کے استعفے پر اصرار ، ریڈ زون کی حفاظت کا اعلان کرنے والی فوج کا پیغام نہ سمجھنے اور مذاکرات ختم کر دینے کا اعلان کرنے والے عمران خان وہ تاریخی غلطی کر چکے ہیں ، آئندہ ساری زندگی جو نہ صرف انہیں بلکہ پوری قوم کو یاد رہے گی ۔ صرف بائیو میٹرک پولنگ سسٹم پہ عمل درآمد یقینی بنا لیا جاتا تو پاکستانی سیاست ایک بہت بڑا قدم (One Jiant Leap)لے لیتی۔ وہ دن دور نہیں کہ علّامہ طاہر القادری کو اپنا ساتھی منتخب کرکے ایک ناکام مہم جوئی پہ کپتان کفِ افسوس ملے گا۔ یا خدایا ، کس نے اسے بتایا کہ اس طریق پر کسی وزیرِ اعظم سے استعفیٰ لیا جا سکتاہے اور وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں اور وہ بھی نواز شریف جیسے وزیراعظم سے ؟
علّامہ طاہر القادری ایک مذہبی سیاست دان ہیں ۔ منطقی طور پر رسولؐ اللہ ہی ان کے لیے نمونۂ عمل ہیں۔ جہاں تک میرا محدود علم مجھے بتاتا ہے ، حضرت محمد ؐ نہایت وقار کے ساتھ دلائل سے بھرپور اورمتوازن گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔ کبھی آپؐ کو غیظ و غضب کے عالم میں چیختے چلّاتے نہ دیکھا گیا۔ براہِ کرم علما ء اس باب میں میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا کبھی کسی معرکے میں رسول اکرم ؐ نے کفن پہننے یا قبر کھدوانے کا اہتمام کیا؟ کیا کبھی رسول ِ اکرم ؐ نے مجمعٔ عام میں ایک پورا گھنٹہ اپنی بڑائی بیان فرمائی ؟ خداتو یہ کہتاہے کہ ہرگز اپنی پاکیزگی بیان نہ کرو۔ خدا تو یہ کہتاہے کہ اس امر کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے ۔ اگر یہ خدا اور اس کے رسول کا قرینہ نہیں تو تو پھر یہ کون ہے ، مذہب کے لبادے میں لپٹا جو خلقِ خدا کو گمراہ کررہاہے؟ کوئی شک نہیں کہ عقیدت اور جہالت کا آغاز ایک ساتھ ہوتاہے ۔ جہاں تک ان کی ایک ہزار کتابوں کا تعلق ہے ، اگر پندرہ برس کی عمر سے 65برس تک ، ہر ماہ وہ ایک کتاب لکھتے رہے ہوں(انسانی تاریخ میں آج تک جو کبھی نہیں ہو سکا ) تو بھی یہ تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔ باقی ؟
حکومت اگر کچھ نہ بھی کرے ، اگر وہ خاموشی سے عمران خان اور علّامہ طاہر القادری کو دیکھتی ہی رہے تو بھی آئندہ چند روز میں دونوں لیڈرتمام ہوجانے والے ہیں ۔ شرط یہی ہے کہ حکومت کرے کچھ نہ ۔ میری ذاتی رائے میں ایف آئی آر کے معاملے پر پسپائی ، تشدّد سے گریز اور وزیراعظم کے استعفے پر ڈٹ کر حکومت نے نہایت کامیاب سیاسی اقدام اٹھائے ہیں ۔ اسے اب کچھ ہونے کا نہیں ؛الّا یہ کہ خدا کا اَن دیکھا ہاتھ ایسا حادثہ تخلیق کرے، حالات کے سمندر سرے سے ہی جو تہہ وبالا کر ڈالے۔ یہ جمعرات کی دوپہر دو بجے کا وقت ہے ۔ علّامہ کا انقلاب رونما ہونے میں صرف ایک گھنٹہ باقی ہے لیکن کریں گے تو وہ کیا کریں گے ؟ فوج مظاہرین کے مقابل نہیں اترے گی لیکن انہیں پارلیمنٹ پہ چڑھ دوڑنے کی اجازت تو وہ بالکل نہیں دے گی ۔ ایسے میں علّامہ صاحب اپنے بیس پچیس ہزار تھکے ہارے مریدین کے ہمراہ کیا کریں گے ؟ کچھ بھی نہیں ۔ سر جھکائے وہ واپس کینیڈا تشریف لے جائیں گے ، جہاں بیرونِ ملک سیاسی سرگرمیوں میں ملوّث ہونے پر ، ملکہ کی نافرمانی پر انہیں تفتیش کا سامنا ہوگا۔