تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     30-08-2014

گزشتہ کالم کا فالواپ

22، اگست کے کالم''بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘کی بہت سے حضرات نے تحسین کی، اسے مناسب اور بروقت قرار دیا۔اس میں بتایاگیاتھا کہ الداعش ،القاعدہ اور النصرہ فرنٹ جیسی تنظیموں کو انسانی خام مال اُن اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی صورت میں بھی ملتاہے،جو مغرب اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں یا زیرِ تعلیم ہیں اوران میں پاکستانی نوجوان کافی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جدید سائنس اورٹیکنیک بھی ہوتی ہے ،جو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے والے مہلک ہتھیار بنانے کے لئے درکار ہوتی ہے ۔یہ ایساہی ہے کہ افیون افغانستان میں پیداہوتی ہے ،لیکن اسے ہیروئن جیسے پاؤڈر میں تبدیل کرنے کے لئے مشینری ،کیمیکل اورٹیکنیک مغرب سے آتی ہے۔ 
لیکن قارئینِ کرام نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ برطانیہ ، یورپ اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہمارے جدید تعلیم یافتہ نوجوان عرب سکالرز سے اس قدر کیوں متاثر ہوجاتے ہیں‘ جبکہ ہمارے علمائِ کرام اور مشائخ عظام بڑی تعداد میں وہاں موجود ہیںاور پاک وہند سے بڑے پیمانے پر ان طبقات کی آمد ورفت بھی جاری وساری رہتی ہے، ان میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء، خطباء، اور مشائخ شامل ہیں۔ یہ لوگ ان نوجوانوں کو متاثر کرنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں ، اس کے اسباب وعِلَل کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ یہ سوال فطری ہے، برمحل ہے اور یقینا ایسے جواب کا متقاضی ہے، جو قائل کرنے والا ہو۔ 
رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ''لوگوں کی مثال کانوں(Mines)جیسی ہے، جیسے (بعض) کانیں سونے کی ہوتی ہیں اور (بعض) چاندی کی، تم میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں کسی اعلیٰ انسانی استعداد ، جوہر کمال (Talent)یا امکانی صلاحیت وقابلیت(Potential)کے حامل تھے ، جب وہ دائرہء اسلام میں داخل ہوئے تو وہ انسانیت کے مرتبۂ کمال پر فائز ہوئے،(حدیث کے الفاظ میں اسے خِیاریعنیThe Bestسے تعبیر فرمایا گیا ہے) جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دین کی بصیرت ، حکمت اور فقاہت سے نوازدیا،(مسند احمد :10956)‘‘۔ یعنی ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی، سوناوہی ہوتاہے جو اپنے جوہرِ اصلی یا خِلقت کے اعتبار سے سونا ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی مکرمﷺنے ‘جو انسانیت کے نبّاض اور جوہرشناس تھے، جن صحابۂ کرام میں جوہر قابل دیکھا، انہیں تزکیہ وتربیت کے مراحل سے گزار کر افتخار ِآدمیت بنادیا۔ جس کی فطرت میں قدرت نے جو ملکہ ودیعت فرمایا تھا، اسے نکھار کر اپنے شعبے کا امام ومُقتدا بنادیا۔ کسی نے خلافت وامارت اور حکمرانی کے منصب کو عزت بخشی ، کوئی مایۂ ناز سپہ سالار بنا، کسی نے منصبِ عدالت کو توقیر عطا کی، کوئی علم وفضل اور زہد وتقویٰ کاامام بنا،کوئی فقر کے لئے باعثِ افتخار بنا اور کوئی جود وسخا میں مثال بنا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ انسانیت کے لئے منارۂ نور ہیں ، اُسوہ، قُدوہ اور Role model ہیں۔ 
برطانیہ میں پاکستانیوں کی تقریباً چوتھی نسل چل رہی ہے۔ ہمارے روایتی علمائِ کرام ، مشائخ عظام، واعظین وخُطباء اور عاملین کے مخاطَبین پہلی اور دوسری نسل کی باقیات ہیں۔ وہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کے ساتھ ان کا نہ تو علمی سطح پر رابطہ ہے، نہ یہ ان کے احساسات کا صحیح ادراک کرپاتے ہیں اور نہ ہی اُن کے ذہن میں وارد ہونے والے سوالات کا قائل کرنے والا اور تسلی بخش جواب ان کے پاس ہے۔ اس لئے عرب سکالرز بآسانی انہیں اپنے حلقۂ عقیدت میں لے لیتے ہیں اور پھر اپنے اَفکار کے مطابق اُن کی ذہن سازی کرتے ہیں اور جہادی فکر اُن کے قلوب واَذہان میں اس حدتک پیوست کردیتے ہیں کہ وہ برطانیہ اورمغرب کی عیش وعشرت سے معمور زندگی کو چھوڑ کر عزیمت واستقامت کی زندگی کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ قدرت کی طرف سے مختلف انسانوں میں مختلف امکانی صلاحیتیں اور قابلیتیں (Potentials)ودیعت ہوتی ہیں ، اﷲعزّوجلّ کے رسولِ مکرمﷺ نے اُن صلاحیتوں کو جِلا بخشی، نکھارا، اُن کے نفوس کا تزکیہ کیا اور پھر اُن کی ان خُفتہ اور خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار کرکے اسلام کے حق میں استعمال کیا۔ اسی کے نتیجے میں خلافتِ اسلامیہ اس عہد کی سپرپاور بن گئی۔
ہمارے لوگ ماشاء اللہ میلادالنبیﷺ، معراج النبیﷺ اور گیارہویں شریف، شبِ برأت اور اَعراسِ مبارَکہ کے پروگرام باقاعدگی سے کرتے ہیں، سالانہ ختمِ نبوت کانفرنسیں ہوتی ہیں ، بعض تنظیمیں سہ روزہ سالانہ تربیتی پروگرام منعقد کرتی ہیں۔مذہبی ٹی وی چینل بھی چل رہے ہیں ۔ یہ سب کام اپنی اپنی جگہ قابلِ تحسین ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے‘ لیکن وہاں کے اہلِ علم کو سوچنا چاہئے کہ جن نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک اِشتعال ہے، اِضطراب ہے، مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھ کر جذبۂ انتقام پیدا ہوتاہے، اس کی تسکین اور اس کے مثبت اظہار کے لئے مناسب مواقع اور پلیٹ فارم ہونے چاہئیں۔ مغربی معاشرے میں ایک مثبت قدر یہ ہے کہ آپ پُرامن انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں ، اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مغرب کے ذہن ساز طبقات اور مجالسِ فکر (Think Tanks)کے ساتھ دلیل واستدلال کے ساتھ مکالمہ ہو، بہت سے معاملات میں عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتاہے۔ الغرض مسلم نوجوانوں کے اندر پاکیزہ جذبات کے اس بحرِمَوَّاج کو مثبت اور تعمیری رُخ پر ڈالنے کی اَزحد ضرورت ہے۔ انہیں دعوتی انداز میں مسلمانوں کے اندر تعلیم کے فروغ کی طرف مائل کیا جاسکتاہے۔ ترکی کے ایک مُصلح (Reformer) فتح اللہ گولن صاحب امریکہ میں مقیم ہیں۔ پہلے وہ رجب طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے حلیف تھے ، اب حریف بن چکے ہیں۔ اُن کے زیرِ اثر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے رجب طیب اُردوَان کی قیادت کو چیلنج کیا،اُن کی راہ میں مشکلات کھڑی کیں،استنبول وغیرہ میں مُظاہرے بھی کرائے ،مگر اُردوَان اپنی خدمات اور عوامی مقبولیت کی بناپر اُن پر غالب آگئے۔ ہمیں اپنے نوجوان کو اس جانب متوجہ کرنا پڑے گا کہ وہ اس امر کا تجزیہ کریں کہ ایک وقت تھا مغرب ہم سے زیادہ پسماندگی اور ظلمت کے دور میں تھا، ملوکیت بھی تھی ، لیکن پھر اُس نے ایسی جھرجھری لی، انقلاب آیا، جدید علوم ، ٹیکنالوجی اورتمام سائنسی علوم کو انہوں نے مرکز توجہ بنایا۔ صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہوئے اور آج ہمیں پسندہو یا ناپسند ،وہ دنیا پر بلاشرکت غیرے راج کررہے ہیں۔ ہم اپنی ناکامیوں کا جواز تلاش کرتے رہتے ہیں یااہلِ مغرب کی خامیاں تلاش کرکے اپنے لئے ذہنی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ صحیح اور مثبت سوچ یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ادراک کرکے ان کا ازالہ کریں اور کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوں۔
پس نوشت : جناب ایازامیر نے کرم فرمایااوراپنے ''تبرکات وتوجہات‘‘ سے نوازا،اُن کا ازحد شکریہ ۔اپنے عہد کی ''دانش‘‘ کے بزعمِ خویش ''امیروامام‘‘نے اپنے ذہن میں احمقوںکی جو فہرست مرتب فرمارکھی ہے،اُس میں میرا نام بھی شامل فرمایا،یہ اُن کی طرف سے ایک اعزاز ہے ،اُن کا بارِدگر شکریہ ۔لگتاہے اس عاجز ،خطاکار اورعصیاں شعار کی کوئی ادنیٰ سی نیکی اللہ عزوجلّ کی بارگاہ میں شرف ِ قبولیت حاصل کرچکی ہے ،جس کی ظاہری علامت یہ ہے کہ یہ فقیر اُس ''امیر‘‘ کی نظر میں قابلِ نفرت ٹھہرا،جس کے نزدیک مذہب اور اہلِ مذہب گردن زدنی ہیں ،بقولِ شاعر ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
کبھی تو جھانک کر دیکھو جہانِ ذات میں اپنی 
کبھی پوچھو یہ اپنے آپ سے کہ تم کہاں، کیوں ہو؟
جس حدیثِ پاک کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں پیغمبرِ اسلامﷺ کی تربیت وتزکیے سے فطرت سنوارنے کا ذکر ہے، لیکن دوسری حدیثِ مبارَک میں یہ بھی فرمایا کہ فطرت بدلتی نہیں ہے، چنانچہ فرمایا: جب تم سنو! ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے، تو اس کی بات کی تصدیق کرلو اور اگر یہ سنو کہ ایک شخص اپنی فطرت سے ہٹ گیاہے، تواس کی تصدیق نہ کرو،(مسند احمد:28494)‘‘۔ یعنی فطرت کا بدلنا امرِدشوار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved