توانائی کی کمی خوراک کا تقاضا کرتی ہے۔ بُھوک لگی ہو تو کچھ نہ کچھ کھانے کو چاہیے‘ لیکن اگر کسی کا کام ہی ایسا ہو کہ ہر طرف کھانے پینے کی اشیاء دکھائی دیتی ہوں تو بُھوک مر جاتی ہے۔ قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ایک زمانے سے تبدیلی، انقلاب، حقیقی آزادی، حقیقی جمہوریت اور عوام دوست طرزِ حکمرانی کا راگ الاپا جارہا ہے۔ یہ راگ الاپنے والے قوم پر ایک بڑا احسان فرماگئے ہیں۔ سُن سُن کر ہی پیٹ بھرگیا ہے۔ اب اِن تمام ''نعمتوں‘‘ کی فی الواقع کچھ ایسی خاص ضرورت نہیں رہی۔
مرزا تنقید بیگ کئی دن سے نزع کی حالت میں ہیں۔ جب بھی کوئی سیاسی تحریک چلتی ہے (یا چلائی جاتی ہے) تب مرزا کی ایسی ہی حالت ہوجاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اُن کا دم اب نکلا کہ تب نکلا۔ قوم کو راہ دکھانے پر تُلے ہوئے لوگوں کی باتیں سُن سُن کر مرزا کا دم کبھی نکلنے لگتا ہے اور کبھی بُری طرح اٹک جاتا ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے عوامی خطاب سے جب وہ کوئی بھی کام کی بات کشید نہیں کر پاتے تو اُن کا مُنہ لٹک جاتا ہے۔ قوم کے رہبروں نے دھرنوں اور ریلیوں سے خطاب کے دوران بارہا ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ مرزا ''سیاسی شہید‘‘ ہوتے ہوتے بچے ہیں۔
کل مرزا سے اُن کے کنٹینر ... معاف کیجیے گا، ہمارا مطلب ہے اُن کی بیٹھک میں ملاقات ہوئی۔ مرزا ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ بھابی نے بتایا کہ کئی دن ہوگئے ہیں، رات دن یونہی ٹی وی پر نظریں جمائے رہتے ہیں۔ مرزا کو یُوں ''ٹی وی بینی‘‘ کی مشق کرتے دیکھ کر ہمیں اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی مرحوم یاد آگئے۔ آپ شمع بینی کی مشق فرمایا کرتے تھے۔ اُس مشق کا نتیجہ یہ تھا کہ اُستادِ محترم کے اشعار میں روشنی در آئی۔ اُن کے اشعار آج بھی اُجالا بکھیرتے ہیں۔ اور مرزا ہیں کہ ''ٹی وی بینی‘‘ کے ذریعے اپنے ذہن کی تاریکی کو گہرا کئے جارہے ہیں۔
بھابی نے چائے لاکر دی تو ہمیں اُس میں چینی کی زیادتی محسوس ہوئی۔ سبب پوچھا تو بھابی نے بتایا کہ مرزا کو آج کل ہر وقت سیاسی گفتگو کا فوبیا ہوگیا ہے اور چونکہ سیاسی گفتگو میں شدید تلخی کی بھرمار ہوا کرتی ہے اِس لیے توڑ کے طور پر چائے میں چینی کی مقدار بڑھادی ہے تاکہ مرزا کو سُننے والے چائے کی مِٹھاس میں گم ہوکر سیاسی تلخ بیانی پر توجہ دینے کی زحمت سے نجات پائیں!
ہم تو مرزا سے شادی کے لیے ہاں کہنے پر بھابی کو یکسر بے عقل سمجھ بیٹھے تھے‘ لیکن اب جب اُنہوں نے چائے میں چینی بڑھانے کی غایت بیان کی تو ہمیں محسوس ہوا کہ اُن کے ذہن کے کسی گوشے میں اب تک دانائی کا بسیرا ہے۔ مرزا کے ساتھ رہتے ہوئے بھی دانائی کی سنگت! ع
یہ اُس کی دَین ہے، جسے پرورگار دے!
مرزا کا خیال ہے کہ قوم کو اب کسی بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی علامہ اقبالؔ فرماگئے ہیں ع
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
جب تغیّر کے نصیب میں موت لکھی ہی نہیں گئی تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ آئے دِن کسی نہ کسی تغیّر کے لیے خود کو خوار و زبوں کرتے پھریں؟ اقبالؔ کے کلام سے یہ لاجواب نکتہ کشید کرنا کچھ مرزا ہی کا حصہ ہوسکتا ہے۔ ہم جیسے کوتاہ بیں تو علامہ کو پڑھنے کے بعد اب تک نیل کے ساحل سے کاشغر کی خاک تک کے مسلمانوں کو ایک کرنے کی سوچ میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
دو ہفتوں سے ملک جس مخمصے میں ہے اُسے مرزا نے اللہ کے کرم سے تعبیر کرکے ہمیں ایک بار پھر حیرت زدہ کردیا۔ ہم جب بھی مرزا سے ملنے گئے ہیں، ملاقات کا نصف وقت اُن کے بیان کردہ عجیب و غریب نکات کے ہاتھوں مبہوت رہ جانے میں گزرتا ہے‘ اور کبھی کبھی تو اُن کے نکات سُن کر لوگ اِس قدر حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ مبہوت سے کہیں بڑھ کر بُھوت دکھائی دینے لگتے ہیں!
اسلام آباد کے ریڈ زون میں جو کچھ ہوا وہ بھی مرزا کی نظر میں اللہ کی رحمت ہے۔ ہم نے غایت جاننی چاہی تو فرمایا۔ ''قوم اِن دو ہفتوں کے دوران سارے دُکھ بُھول گئی اور ہر لحظہ یہی فکر لاحق رہی کہ اب کیا ہوگا۔ یہ 'اب کیا ہوگا‘ ایسی 'نعمت‘ ہے کہ حکمران اور اُن کے مخالفین دونوں اِسی ایک بنیاد پر اپنی اپنی مرضی کی عمارت کھڑی کرنے لگے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ایک مخمصہ برقرار رکھا جائے، قوم کو کسی 'اشُبھ گھڑی‘ سے خوفزدہ رکھا جائے۔ حکمران کہتے ہیں کہ اپوزیشن ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا چکی ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عوام اِن کی اِس لڑائی کو دیکھ دیکھ کر وسوسوں اور خدشات کی دلدل میں دَھنسے رہتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین اُن کی جان نہیں چھوڑتی کیونکہ اُنہیں راستہ دکھانے کے دعویدار ٹی وی اسکرین کی جان نہیں چھوڑتے۔ اُنہیں بولنے کا ہَوکا ہے اور عوام کو سُننے کا چسکہ پڑچکا ہے۔‘‘
مرزا بولے جارہے تھے اور ہم ساکت و جامد اُنہیں سُن رہے تھے۔ جب وہ بول رہے ہوں تو کوئی سُننے کے سِوا کر بھی کیا سکتا ہے! بھابی نے لُقمہ دیا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو پے در پے خطاب کرتے دیکھ کر اب مرزا بھی سراپا خطاب ہوچلے ہیں۔ ایک گلاس پانی بھی منگوانا ہو تو تصوراتی مائکروفون ٹھیک کرکے آواز دیتے ہیں۔
مرزا نے اپنی دانش کے بیان کا سلسلہ آگے بڑھایا: ''دو ہفتوں کے دوران حکمرانوں، اُن کے مخالفین اور میڈیا کے بزرجمہروں نے قوم کو ہر غم سے آزاد کردیا۔ ایک ماہ ہونے کو آیا ہے اور قوم کو کچھ یاد ہی نہیں کہ بجلی و پانی کے بحران کی کیفیت کیا ہے۔ مون سون گزر رہا ہے مگر اللہ کی رحمت اُتنی نہیں برسی جتنی ضرورت اور توقع تھی۔ خیر، قوم کو بھی کچھ خیال نہیں کہ ڈیم بھرے یا نہیں۔ بلکہ ایسی باتیں کرنے والوں کو لوگ ڈیم فُول سمجھنے لگے ہیں۔ سیاست دانوں نے اپنی لڑائی کو بہت خوبصورتی سے ہر گھر تک پہنچا دیا ہے۔ میڈیا کی طاقت نے وہی مشکل پیدا کردی ہے جو شاپنگ کے وقت خواتین کو درپیش ہوتی ہے۔ دکانوں میں چمک دمک اور
ورائٹی اِتنی ہوتی ہے کہ خواتین جب گھر پہنچ کر شاپنگ بیگز کھولتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 30 فیصد سے زائد اشیاء ایسی ہیں جن کی کوئی ضرورت نہ تھی، بس چمک دمک سے متاثر ہوکر خرید لیں! قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جن باتوں پر سوچنا اور کڑھنا ہے اُنہیں بُھول کر ہر اُس معاملے پر کڑھ رہی ہے جس سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ یا اگر تعلق ہے بھی تو بہت دُور کا۔ بُنیادی سہولتوں کی فکر میں مُبتلا ہوکر اُن کے لیے احتجاج کرنے کے بجائے قوم کو ملک کی تقدیر کے فیصلوں کی پڑی ہے۔ اگر یہی 'انقلاب‘ ہے تو قوم ہی کو مبارک ہو۔ اب کِس انقلاب کا انتظار ہے؟ اچھا ہے، غیر متعلق باتوں کے سمندر میں غرق ہوکر اُن تمام جزیروں کو بُھول جائیے جہاں تک پہنچنے کی لگن اب تک دِلوں میں توانا رہی ہے‘‘۔
مرزا کی بات کا سمجھنا کچھ ایسا دشوار بھی نہیں۔ قوم منزل کی جُستجو میں راستے ہی کو منزل سمجھ بیٹھی ہے۔ ؎
منزلیں ڈھونڈتی ہی رہ جائیں
راہ کی دلکشی میں کھو جاؤں!
یاروں نے کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔ ہر جماعت سیاسی اُچھل کود کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور دلکش بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ ایسے میں قوم کو اپنے بُنیادی مسائل یاد بھی رہیں تو کیونکر؟ معاملہ ایسا ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت بحران کے اکھاڑے میں مدمقابل کو چِت بھی کردے تو کوئی بات نہیں، فتح تو سب ہی کی کہلائے گی! سیاسی اکھاڑے میں خواہ کوئی ہارے، آخرِکار عوام ہی کو لمبا لیٹنا ہے۔ جس ''انقلاب‘‘ کی نوید سُنائی جاتی رہی ہے وہ اگر یہی ہے تو ع
بس ہو چکی نماز، مُصلّیٰ اُٹھائیے