تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     31-08-2014

ہاتھ دکھانے والے

جناب عمران خان اور جناب ڈاکٹر طاہر القادری کے لشکر ابھی تک اسلام آباد کے شاہراہ دستور کے ایک حصے پر پڑائو ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان اب علی الاعلان رابطہ قائم ہوچکا ہے۔ وفود کی آمد و رفت جاری ہے۔ مشاورت کے بعد قدم آگے بڑھانے یا نہ بڑھانے کے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ جناب قادری نے تحریک انصاف اور اپنی جماعت کو ''کزن‘‘ قرار دے دیا ہے، حالانکہ انہیں جڑواں بچے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت دونوں کے دھڑ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔قادری لشکر تو اپنے مقام پر جم کر بیٹھا ہوا ہے، لیکن تحریک انصاف کے جنونی بڑھتے گھٹتے رہتے ہیں، شام ڈھلے ان کا احتجاج پھیلنے اور رات گئے سمٹنے لگتا ہے۔ عمران خان خود تو کنٹینر میں تشریف فرما ہیں، لیکن انہوں نے اپنے معتقدین کی آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں لگائی، وہ دانا دنکا چگنے کے لئے آزاد ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ دونوں اتحادی ایک دوسرے کو کمک بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ایک کے سامعین دوسرے کی رونق کا سامان بن جاتے ہیں۔ دونوں قائدین وزیراعظم نوازشریف سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور اس کے بغیر اپنی جگہ سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔حکومت سے ان کے مذاکرات ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتے اور جڑ جڑ کر ٹوٹ جاتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے بقول تحریک انصاف نے جو چھ نکاتی مطالبات پیش کئے تھے، ان میں گزشتہ انتخابات کی جانچ پڑتال اور آئندہ انتخابات کے انتظامات کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات پر مکمل اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ صرف وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ اڑچن ڈالے ہوئے ہے۔معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے ارکان کی بڑی تعداد پانچ نکاتی فتوحات پر اکتفا کرنے کو تیار تھی، لیکن جناب خان نے اسے ''ویٹو‘‘ کردیا اور کمیٹی کو تسلی دی کہ جب سب کچھ حاصل ہونے والا ہے تو بہت کچھ پر اکتفا کیوں کیا جائے؟ سو دھرنا جاری ہے اور اپنے یک نکاتی مطالبے پر ڈٹا ہوا ہے۔
جناب طاہر القادری کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کامیاب ہو چکی۔وہ پنجاب اور سندھ کے دیہی کلچر کے مطابق اپنی مرضی کے افراد کو ملزم بنا چکے ہیں، لیکن انقلابی ایجنڈا جوں کا توں ہے۔ اس پر بات چیت کی انہیں جلدی بھی نہیں ہے، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ ان کے بنیادی مطالبات ہیں۔گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ وزیراعظم کی کئی ملاقاتیں ہو ئیں، ان میں ''دھرنا مسئلہ‘‘ اور اس کے پیدا کردہ اثرات بھی زیر بحث آتے رہے۔ اسلام آباد میں دستور کی دفعہ 245کے تحت فوج کو طلب کیا جا چکا ہے، اہم تنصیبات کی سکیورٹی اس کے سپرد ہے۔ جب دھرنا قائدین سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہوا تو وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو سہولت کاری کے لئے کہا گیا۔ بات قادری صاحب کے کانوں تک پہنچی اور انہیں (عمران خان کے ساتھ ساتھ) آرمی ہائوس میں ملاقات کے لئے طلب کیا گیا تو انہوں نے اپنے مریدین کے سامنے اعلان کیا کہ آرمی چیف ''ثالث اور ضامن‘‘ کا کردار ادا کریں گے۔ جناب عمران خان کی طرف سے بھی ملتا جلتا تاثر دیا گیا، ملک بھر میں اس پر مزید اضطراب پیدا ہوا، رات بھر ٹی وی چینلز پر قادری پکارگونجتی رہی۔ حکومت کے کسی ترجمان اور محکمہ داخلہ سے لے کر اطلاعات تک کے کسی کارندے نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ضامن یا ثالث بنانے کی نہیں، سہولت کاری کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان تینوں الفاظ کے معانی میں میلوں کا فاصلہ ہے۔ ثالث، فریقین کی رضا مندی سے مقرر ہوتا اور اس کی رائے فیصلہ کن ہوتی ہے۔ضامن کا مطلب بھی بہت مختلف ہے، سہولت کاری کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ جناب طاہر القادری اپنی قادرالکلامی کا مظاہرہ کرکے حکومت کو زچ کرنے کا سامان کر گئے، اس کے جملہ متعلقین کی غفلت نے اس کے امیج کو صدمہ پہنچا دیا۔
اگلے روز قومی اسمبلی میں وزیر داخلہ نے معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کی، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے جذباتی تقریر کرکے ماحول کو گرما دیا، دستور کی حفاظت کے لئے جس بے پناہ عزم کا اظہار انہوں نے کیا، وہ تاریخ میں ان کے لئے بلند مقام محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی ترجمانی کا منصب بھی ان کو عطا کر گیا۔ وزیراعظم نے اس کے بعد چند الفاظ ادا کئے اور واقعات کی تمام کڑیاں سامنے لانے کے بجائے، ادھورے ذکر پر اکتفا کر گئے۔ بس پھر کیا تھا، ان کو نشانے پر رکھ لیا گیا، فوج اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھانے والے بغلیں بجانے اور اکسانے لگے۔یہ تاثر عام ہوا کہ حکومت نے آرمی چیف کو اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی ہدایت کی تردید کر دی ہے، آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کرکے واضح کیا کہ ''سہولت کاری‘‘ کی خواہش (وزیراعظم کی طرف سے) ظاہر کی گئی تھی۔شام ڈھلے وزیرداخلہ پھر میڈیا کانفرنس میں جلوہ گر ہوئے اور ''سہولت کار‘‘ ،ضامن اور ثالث کے فرق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سہولت کاری آئین کے دائرے کی بات ہے جبکہ ثالث یا ضامن، بالا تر از دستور ہیں۔ وزیر داخلہ طلاقتِ لسانی کی داد پا سکتے ہیں، لیکن جو نقصان پہنچ چکا تھا، اس کے اثرات ٹی وی سکرینوں پر پھیلے رہے اور کئی اینکر کان اور آنکھیں بند کرکے اپنی دھن میں مگن رہے۔
آرمی چیف کی ملاقاتوں کے بعد مذاکرات کی میز پھر سج گئی، گویا ان کی ''سہولت کاری‘‘ بروئے کار آ گئی، لیکن استعفے کا بیریئرکراس نہیں ہو سکا۔ بات چیت کا سلسلہ پھر ٹوٹ گیا۔ جی ایچ کیو نے بھی (شاید) چپ سادھنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور دھرنا دینے والے اپنی دی گئی ''ڈیڈ لائن‘‘میں اُلجھ گئے تھے۔دونوں قائدین نے آئندہ لائحہ عمل یعنی ''دما دم مست قلندر‘‘ کا اعلان کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔کئی قادری لشکریوں نے کفن پہن لئے تھے، قبروں کی کھدائی شروع تھی اور شیر خوار بچوں کو بھی کفن پہنا کر اس پر اترایا جا رہا تھا۔تحریک انصاف کے متوالے کفن بردوش تو نہیں تھے، لیکن کسی ''انقلابی اقدام‘‘ کے لئے تیار ہونے کا تاثر دے رہے تھے۔ تحریک انصاف، عوامی تحریک کے کام یوں آئی کہ شاہ محمود قریشی کے زیر قیادت ایک بڑے وفد نے آکر ''دما دم مست قلندر‘‘کو موخر کرنے کی اپیل کی اور قادری صاحب نے اس پر سکون کا سانس لے کر 24گھنٹے کی مہلت (اپنے مریدین سے) حاصل کرلی۔ ممکن ہے جب یہ سطور شائع ہوں تو کوئی ''انقلابی حرکت‘‘ کی جا چکی ہو اور ممکن ہے اس میں برکت کی عدم دستیابی حالات کو جوں کا توں رکھنے یا پیچھے دھکیل دینے میں کامیاب رہی ہو۔
جناب عمران خان ایک بڑے لیڈر کے طورپر ابھرے تھے، 2013ء کے انتخابات نے ان کی جماعت کو (ووٹوں کے اعتبار سے) پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بنا دیا تھا۔آئندہ انتخابات سے وہ زیادہ بڑی توقعات قائم کر سکتے تھے۔ ڈاکٹرطاہر القادری نے بھی اپنی خطابت اور مہارت سے اپنے قد میں اضافہ کیا ہے۔ان کے الفاظ بہت سے دلوںکے تار چھیڑتے اور انہیں کچھ کر گزرنے کے جذبے سے معمور کرتے ہیں۔ماضی کے برعکس وہ انتخابی میدان میں بھی اپنا جھنڈا گاڑنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر طاقت کے بل پر (ان کی طرف سے) خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کہ :موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
اسلام آباد کی ایک سڑک کے ایک حصے پر قبضہ کرکے پوری دستوری زندگی کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک دلچسپ اضافہ ہے ۔ واقفان حال کہہ رہے ہیں کہ جلد وہ وقت آسکتا ہے جب سب کچھ سامنے آ جائے گا، آستین کا لہو پکار اٹھے گا، دستانے اتار ڈالے جائیں گے، ہاتھ دکھانے والے ہاتھ دیکھتے رہ جائیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved