تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-08-2014

سبھی آشکار ہیں

سبھی بے نقاب ہو گئے ۔ رائے عامہ نے سب کو پہچان لیا۔ اگر وہ باہم فیصلہ نہ کریں گے تو کوئی اور فریق کرے گا۔ وقت کبھی رکا نہیں رہتا۔خدا ئی فیصلہ صادر ہو گا کہ بے چین ہو کر خلق پکارتی ہے۔
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے 
فلک کو قافلۂ صبح و شام ٹھیرائے
خورشید شاہ نے کیسی ولولہ انگیز اور کیسی بے سروپا تقریر کی۔ ''سپرم کورٹ کو آگ لگا دو، پارلیامی انٹ کو آگ لگادو لیکن آئین کے ایک صفحے کو بھی آگ لگانے نہیں دیں گے‘‘ کیا ایوان میں دستور کی منسوخی زیرِ بحث تھی؟ کیا اس وقت یہ فوج نہیں ، جو آئین کی حفاظت پہ تلی ہے ؟ کیا یہ سیاستدان نہیں ، جو اسے مسخ کرنے کے درپے ہیں ؟
آئین اور قانون کا تقاضا کیا ہے ؟ اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی...اور سبھی پارٹیوں نے واویلا کیا تھا...تو بروقت تدارک کا کوئی اہتمام کیوں نہ ہوا؟ہم لوگ شور مچاتے رہے کہ انتخابی فہرستیں نادرا کے سپرد کی جائیں ، الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہو اور انتخابی عذرداریاں تیس دن میں نمٹا دی جائیں ۔ بالکل برعکس الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں ساز باز سے بنیں ۔ کمیشن میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اپنے نمائندے نامزد کیے ۔ پختون خوا میں افسروں کا تقرراے این پی اور جمعیت علمائِ اسلام کی مرضی سے ہوا۔ الیکشن سے چند روز قبل ایم کیو ایم ازراہِ احتیاط اپوزیشن بنچوں پر جا بیٹھی کہ نگران صوبائی حکومت میں سے حصہ بٹور سکے ۔ چیف الیکشن کمشنر کو ا ختیار ات سے محروم کر دیا گیا۔ رہیں انتخابی فہرستیں تو کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ آئی ایس آئی کا سربراہ ایک دن نادرا کے دفتر گیا اور چیئرمین کو قائل کیا کہ اٹھارہ 
سال کی عمر کے ہر شخص کو ووٹر مان کر فہرستیں جاری کر دی جائیں ۔ وہی spy master، جسے الفاظ و معانی مسخ کرنے والے وزیر اطلاعات موجودہ تحریک کا روحِ رواں کہتے ہیں ، جنرل شجاع پاشا۔ آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو بھی؛ حالانکہ اب وہ سیاست میں ہیں اور گزشتہ الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انہوں نے 56000ووٹ لیے تھے ۔ تحریکِ انصاف ایسے کسی امیدوار کو اپنانے پر آمادہ نہیں تھی ، جس کے جیت جانے کا امکان ہو ۔ 
برسبیلِ تذکرہ ، آئی بی کے موجودہ سربراہ آفتاب سلطان اگر یہ کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے اخبار نویسوں میں پیسے نہیں بانٹے تو ٹھیک کہتے ہیں ۔ ان کا ماضی اس پر گواہ ہے ۔ وہ کبھی کاسہ لیس نہیں رہے اور کبھی لین دین کا حصہ نہ تھے۔ آئی بی کا کل بجٹ اس رقم کا بیس فیصد بھی نہیں ، جس کی بندر بانٹ کا تذکرہ ہے ۔ پھر جن اخبار نویسوں کا ذکر ہے ،ان میں دو ایک چھچھوندروں کے سوا کوئی نہیں ، جس کے ماضی پر دھبہ ہو۔ لاہور میں ایسی اطلاعات البتہ موجود ہیں کہ بڑے بڑے ٹھیکیداروں سے عطیات لیے گئے ۔ ان میں سے ایک نے بتایا: یہ کہہ کر کہ اخبارنویسوں کی خریداری مقصودہے ۔ لاہور‘ یوں بھی آزادیٔ صحافت کا قبرستان بن چکا۔ 
پھر وزیراعظم نے ارشاد کیا: میرے کچھ نظریات اور اصول ہیں ۔ کون سے نظریات؟ کون سے اصول؟ کبھی آپ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تھے ۔ حکومت میں رہ کر کاروبار آپ نے چمکایا۔ بینکوں سے قرضے آپ نے لیے ۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک 
میں بھی یہ تماشا ممکن ہے ؟ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی یہ ممکن ہے کہ وزیراعظم اور اس کے خاندان کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہو ۔ 2005ء میں نون لیگ کا ایک لیڈر میرے پاس آیا اور رازداری سے کہا : خفیہ طور پر پیرس اور سوئٹزرلینڈ کے وہ دورے کرتے ہیں۔ یہ صاحب خیر سے اب وفاقی وزیر ہیں۔ میاں صاحب کے وکیل اعتزاز احسن نے چیخ کر کہا : 1995ء سے 1997ء تک وزیراعظم نے صرف 432روپے ٹیکس ادا کیا۔ کون سے اصول؟ کون سے نظریات؟ 
فوجی قیادت بھی چیرہ دستیوں کی مرتکب ہوئی لیکن اکثر یہ سیاسی لیڈر ہیں ، جو جمہوریت کو بیچ کھاتے ہیں۔ خورشید شاہ کے چیخنے کا سبب سمجھ میں نہ آسکا۔ گھر سے وہ ثالث بننے آئے تھے، وعدہ معاف گواہ بن گئے؟ کیا جمہوریت کو فوج سے خطرہ ہے ؟ اس میں شبہ نہیں کہ شاید ہماری تاریخ میں پہلی بار فوجی افسروں میں تصورات مختلف بھی ہیں ۔ سب مگر جانتے ہیں کہ فیصلہ سپہ سالار کیا کرتاہے ۔ جنرل راحیل شریف ابھی تک ناک کی سیدھ میں چل رہے ہیں ۔ پنجابی محاورہ یہ ہے کہ بھاگتے ہوئے گھوڑے کو کوڑا نہیں مارنا چاہیے۔ عقلِ عام اگر بازار میں بکا کرتی تو خورشید شاہ کے لیے ضرور خریدی جاتی ۔ جھگڑا لیڈروں کے مابین ہے ۔ فوج اور سول قیادت میں نہیں ۔ کس نے ان سے کہا ہے کہ باہم طے نہ کر لیں ۔ بھاگ دوڑ بہت ہے اور سنجیدہ کوشش بہت کم۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر وہ چیختے ہیں : ہم نظام کو تباہ نہ کرنے دیں گے ۔ تباہی کے درپے آج کون ہے ؟ وزیراعظم بہت بااصول ہیں اور مولانا فضل الرحمن ان کے ہم رکاب ، جدّہ میں جن کا نام سن کر وہ برا سا منہ بنایا کرتے تھے۔ ایک اور بااصول جماعت ایم کیو ایم ہے ، جو کبھی وزیراعظم سے کہتی ہے : ضرورت آپڑے تو اپنا عہدہ قربان کر دیجیے ، کبھی علّامہ طاہر القادری اور عمران خان کو تحمل کا سبق دیتی ہے اور کبھی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے ۔ ابھی تک جس نے یہ معلوم ہی نہیں ہونے دیا کہ کس لشکر میں ہے ۔ 
وزیراعظم مستعفی نہ ہوں گے۔ کچھ بھی ہو، معاملات مذاکرات سے طے ہوں گے ۔ عمران خان نے خود کہا کہ چیف جسٹس پر انہیں مکمل اعتماد ہے ۔ اب جب کہ وزیراعظم کے استعفے کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی تحقیقات سے مشروط کرنے کی پیشکش ہے‘ یہ بھی کہ ان ججوں کا تعین وہ خود کر لیں تو وہ انکار کیسے کر سکتے ہیں ؟ اپنے الفاظ وہ نگل کیسے سکتے ہیں ۔ 
جمعرات کو ایوانِ وزیراعظم کی ملاقات میں میاں محمد نواز شریف نے جنرل راحیل شریف سے کہا کہ وہ بحران کو حل کرنے میں مدد دیں ۔ بات کا بتنگڑ کس نے بنایا؟ علّامہ طاہر القادری نے۔ ''فوج کی ضامنی اور ثالثی میں‘‘ وہ کہتے رہے ۔ یہ پیمان کسی نے ہرگز نہ کیا تھا۔ اگلے دن وزیراعظم وضاحت کرنے کے لیے اٹھے۔ وزیرِ داخلہ کو موصول ہونے والے فون کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ صاف الفاظ میں کہتے : ہاں ہم نے فوج سے کہا ہے کہ سہولت کار کا کردار ادا کرے تاکہ قوم سکھ کا سانس لے ۔ علّامہ اور کپتان کی طرح ، جو ہمہ وقت اپنا قصیدہ پڑھتے رہتے ہیں ، ان میں اپنے فضائل بیان کرنے کا ولولہ جاگا۔ ''میرے اصول، میرے نظریات‘‘۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ بحران اٹھتا ہے تو کردار کھل جاتے ہیں ۔ سبھی آشکار ہو گئے ۔ سراج الحق خوش قسمت ہیں کہ آبرو بچا لے گئے ۔ 
کپتان آج کل قرآنِ کریم کی تفسیر بھی بیان کرنے لگا ہے ۔ کہا، اللہ کہتاہے: میں ان قوموں کو مٹا دیتا ہوں، جو ظلم کے خلاف جہاد نہیں کرتیں ۔ جی نہیں ، ان قوموں کو، جو شرک میں مبتلا ہوتی اور سرکشی اختیار کرتی ہیں۔ جدوجہد نہ کرنے والے معاشروں پر بدترین حاکم مسلّط کیے جاتے ہیں ۔ ان پر جو برائی کو روکتی نہیں اور بھلائی کی ترغیب نہیں دیتیں ۔ ہم پر وہی حاکم مسلّط ہیں ، چاروں صوبوں میں ۔
بحران کا حل سامنے ہے مگر وہ متحارب اور بغض وعناد میں مبتلا ہیں اور جو بغض و عناد میں مبتلا ہوں ، ان پر نجات کی راہ کشادہ نہیں کی جاتی۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے ۔ انتقام اور انقلاب کا نہیں۔ 
کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ لیڈروں کے گرد خوشامدیوں کے جھرمٹ۔ یہ لمحات اعصاب شکن ضرور ہیں لیکن قرآن یہ کہتاہے کہ معاشروں کی تطہیر کا عمل اسی طرح ہوا کرتا ہے ۔ 
سبھی بے نقاب ہو گئے ۔ رائے عامہ نے سب کو پہچان لیا۔ اگر وہ باہم فیصلہ نہ کریں گے تو کوئی اور فریق کرے گا۔ وقت کبھی رکا نہیں رہتا۔
پسِ تحریر: ایک چھوٹے سے آپریشن کے لیے ہسپتال میں ہوں۔ کچھ دن اور بے قاعدگی رہے گی ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved