تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     31-08-2014

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

ہم غیر آئینی مطالبات کے آگے
نہیں جھکیں گے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم غیر آئینی مطالبات کے آگے نہیں جھکیں گے‘‘ بلکہ ہم تو آئینی مطالبات کے آگے بھی نہیں جھک سکتے کیونکہ جھکنے کے لیے کمر اور گردن میں جو نرمی درکار ہوتی ہے‘ وہ بوجوہ موجود بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک نہیں‘ دس حکومتیں قربان کر سکتا ہوں‘‘ جس کے لیے دس حکومتیں حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے جس کا صدری نسخہ ہمارے ہاتھ آ گیا ہے اور جسے نو بار مزید آزمایا جا سکتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''منصب آنی جانی چیز ہے‘ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کروں گا‘‘ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ اصول بھی ہم نے خود ہی بنا رکھے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہے‘‘ اور اگر میرے جیسا محافظ موجود ہو تو آئین کو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے، بلکہ ملکی وسائل اور خزانے کو بھی فکر کی ضرورت نہیں ہے جس کا معتدبہ حصہ اتفاق سے بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج کو ہم نے ثالث نہیں بنایا‘‘ بلکہ یہی کہا تھا کہ ہمیں اس مصیبت سے نکالے ورنہ فوج اور کس لیے ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے۔ 
مجھے جیت کی خوشبو آ رہی ہے... عمران خان 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''مجھے جیت کی خوشبو آ رہی ہے‘‘ اگرچہ آج کل ذرا زکام شکام کی شکایت بھی رہتی ہے لیکن شیخ رشید صاحب نے بتایا ہے کہ یہ واقعی خوشبو ہے اور جیت ہی کی خوشبو ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف قوم سے معافی مانگیں‘‘ ورنہ میں مانگ لوں گا کیونکہ قوم سے معافی کا خواستگار تو ہر وقت رہنا چاہیے کہ سیاستدان آخر بندے بشر بلکہ خطا کے پُتلے ہیں‘ ورنہ آج قوم کی یہ حالت نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ میں بیٹھے سارے ممبران دھاندلی کو بچانے کے لیے اکٹھے ہو گئے‘‘ حالانکہ وہ مجھے بچانے کے لیے بھی اکٹھے ہو سکتے تھے کیونکہ میری حالت اب کچھ زیادہ ہی قابل رحم ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اب آزادی مارچ کو پوری طاقت سے ملک بھر میں پھیلائیں گے‘‘ کیونکہ یہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کافی حد تک پھیل چکا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں پھیلتا پھیلتا پھٹ ہی نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کو جمہوریت کا پتہ ہی نہیں‘‘ اور اب تو میں بھی انہیں جمہوریت کا سبق پڑھا پڑھا کر تھک چکا ہوں اور ذرا آرام کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اگلے روز دھرنے کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔ 
مبارک ہو‘ حکمرانوں نے
ہار مان لی ہے... طاہرالقادری 
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ''مبارک ہو‘ حکمرانوں نے ہار مان لی ہے‘‘ اور اسی احساسِ شکست کے پیش نظر اب ان میں مستعفی ہونے کی سکت بھی باقی نہیں رہی اور ان کی حالت پر ترس آتا ہے کہ خدا دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا‘‘ اگرچہ دودھ حکومت کے حصے میں آیا ہے اور ہمیں پھوکا پانی ہی دستیاب ہوا ہے جس میں بھی لگتا ہے کہ حکومت نے کچھ ملا دیا ہے جس سے کارکن بیہوش بھی ہو رہے ہیں اور مدہوش بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''جابر حکمرانوں کا تختہ الٹ کر جانا ہے‘‘ اس لیے اگر حکمران چاہتے ہیں کہ ہم یہاں سے چلے جائیں تو اپنے تختے سے چمٹے نہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''چھ سے سات گھنٹوں سے فون کر رہا ہوں‘ کوئی اٹھاتا ہی نہیں‘‘ یعنی حکمرانوں نے ہار اس حد تک مان لی ہے کہ اب ان میں فون اٹھانے کی سکت بھی نہیں رہی‘ نہ ہی دوسرے مہربان فون اٹھاتے ہیں حالانکہ وہ اتنے طاقتور ہیں کہ کم از کم فون تو اٹھا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز دھرنے کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔ 
حکومت جھک بھی گئی تو ہم 
نہیں جھکیں گے... خورشید شاہ 
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت جھک بھی گئی تو ہم نہیں جھکیں گے‘‘ اگرچہ ہمارے جھکنے نہ جھکنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر جمہوریت نہ رہی تو سب بھوکے مر جائیں گے‘‘ کیونکہ اس سے بڑا نہ کوئی کاروبار ہے نہ روزگار‘ اور آدمی منتخب ہو کر دنیا و مافیہا سے ایک دم بے نیاز ہو جاتا ہے اور چھپّر اپنے آپ ہی پھٹنا شروع ہو جاتا ہے جو ہر ڈویلپمنٹ منصوبے میں 16 فیصد حصے سے لے کر بہت دور تک جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین اور جمہوریت پر کوئی سودے بازی نہ کی جائے‘‘ کیونکہ تاجر حضرات منافع بخش سودا کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے والے چاہے پارلیمنٹ جلا دیں‘ آئین کا ایک صفحہ نہیں جلانے دیں گے‘‘ البتہ باقی صفحات کی حفاظت آئین کو خود کرنی چاہیے کیونکہ ہم نے ہر چیز بچانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف ڈٹ جائیں‘ ہم اُن کے ساتھ ہیں‘‘ اور اس وقت تک ساتھ ہیں جب تک کوئی نازک اور فیصلہ کن گھڑی نہیں آ جاتی۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس میں تقریر کر رہے تھے۔ 
پوری قوم دھرنوں کا خاتمہ 
چاہتی ہے ...رانا مشہود
صوبائی وزیر قانون رانا مشہود نے کہا ہے کہ ''پوری قوم دھرنوں کا خاتمہ چاہتی ہے‘‘ اور میں خود بھی جہاں موجود ہوں‘ یہی چاہتا ہوں کیونکہ میں روپوش رہ کر بھی ملکی معاملات سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایف آئی آر عوامی تحریک کی درخواست پر درج کی گئی‘‘ جس میں اگرچہ کافی دن لگ گئے کیونکہ حکومت ہر کام کافی سوچ بچار کے بعد کرتی ہے جیسا کہ ماڈل ٹائون آپریشن بہت غورو فکر کے بعد کیا گیا تھا جس کا مثبت ترین پہلو یہ ہے کہ رانا ثناء کی چھٹی ہو گئی اور خاکسار کو خدمت کا موقع ملا جس کا پہلے کوئی امکان نہ تھا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ع 
خدا شرّے بر انگیزد کہ خیرِ ما دراں باشد 
آپ اگلے روز کسی خفیہ مقام پر پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ 
پیپلز پارٹی مڈٹرم انتخابات 
کے لیے تیار ہے... منظور وٹو 
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظوراحمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی مڈٹرم انتخابات کے لیے تیار ہے‘‘ بلکہ وہ تو گزشتہ عام انتخابات کے لیے بھی تیار تھی لیکن ہمارا زیادہ تر زور صوبہ سندھ پر رہا اور ن لیگ والوں کے ساتھ یہی سمجھوتہ ہوا تھا کہ ہم الیکشن کے آر اوز وغیرہ سندھ میں اپنی مرضی کے لگاتے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے پنجاب میں لگا لے‘ جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمیں چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کی قیادت پر مکمل اعتماد ہے۔‘‘ جس طرح ان حضرات کو پنجاب میں میری قیادت پر مکمل اعتماد ہے کیونکہ جوڑ توڑ کے موضوع پر جو صدری نسخے میں بتا سکتا ہوں‘ کوئی اور اس کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اکثریت جمہوریت کے حق میں ہے‘‘ کیونکہ ان کی ساری بہاریں جمہوریت ہی کے دم سے لگی ہوئی ہیں ورنہ یہ ساری دکانداریاں چل ہی نہیں سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ ''سانحہ ماڈل ٹائون پر وزیراعلیٰ کو استعفیٰ دے دیناچاہیے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا‘‘ کیونکہ ہماری طرح شریف برادران بھی وعدوں کے خوب پکے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ 
آج کا مقطع
کر نہیں پائے اگر قید قفس میں تو، ظفرؔ 
اس کو دیوار پہ تحریر تو کر سکتے تھے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved