تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     31-08-2014

یہ اگر نہ ہوتا، وہ اگر نہ ہوتا؟

کائناتی پیمانوں پر ایک زمین یا سیّارہ اپنے ستارے یا سورج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سورج نہ صرف توانائی پیدا کرتے ہیں بلکہ انہی کی پیدائش کے بعد بچے کھچے مادے سے رفتہ رفتہ زمینیں جنم پاتی ہیں ۔یہی توانائی ایک زندہ خلیے سے لے کر کھرب ہا کھرب خلیات پہ مشتمل ، بنیادی ضروریات تک محدود جانداروں اور کرّئہ ارض کو بدل ڈالنے والے انسان کو جنم دینے اور اسے زندہ رکھنے والی تین بنیادی شرائط میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ دوسری شرط آرگینک مالیکیولز یا سادہ الفاظ میں ان عناصر کی موجودگی ہے ، جن سے زندہ خلیات نے وجود پانا ہے ۔پھر ہمیں پانی ایسا ایک مائع چاہیے ، جو ان مالیکیولز کو حل ہو کر ایک دوسرے سے جڑنے اور پیچیدہ شکل اختیار کرنے میں مدد دے سکے ۔
یہ بے سبب نہیں کہ زحل کے چاند ٹائٹن کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ نہ صرف یہاں یہ تینوں شرائط پوری ہوتی ہیں بلکہ دیگر کئی اعتبار سے بھی وہ ہم جیسا ہی ہے ۔ پانی نہ سہی، وہاں مائع میتھین کی بارش ہوتی ہے ۔ زمین کے علاوہ بھاری فضا رکھنے والا وہ واحد کرّہ ہے لیکن سورج سے زیادہ فاصلے کی بنا پر سرد بہت ہے ۔ سائنسدان اس چاند کو وہ جگہ قرار دیتے ہیں ، مستقبل میں جہاں زندگی جنم لے سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا بھی تو اس وقت تک انسان سمیت کرّئہ ارض کے تمام جاندار مٹ چکے ہوں گے ۔ 
توانائی زندگی کی اوّلین شرط ہے ۔ سورجوں کی صورت کائناتی بھٹیوں میں پیداہونے والی توانائی ۔ نہ صرف وہ زمینوں کو مناسب
درجہ حرارت فراہم کرتی ہے بلکہ اسی کے ذریعے قدرت کا ان دیکھا ہاتھ تخلیق کرتاہے ۔ جی ہاں ، پودے سورج کی اسی روشنی میں موجود قوت کو توانائی کی ایسی شکل میں بدل دیتے ہیں ، جو ان کو اور ہمیں ، کرئہ ارض کے جانوروں کو غذا فراہم کرتی ہے ۔ یہی نہیں اگر آپ جان سکیں کہ اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فاضل مادہ (Waste Product)کیا ہے تو حیرت سے آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں ۔ جی ہاں ، یہ آکسیجن ہے ، جس کی عدم موجودگی میں آپ چھ سات منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔
نائٹروجن اور آکسیجن ، زمین کی فضا تقریباً مکمل طور پر انہی دو گیسوں پہ مشتمل ہے ۔ یہاں میں ڈھائی ارب سال پہلے وقوع پذیر ہونے والے ایک اہم ترین واقعے کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا، جب ایک خاص قسم کا بیکٹیریا پیدا ہوا۔ پودوں ہی کی طرح سورج کی روشنی استعمال کرتے ہوئے ، وہ آکسیجن پیدا کرنے لگا۔ بیس کروڑ سال میں اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اسے Oxygen Revolution کہتے ہیں ۔ آج اگر ہم سانس لینے کے قابل ہیں تو(بظاہر) اسی حقیر مخلوق کی بدولت ۔آئیے تہہِ دل سے سیانو بیکٹیریا کا شکر ادا کریں ۔ 
کائنات کی سو ارب کہکشائوں میں سے ایک کا نام ملکی وے (Milky Way)۔ اس کے سینکڑوں ارب سورجوں میں سے ایک نظامِ شمسی ہے ۔ کرّہ ء ارض نامی اس کا تیسرا سیارہ بہت اہم ہے ۔ اس لیے نہیں کہ راقم الحروف اور اس کے قارئین کا تعلق اسی زمین سے ہے ۔ اس لیے کہ آدمی جیسا ذہین جاندار کجا، کسی دوسری زمین پر اب تک ایک زندہ خلیہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ انسان ڈھونڈتا اور پریشان ہوتا چلا جاتاہے ۔ 
تلاش و آرزو میں عمر گزری
تجھے اے زندگی لائوں کہاں سے
یہی وہ پسِ منظر ہے ، بڑے سے بڑے سائنسدان کو جو یہی سوال دہرانے پہ مجبور کر دیتا ہے : آخر ہم یہاں کر کیا رہے ہیں ؟ (What are we doing on this Earth?)۔بہرحال مارچ 2009ء سے خلا میں تیرتی ہوئی ناسا کی عظیم الشان کیپلر دوربین ہمارے جیسے سیاروں کا ڈیٹا زمین پر بھیج رہی ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ، ہوتا ہے کیا۔
زندگی کیسے تلاش کی جائے ؟ ہماری نگاہیںکمزور، وسائل محدود ہیں ....اور پھر انسانوں کو ایک دوسرے سے لڑنا بھی ہے ۔ بہترین اندازوں کے مطابق اوسطاً ہر سورج کم از کم ایک زمین رکھتاہے ۔ صرف ہماری کہکشاں میں ان کی تعداد سو ارب تک جا پہنچتی ہے ۔ دوسری کہکشائوں ہی میں نہیں ، ہماری کہکشاں کے کسی دور دراز کونے میں بھی اگر زندگی جاگ اٹھی ہے تو اس تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہی سمجھیے۔
اب میں آپ کو راز کی بات بتاتا ہوں ۔ ایک نہیں ، سات آسمان اور زمینیں سات ہیں ۔ ایک آسمان میں ایک ہی زمین اور یہ سب ایک دوسرے کے اوپر تلے رکھے گئے ہیں ۔ یہ بتایا ہے میرے پیارے رب اور اس کے سچے پیغمبرؐ نے۔ اس اعتبار سے زندگی کی تلاش واقعی ناممکن ہے ۔ سوائے اس کے کہ کسی دوسری کائنات میں ہم سے بہت زیادہ ذہین ، کہیں زیادہ باوسائل اور انتہائی محنتی مخلوق خود ہمیں ڈھونڈتی ہوئی ہم تک آپہنچے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سائنس بھی اب متوازی کائناتوں کا حوالہ دیتی ہے ۔ 
جہاں تک کرئہ ارض کا تعلق ہے ، زندگی یہاں بہت ہی غیر مستحکم ہے ۔ ایک لمحے کو سوچیے کہ اتنے سارے پیچیدہ نظام (مغربی سائنسدانوں کی نگاہ میں اتنے سارے اتفاقات )اگر ایک ساتھ نہ جڑے ہوتے توکیا ہوتا؟ اگر زمین کی تہوں میں پگھلا ہوا لوہا اور اس کے نتیجے میں مضبوط مقناطیسی میدان نہ ہوتے ؟ اگر اوزون نہ ہوتی ؟ اگر مسلسل استعمال ہونے والی آکسیجن کو دوبارہ پیدا (Replenish)کرنے کے لیے کھربوں پودے اور دیگر جاندار نہ ہوتے ؟ اگر زمین اپنے محور پر 23ڈگری کے خاص الخاص زاویے سے جھکی نہ ہوتی اور اس کے نتیجے میں بدلتے ہوئے معتدل موسم نہ ہوتے ؟ (یاد رکھیے اس زاویے میں تبدیلی سے زمین برف کی تہوں میں دھنس سکتی ہے )۔ اگر سورج سے ہمارا فاصلہ موزوں ہوتا؟ اگر زمین اپنے محور کے گرد گرد ش نہ کرتی (تو زمین کے ایک طرف ہمیشہ دن اور سخت گرمی جبکہ دوسری طرف ہمیشہ رات اور سخت سردی ہوا کرتی)؟ اگر نظامِ شمسی میں مشتری جیسا اتنا بڑا سیّارہ نہ ہوتا، جو خلا میں موجود بڑی بڑی چٹانوں کو مسلسل نگلتا نہ رہتا؟ اگراتنا بڑا چاند اس قدر قریب نہ ہوتا؟ اگرابتدا میں کرّہ ء ارض کوایک خاص ماحول ، درجہ حرارت اور آب و ہوا میسر نہ آتی (آج ان سب میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں )۔ اگر ہمارا سورج تنہا نہ ہوتا(اکثر جگہوں پر سورج دو یا تین کی جوڑیوں میں پائے جاتے ہیں )؟ اور یقین کیجیے کہ اس وقت سائنس کا ایک معمولی سا طالبِ علم آپ سے مخاطب ہے ۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت صرف بیرونی عوامل کا ذکر ہو رہا ہے ، زندہ اجسام کے اندر موجود حسین ''اتفاقات ‘‘اور ان کے باہمی ربط کا نہیں وگرنہ اس ''اگر ‘‘کی کوئی حد نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved