تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     01-09-2014

ٹیکسی بزنس میں جدت

گزشتہ دو عشروںکے دوران ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی، پیغام رسانی ، کام کاج اور کھیل کود کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ صنعتیں جو تیزی سے اس نئی صورت میں نہیں ڈھل سکتیں، ختم ہوجاتی ہیں۔ آج کل پوری دنیا میں روایتی ٹیکسی بزنس بھی معدوم ہونے کے خدشے سے دوچار ہے۔ دنیا کے ایک سو ستر سے زائد ممالک میں فعال سمارٹ فون کے ذریعے سروس مہیاکرنے والی ٹیکسی کمپنیUber کو بمشکل پانچ سال پہلے قائم کیا گیا تھا لیکن اب اس کے اثاثے اٹھارہ بلین ڈالر سے بڑھ گئے ہیں۔ یہ سروس اپنے صارفین کو سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ ایک سمارٹ فون پروگرام کے ذریعے ٹیکسی منگوائیں۔Smartphone App کے ذریعے ٹیکسی اپنے صارف کو فوراً تلاش کرلیتی ہے۔ کمپنی کو ادائیگی اس صارف کا بینک کرتا ہے۔طلب کرنے پر ٹیکسی فوراً ہی آجاتی ہے اورصارف کرائے کا حساب بھی فوراً ہی لگالیتا ہے۔ 
یہ رابطہ جی پی ایس، ای میل اور موبائل فون کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔اس سہولت سے استفادہ کرنے کے لیے آپ سب سے پہلے اپنے سمارٹ فون میں Uber App ڈائون لوڈ کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران آپ اپنے ای میل ایڈریس اور بینک اَکائونٹ کی تفصیل بھی فراہم کرتے ہیں۔ ڈائون لوڈ کی گئی App ڈرائیور کو آپ کی لوکیشن کی درست نشاندہی کر دیتی ہے ۔ وہ آپ کو یہ بھی بتا دیتی ہے کہ ڈرائیور کتنی دیر میں آپ تک پہنچ جائے گا۔ اس دوران آپ اس کو ٹریک کرسکتے ہیں۔ اگر وہ آپ کو تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا کررہا ہو تو ڈرائیور آپ کو ٹیکسٹ میسج بھیجے گا۔ آپ منزل پر پہنچ کر آرام سے اتر جاتے ہیں۔ آپ کو کرایہ دریافت کرنے، ادا کرنے یا ٹپ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ تمام معاملات آپ کا بینک طے کرتا ہے۔ Uber آپ کے اکائونٹ سے رقم منہا کرکے آپ کو ای میل پر رسید بھیج دیتا ہے۔ ہفتے کے اختتام پر بیس فیصد رقم خود رکھ کر 80 فیصد ڈرائیور کے اکائونٹ میں جمع کرادی جاتی ہے۔ 
میں نے سان فرانسسکو کے حالیہ دورے کے دوران اس سروس کو پہلی مرتبہ استعمال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نہ صرف قابل ِ اعتماد بلکہ بہت موثر بھی ہے ۔ تاہم جس د وران Uber یکے بعددیگرے مختلف شہروں میں اپنی سروس کا نیٹ ورک پھیلا رہی تھی، اسے ہزاروں روایتی ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرف سے شدید ر دِ عمل کا سامنا کرناپڑا کیونکہ اس کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوا تھا۔ سان فرانسسکو کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے Uber کو ''شیطان کی اولاد‘‘ قرار دیا جبکہ کچھ اور نے اسی طرح کے قابلِ فہم لیکن ناقابلِ اشاعت القابات سے نوازا۔ حال ہی میں لندن میں مخصوص سیاہ ٹیکسیوں کے ڈرائیوروںنے احتجاج کرتے ہوئے سینٹرل لندن کو بند کردیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ Uber کو سڑکوںسے نکالا جائے لیکن ان کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کا موقف تھا کہ صرف ان کے پا س ہی سواریوں کو لینے کالائسنس ہے کیونکہ انہوں نے لائسنس حاصل کرنے کے لیے بہت مشکل مراحل طے کیے تھے۔ اس کے علاوہ ، وہ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ 
اگرچہ لند ن میں بغیر میٹر والی ٹیکسیاں بھی کام کرتی ہیںلیکن اُنہیںسڑک پر سے سواری اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اُنہیں کسی مخصوص ایڈریس پر بلایا جاسکتا ہے۔ تاہم Uber کو دونوں سہولیات حاصل ہیں۔ سیاہ ٹیکسیوں کے ڈرائیوروں کو لند ن کا نقشہ ازبر کرنا پڑا، پھر اُنھوں نے بہت مشکل ٹیسٹ پاس کیا تاکہ وہ شہر کے کسی بھی حصے میںکسی بھی پتے پر مسافر کو پہنچا سکیں۔وہ بلادقت مسافر کو اس کی درست منزل پر پہنچاتے ہیں۔ اتنے بڑے شہر کے تمام حصوں ، سڑکوں، گلیوں اور مقامات کو ازبر کرنا آسان کام نہیں، لیکن انھوںنے یہ ''علم‘‘ بہت محنت سے حاصل کیا تھا، تاہم اب جبکہ جی پی ایس عام دستیاب ہے، ان ڈرائیوروں کا کئی سالوں کی محنت سے حاصل کیا گیا علم بے معنی ہوگیا ہے۔ تاہم لندن کے ٹیکسی ڈرائیوروں نے Uber کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا کرایہ کم کرنے کا نہیں سوچا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ روایتی ٹیکسی، جو بہت آرام دہ اور بڑے سائز کی ہوتی ہے، خریدنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری چاہیے لیکن Uber پارٹ ٹائم کام کرنے والے چھوٹی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی خدمات بھی حاصل کرلیتی ہے۔ ایسے ڈرائیور 
فارغ وقت میں مسافروں کو سروس فراہم کرکے پیسے کما لیتے ہیں۔ Uber کی ڈیمانڈ کوئی بہت بڑی گاڑی نہیں بلکہ کار جدید‘ صاف ستھری اور ڈرائیور کا ریکارڈ بے داغ ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ جب ڈرائیور رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں، وہ ضروری سافٹ ویئر ڈائون لوڈ کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ چلنے کے لیے تیارہوتے ہیں۔ Uber منافع بڑھانے کے لیے اپنے کرائے میں تبدیلی کرتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی بڑا واقعہ، جیسا کہ کوئی اہم فٹ بال میچ ہوتا ہے جس کے لیے زیادہ شائقین کے لیے زیادہ ٹرانسپورٹ درکار ہوتی ہے تو Uber اپنے کرائے میں اضافہ کردیتی ہے۔ پھر وہ دیگر علاقوں میں کام کرنے والے ڈرائیوروں کو وہاں آنے کا کہتی ہے۔ یقینا عام ٹیکسی چلانے والے اس میدان میں ان کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ ان ٹیکسی چلانے والوں کو Uber کے ہاتھوں پہنچنے والی زک کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ یورپ کے کئی ایک شہروں میں کام کرنے والے ٹیکسی ڈرائیوروںنے مقامی عدالتوںسے رجوع کیا کہ Uber کو ان کے علاقے میں کام کرنے سے روکا جائے۔تاہم ایسا نہ ہوا۔ 
سان فرانسسکو میں مجھے پتہ چلا کہ عام پیلی ٹیکسی چلانے والے بھی Uber کے ساتھ رابطہ کررہے ہیں۔ وہ اس کی طرف سے مطلع کیے گئے مسافر کو بھی لے سکتے ہیں اور آزادانہ طور پر اپنا کام بھی کرسکتے ہیں۔ اس مثال پر عمل کرکے دیگر ٹیکسی ڈرائیور بھی Uber کی وجہ سے خود کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرسکتے ہیں۔ تاہم، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اس مسابقت پذیر دنیا میں کسی کی کاروباری اجارہ داری بمشکل ہی قائم رہ پاتی ہے۔ چنانچہUber کو ایک نئی کمپنی Lyft کی مسابقت سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ سان فرانسسکو میں Uber اپنے حریف پر الزام لگاتی ہے کہ اس کی ٹیکسیوں کو بلایا جاتا ہے لیکن پھر عین وقت پر ڈیل منسوخ کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ Lyft ڈرائیوروں کو رجسٹرڈ کرتے ہوئے بہت زیادہ چھان بین بھی نہیںکرتی۔ فی الحال ان کے منافع کی شرح بیس فیصد ہے ، لیکن وہ دن دور نہیں جب اس میں بھی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ 
ایک حوالے سے Uber کو Airbnb قرار دیا جاسکتا ہے۔۔۔ یہ ویب سائٹ مسافروں کو ان مالک مکانات کے بارے میں آگاہ کرتی ہے جہاںوہ رہائش کے لیے جگہ لے سکتے ہیں۔ یہ سائٹ 2009ء میں اُس وقت شروع کی گئی جب دو غریب دوستوںنے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا اوپر کا کمرہ کرائے پر دے کر رقم حاصل کریں گے۔ اس مقصد کے لیے اُنھوںنے انٹر نیٹ پر اشتہار دیا۔ اب اس ویب سائٹ کی ویلیو دس بلین ڈالر ہے۔ دنیا بھر میں یہ تصور اتنا مقبول ہوا کہ اس سے ہوٹل بزنس کرنے والوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ یہ حیرانی کی بات نہیںکہ Uber اور Airbnb، دونوں کا آغاز سان فرانسسکو سے ہوا۔ سافٹ ویئر، نوجوان اور مہم جُو افراد کا گھر، سان فرانسسکو بہت سے نئے بزنس اور امکانات کی دنیا ہے۔ تاہم مجھے یہ اس لیے بھاتا ہے کہ یہاں بہت اعلیٰ ریستوران اور بہت ماہر کھانا پکانے والے موجود ہیں۔۔۔ اور کیا چاہیے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved