تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     01-09-2014

ماتم

کس کس کا ماتم کیا جائے؟ عمران خان کی بے بصیرتی کا،طاہرالقادری کی بے حسی کا،آئین کی بے حرمتی کا، پاکستان کی بے توقیری کا یا عوام کی بے بسی کا؟
تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم
عمران خان نے توقعات سے کہیں زیادہ مایوس کیا۔وہ اس بڑھیا کے مصداق بن گئے جس کے بارے میں قرآن مجید نے کہاکہ اس نے سوت کاتااور پھر اسے اپنے ہی ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر دیا۔دنیامیں شاید ہی کسی نے اپنے کمائی کو اس بے دردی سے لٹا یا ہو۔ایک وقت ایسا بھی تھاجب میں ان کے بارے میں خوش گمان تھا۔2002ء کی انتخابی مہم کے آ خری ایّام، میں نے ان کے ساتھ گزارے۔ان کے ہم سفر چارافراد تھے... معراج محمد خان، حفیظ اللہ نیازی،منصور صدیقی اور میں۔ان دنوں میں ، میں ایک دوسرے روزنامے میں کالم لکھتا تھا۔مجھے یاد نہیں، اس اخبار کے ادارتی صفحے پر میرے علاوہ کوئی آواز ان کی تائید میں مو جود تھی۔میرے کالموں کی نقول ان کے جلسوں میں تقسیم ہو تی تھیں۔یہ ساری تائید اور نصرت اس لیے تھی کہ مجھے ان میں ایک صاحبِ خیر دکھائی دیتا تھا جس سے عزیز توقعات وابستہ کی جا سکتی تھیں۔میرے بہت قریبی دوست ڈاکٹر فاروق خان شہید،اس سے پہلے ان کی قربت میں بہت سا وقت گزار چکے اورمایوسی کو اپنی خاموشی میں چھپا کر الگ ہو چکے تھے۔ان کے اس تجربے کے باوصف،میں نے گمان کیا کہ ان میں خیر ہے جسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ان سے قریب رہ کر ،یہ بات واضح ہو ئی کہ وہ سیاسی مزاج کے آ دمی نہیں ہیں۔سیاست جن اوصاف کا تقاضا کر تی ہے، وہ ان سے تہی دامن ہیں؛ تاہم اس کے با وجود محض اپنی محنت اور پیہم جد وجہد سے انہوں نے سیاست میں قابلِ ذکر کامیابی حاصل کر لی۔چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس کے نتیجے میں سیاست کی حرکیات کو جان جاتے۔ایسا نہیں ہو سکا۔انہوں نے میدانِ سیاست کو کرکٹ کا میدان سمجھ لیا۔انجام یہ ہوا کہ انہوں نے امکانات کی ایک وسیع دنیا بر باد کر دی۔وہ پاکستان کے اردوان بن سکتے تھے لیکن اصغر خان بن گئے۔اپنی عجلت پسندی اور غیر سیاسی مزاج کے باعث انہوں نے خود کوضائع کیا اور ساتھ تحریک انصاف کو بھی جو قومی سیاست کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے اپنی اخلاقی ساکھ کو بھی جس طرح بر باد کیا، میرے لیے وہ کسی قومی المیے سے کم نہیں۔آج نہیں تو کل، سیاست کو لازماًاس ہیجان سے باہر آنا ہے۔مجھے افسوس ہے کہ تحریکِ انصاف اس کا حصہ نہیں ہو گی۔اگر ہوگی تو ایک نئی قیادت اور ایک نئے وژن کے ساتھ۔
طاہرالقادری صاحب کے بارے میں تو میں کبھی خوش گمان نہیں رہا۔بیس سال پہلے،اپنی کتاب ''اسلام اور پاکستان ‘‘ میں ، میں نے ان کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا تھا، مجھے آج بھی اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ 1989ء میں جب موچی دروازہ لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کا پہلا اجتماع''تاسیسِ انقلاب کانفرنس‘‘ کے عنوان سے ہوا تو میں،اس میں شریک تھا۔میں نے ایک مہینے بعد ''اشراق‘‘ میں ان پر اپنا پہلا مضمون لکھا۔اس دور کی تحریروں میں قادری صاحب نے اپنی حکمتِ عملی کے پانچ مراحل بیان کر دیے تھے۔دعوت، تنظیم، تربیت،تحریک اور انقلاب۔قادری صاحب کا ابتدائی تخمینہ یہ تھاکہ 2000ء تک تما م مراحل طے ہو جائیں گے اور انقلاب آ جائے گا۔سیاسی جماعت کا قیام ان کی اس ہمہ جہتی تحریک کا چوتھا مر حلہ تھا۔طاہر القادری صاحب کا دعویٰ تھا کہ یہ تحریک رسالت مآب ﷺ کے حکم سے شروع کی گئی ہے‘ اس لیے انہوں نے اس کے باضابطہ آ غاز سے پہلے، مدینہ اور بغداد کا سفر کیا۔اس کی وجہ انہوں نے اپنے خطبۂ جمعہ میں بیان کی۔ان کاکہنا تھا کہ چونکہ یہ تحریک حضور ﷺ کے حکم سے اٹھائی گئی ہے، اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ فیصلہ کن قدم اٹھانے سے پہلے، حضورﷺ اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے اجازت لی جائے۔ چنانچہ قادری صاحب کے بقول ان دوبڑوں نے نہ صرف اجازت دی بلکہ جماعت کے نام کی منظوری بھی عطا فرمائی۔
2000ء میں تو انقلاب نہیں آیا۔سیاست میں پے درپے شکست وہزیمت کے بعد، انہوں نے حکمتِ عملی تبدیل کی۔ تعلیم کو اپنا ہدف قرار دیااور ملک بھرمیں تعلیمی اداروں کا جال بچھادیا۔پیشِ نظر یہی تھا کہ اتنے لوگ میسر آ جائیں جو کسی مرحلے پر جان دینے پر بھی تیار ہوجائیں۔میں نے 1995ء میں اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ''سرِ دست انہوں نے سیاست کو خیر باد کہہ کر،تعلیم کے فروغ کو اپنا مقصد قرار دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجودیہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دوبارہ قسمت آ زمائی کے لیے اس میدان میں آ نکلیں‘‘۔ایسا ہی ہوا ۔یہ الگ بات ہے کہ ان کا تخمینہ دوسری بار بھی غلط ثابت ہوا۔
اس میں کئی شبہ نہیں کہ ان دونوں نے پاکستانی سیاست کو تشدد سے آلودہ کیا۔30اگست کی شب اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، وہ نوشتۂ دیوار تھا۔ یہ دونوں اس پر تلے ہوئے تھے کہ جلد از جلد انہیں لاشیں ملیں تاکہ تحریک میں رنگ پیدا ہو۔قادری صاحب تو کئی بار کہہ چکے تھے کہ انقلاب خون مانگتا ہے۔ حکومت جس حد تک موخر کر سکتی تھی، اس نے کیا۔اگر اب بھی حکومت اقدام نہ کرتی تو پھر ریاست کا وجود عملاً ختم ہو جا تا۔تما م اہلِ علم مانتے ہیں کہ تشدد کی اساس انتہا پسندی ہے۔جب ذہنی طور پر لوگوں کو انتہا پسند بنا دیا جائے تو اس کا ناگزیر نتیجہ تشدد ہے۔عمران خان اور قادری صاحب نے پندرہ دن یہی کیا۔ انتہا پسندانہ رویوں کو فروغ دیا اور لوگوں کو انتہائی اقدام پر تیار کیا۔اس کے بعد ان کا پر امن رہنے کا دعویٰ مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہے۔
میرے نزدیک دنیا کی کوئی حکومت اس سے زیادہ صبر نہیں کر سکتی۔ریاست جب مفادِ عامہ میں طاقت استعمال کرتی ہے تو وہ تشدد نہیں کہلاتا۔ریاست کو یہ حق اسلام دیتا ہے، آئین دیتا ہے اور انسانی اخلاقیات بھی۔مسلمانوں کی ریاست کو قرآن مجید قصاص کا حکم دیتا ہے کہ زندگی کو اس سے ہی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ریاست جان لیتی ہے تو اسے جائز سمجھا جا تا ہے۔قرآن ہی نے فساد اور فتنے کو قتل سے بڑا جرم کہا ہے۔اسلام میںکسی جرم کی سزا اتنی شدید نہیں جتنی فتنے کی سزاہے۔مسلمانوں کی رائے سے قائم حکومت کے خلاف اقدام خروج ہے۔اس کی سزا کیاہے، اس کے لیے قادری صاحب کی کتاب پڑھ لینا چاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ اب دونوں اور بالخصوص قادری صاحب نے جس بے رحمی کے ساتھ خواتین اور بچوں کو استعمال کیا ہے،کوئی شقی القلب شخص ہی ایسا کر سکتا ہے۔
ریاست کا اقدام اس وقت تشدد یا ناجائز کہلائے گا جب وہ کسی فرد کے جائز حق کوقبول کرنے کے بجائے، اسے طاقت سے روک دے۔مسلمان اورمہذب معاشرے میں ہر وہ قدم ناجائز ہے جو نظمِ اجتماعی کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے۔اس لا حاصل معرکے میں جو انسانی جانیں ضائع ہوئیں، اس کی تما م تر ذمہ داری عمران خان اور طاہر القادری صاحب پر ہے۔انہوں نے لوگوں کو تشدد پر اکسایا اورریاست کے ساتھ ٹکرانے پر ذہنی اور عملی طور پر تیارکیا۔مجھے افسوس ہے کہ وہ سرکشی کی راہ میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ انسانی جانوں اور قومی مفاد کے ساتھ اس کھیل کواب بند کریں۔اس معاملے میں، میں حکومت پر تنقید کا کوئی جواز تلاش نہیں کر سکا۔میںالبتہ یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ وہ طاقت کا اتنا ہی استعمال کرے جتنا ناگزیر ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved