''اس سے قبل نوازشریف کی مبلغ 2عدد حکومتوں کو ان کے انجام تک پہنچایاجاچکا ہے۔میاں صاحب کی دونوں حکومتوں پر مختلف الزامات عائد کرکے انہیں ایوان اقتدارسے فارغ کیا گیا تھا۔ ایک بار ان کی اسمبلی توڑی گئی جبکہ دوسری بار جنرل مشرف کے ساتھیوں نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔2010ء لندن میں میری ملاقات سابق صدر اورریٹائرڈ جنرل مشر ف سے ہوئی تو موصوف نے کہاتھاکہ '' بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب لاہور آئے تو اس موقعہ پر کئے گئے (اعلان ِلاہور ) میںمسئلہ کشمیر کو یکسر نظر انداز کردیاگیاتھا،میں نے بحیثیت چیف آف آرمی اپنا ووٹ استعمال کیا تو مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا‘‘۔ جنرل مشرف جو بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی منتخب وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ اورعوامی تائید کے بغیر بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کی ڈیل نہیں کرسکتا۔یہ بھی سچ ہے کہ ایک عرصہ سے میاں نوازشریف کے ستارے مشرف کی وجہ سے ہی گردش میں آتے رہے ہیں۔اب بھی کہاجارہاہے کہ نوازشریف صاحب کے سیاسی مقدر اور جمہوری کنڈلی پر یہ 2پرانے ''فیکٹرز‘‘ ہی اثر انداز ہوئے ہیں۔
تادم تحریر اسلام آباد میں ہونے والے ہنگاموں میں دو افراد ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوچکے ہیں جس پر جتنا افسوس کیاجائے وہ کم ہے ۔ ہلاک اور زخمی ہونے والے سبھی لوگ غریب اور مفلس ہیں۔ ان میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو وائٹ کالر ہو ۔اسلام آباد میں ہونے والے حادثے میں دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ مکمل طور پر محفوظ رہی جبکہ ماضی میں نصرت بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو عورتیں ہوتے ہوئے بھی عوامی احتجاجی تحریکوں کو لیڈ کرتے ہوئے شدید زخمی ہوتی رہیں۔ جیساکہ عرض کیا کہ اس سے قبل بھی عوامی احتجاج کے واقعات میں شہریوں کو ہلاک کیاجاتارہاہے لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔قارئین !آپ کو یاد ہوگا کہ 2007ء میں 18اکتوبر کے دن جب محترمہ بے نظیر بھٹو ایک طویل عرصہ بعد جلاوطنی ختم کرکے کراچی آئی تھیں تو کارساز کے مقام پر ان کے کارواں پر بموں سے حملہ کیاگیاتھا۔دھماکا اتنا شدیدتھاجس سے ڈیڑھ سو سے زائد افراد کے جسموں کے چیتھڑے اڑ گئے تھے اور 500افراد اپاہج ہوئے تھے۔بے نظیر بھٹو پر دوسراحملہ پشاور کے جلسے میں کیاگیاجو ناکام ہوا اور پھر راولپنڈی لیاقت باغ میں پاکستا ن کی عظیم لیڈر کو سرعام قتل کردیاگیا۔یہ سب کچھ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہواتھالیکن آج تک سراغ نہیں لگایاجاسکاکہ اس کے ذمہ داران کون لوگ تھے؟12مئی 2007ء کے دن بھی کراچی میں صبح سے لے کر شام تک 54شہریوں کو ہلاک کیاگیاتھا اور رات کو جنرل مشرف نے مکالہراتے ہوئے کہاتھاکہ ''جو بھی عوامی طاقت کے رستے میں آئے گا کچلاجائے گا‘‘۔
اسلام آباد پارلیمنٹ کے احاطہ میں ہونے والے حادثہ کی بات کی جائے تو سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا دھرنے اور انقلاب مارچ کے شرکا '' ریموٹ کنٹرول‘‘ تھے جنہیں ان کے لیڈران اپنے ،اپنے کنٹینروں اور بلٹ پروف گاڑیوں سے کنٹرول کرسکتے تھے؟۔ رات 3 بجے کے قریب اینکر پرسن نے کہاکہ ''پارلیمنٹ ہائوس کے صحن میں اس وقت ہزاروں لوگ موجود ہیں جو ہائوس کے اندر داخل ہونا چاہتے ہیں، فوج نے ان سے پارلیمنٹ ہائوس سے باہر نکلنے کے لئے کہاہے جس پر لوگ اندر داخل ہونے سے منع ہوگئے ہیں ،دوسری طرف عمران خان کنٹینر اور طاہر القادری بلٹ پروف گاڑی میں ـڈٹے ہوئے ہیں‘‘۔پاکستان کی 67سالہ تاریخ میں ہم نے یہی کچھ ہوتے دیکھا اور سنا ہے۔عوام کے سمندر کو ہزاروں کا مجمع اور سینکڑوں لوگوں کو سونامی قرار دیاگیا۔بہادر ،نڈر اور محب وطن قیادت کو سکیورٹی رسک جبکہ کنٹینروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں گھسے لیڈروں کے لئے کہاگیاکہ وہ ظالم حکمرانوں کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔ ایک اینکر نے حکومت کو ظالم ثابت کرنے کے لئے بیان کیاکہ دھرنے میں شریک ڈیڑھ سالہ بچے کو بھی پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایاہے جس سے اس کی حالت تشویشناک ہوگئی ہے۔
دنیا کا ایسا کون سا ڈیڑھ سالہ بچہ ہے جو انقلابی ہو اور وہ اپنے والدین سے مطالبہ کرے کہ اسے دھرنے میں لے جایاجائے؟
وزیر اعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ وہ جب عمران خان سے ملاقات کرنے بنی گالہ گئے تھے تو انہوں نے یقین دلایاتھاکہ وہ عوامی مسائل حل کرنے کے لئے حکومت کا ساتھ دیں گے مگر یکایک نجانے کیا ہوا؟ میاں نوازشریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کن ''گناہوں ‘‘ کی سزا دی جارہی ہے۔یہ درست ہے کہ وہ وزیر اعظم منتخب ہوتے ہیں لیکن انہیں ''شجر ِممنوعہ ‘‘ کا پھل کھانے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن ہر بار وہ اس پھل
سے اپنا منہ کڑوا کرلیتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بخش بزنجو نے کہاہے کہ حکومت ایک ماہ سے برداشت کررہی تھی اور اس نے کوئی کارروائی نہیں کی جب مظاہرین نے پارلیمنٹ پر قبضہ کرنا چاہاتو پولیس نے انہیں روکا۔مظاہرین نے اتنا کچھ کیالیکن پولیس نے ان پر گولی نہیں چلائی ۔عمران خان اورطاہر القادری کو چاہیے کہ وہ مذاکرت کرتے ہوئے معاملات کو سلجھائیں اور ثابت کریں کہ وہ جنگجو نہیں‘ سیاسی لوگ ہیں۔غیر جانبدار تجزیہ کارو ں کاکہناہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری کو اپنے کارکنوں کو یوں بے یارومددگار نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ ان دو لیڈروں پر عائد ہوتی ہے۔
ایم کیوایم کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں عمران خان کویہ مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ احتجاج کا رستہ ترک کرکے مذاکرات کے میز پر آئیں‘ کیونکہ ان کے لگ بھگ تمام مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں۔جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر بھی درج کی جاچکی ہے‘ لہٰذا طاہر القادری کو بھی چاہیے کہ اپنے کارکنوں سے کہیں کہ وہ تشدد کارستہ ترک کریں۔لیاقت بلوچ نے کہاکہ دونوں رہنمائوں کے ساتھ ساتھ یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کوبگڑنے نہ دیں۔عاصمہ جہانگیر نے حکومت کے ساتھ ساتھ عمران خان اورقادری صاحب پر شدید الفاظ میں تنقید کی۔ان کا کہنا تھاکہ انہیں وزیر اعظم نوازشریف اورنون لیگ کی حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن دونوں کے ایجنڈے سے
شدید اختلاف ہے ۔عاصمہ نے کہاکہ دنیا کا کوئی شخص اگر یہ کہے کہ وہ ُپر امن طریقے سے ڈاکہ ڈالے گا؟ یا پھر کہاجائے کہ وہ کسی کے گھر پر قبضہ کرے گا لیکن طریقہ کار ُپر امن ہوگا ، سب مضحکہ خیز ہے؟ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کا احتجاج پارلیمنٹ (اسلام آباد) کے بجائے (لاہور ) پنجاب اسمبلی کے سامنے ہونا چاہیے تھا، اس لیے لگتا ہے کہ ان دونوں کی دال میں کچھ کالا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف آدھی رات کے بعد ایک ٹیلی وژن پر عمرا ن خان اور ڈاکٹر قادری دونوں کو للکارتے رہے۔خواجہ صاحب نے کہاکہ وزیر اعظم نوازشریف کو ''اوئے ‘‘ کہنے والے دونوں لیڈر اب کنٹینر اور بلٹ پروف گاڑیوں میں چھپے ہوئے ہوئے ہیں۔ہم نے ایک مہینے سے برداشت کررکھاتھا، ہمیں ہینڈز اپ کراکر بلیک میل نہیں کیاجاسکتا۔یہ ہماری شرافت ہے وگرنہ عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے جمعیت کے چند طلبا ہی کافی ہوتے ہیں۔ ان کا اشارہ اس واقعہ کی جانب تھا جس میں عمران خان کو جمعیت کے سٹوڈنٹس کی طرف سے نیوکیمپس میں تشدد کانشانہ بنایاگیاتھا۔
خواجہ بہادر جب گرج رہے تھے تو انہیں ایک سینئر صحافی اور اینکر پرسن نے مشورہ دیاکہ ''ہتھ ہولا‘‘ رکھیں‘آپ کی بڑھکیں سن کر اگر بلٹ پروف گاڑی اور کنٹینر میں بیٹھے لیڈر باہر آگئے تو پھر کیاہوگا؟پارلیمنٹ کے احاطہ میں کنٹینروں کو آگ لگادی گئی ہے اور حالات کو سنبھلنے نہیں دیاجارہا، لگتا ہے کہ جمہوریت کی دال میں دھاندلی کے جو کالے روڑے (کنکریاں) شامل کئے گئے ہیں اس سے جمہوری ضیافت بدمزہ کردی گئی ہے ،بالآخر اقتدار کا دستر خوان لپیٹ دیاجائے گا۔