تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-09-2014

دو خط

(1)
پیارے چودھری نثار ! 
تم نے جس انداز میں کل اسلام آباد میں ہماری مرمت کی ہے اس کے لیے میں دل کی گہرائیوں سے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کاش یہ سب کچھ تم پہلے کر گزرتے تو جس خواری سے سولہ دن تک مجھے گزرنا پڑا ہے ، میں اس سے بچ جاتا۔میری جان! تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس گھٹیا کنٹینر میں رہنا کتنا مشکل کام ہے جہاں ورزش ہوسکتی ہے نہ دیگرشبینہ سرگرمیوں کے لیے مناسب جگہ ہے۔ اس کے علاوہ کمبخت میڈیا والے بھی ہر وقت اپنے کیمرے میری اس عارضی رہائش گاہ کے دروازے کی طرف کرکے کھڑے رہتے ہیں۔ ان بدبختوں کو کوئی یہ سمجھانے والا نہیں کہ دروازے سے کون آرہا ہے،کون جارہا ہے، یہ سب میرا ذاتی معاملہ ہے لیکن مجال ہے یہ مجھے ایک لمحے کی رعایت بھی دینے کے لیے تیار ہوں۔ تین چاردن پہلے سوچا کہ کچھ دوستوںکو بلا کر پارٹی کی جائے، جہانگیر ترین سے بات ہوئی تو وہ مسکرانے لگ گیا، شاہ محمود قریشی سے کہا تو اس نے اپنی عجیب و غریب اردو میں جو تقریرکی اس کامطلب مجھے پرویز خٹک نے سمجھایا کہ یہ اہم معاملہ کورکمیٹی کی میٹنگ میں رکھا جانا چاہیے۔ میں غصے میں آگیا اور ان سب کواس ڈربے سے باہر نکال دیا جسے تم اور میڈیا کنٹینر کہتے ہو۔ بہرحال ان لوگوں کی وجہ سے بے چارے نعیم الحق کو بہت کام کرنا پڑا، وہ پہلے ہی فون پردوستوں کو آنے کا کہہ چکا تھا،اس نے سب کو دوبارہ فون کیے کہ رات کو محفل میں نہیں دھرنے میں آجائیں۔ وہ سب تو نہیں آسکے لیکن دوچار پہنچ گئے اور انہیں دور سے دیکھ کر ہی میرا دل خوش ہوگیا۔ 
ویسے یار چودھری، مجھے امید تھی کہ تم ہماری بچپن کی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے مجھے جلد گرفتارکر کے بنی گالہ میں نظربندکر دوگے
لیکن تم نے اپنی سیاست کو میری ضرورت پر ترجیح دی، اس پرمیرے کچھ دوستانہ شکوے تو ہیں لیکن میں تمہاری مجبوری بھی سمجھتا ہوں اس لیے ان کا اظہار نہیں کررہا۔ خیر چھوڑوان باتوں کو، میںیہ خط اس لیے لکھ رہا ہوںکہ تمہیں یہ بتا سکوںکہ تمہاری طرف سے آنسوگیس کی شیلنگ اور ہلکے پھلے لاٹھی چارچ سے الحمدللہ ہمیںکچھ نہیں ہوا؛البتہ مولانا قادری کے مریدوں کی اچھی درگت بنی کیونکہ ہمارے لوگ تو تمہیں پتا ہے بڑے آرام سے اسی وقت نکل گئے تھے جب میں نے وزیراعظم ہاؤس کی طرف چلنے کا حکم دیا تھا۔ خود میں نے بھی اپنے کنٹینرکے دروازے اچھی طرح بند کرلیے تھے اور منرل واٹر میںکپڑا بھگوکر اپنے پاس رکھ لیا تھا تاکہ تھوڑی بہت آنسوگیس اندر آجائے تو اس کا علاج ہوسکے۔ البتہ جب ایک شیل آکرکنٹینر سے ٹکرایا تو ایک زور دار ٹھاہ کی آواز آئی، یہ ٹھاہ سن کر یوں تو میرا دل بھی دہلا تھا لیکن شیخ رشید نے فوری طور مضحکہ خیز انداز میں لرزنا شروع کردیا۔ اسے دیکھ کر مجھے اس خطرناک لمحے میں بھی ہنسی آگئی۔ شیخ رشیدکو لرزتے اور مجھے زور زور سے ہنستے ہوئے دیکھ کر شاہ محمود قریشی نے ہمیں حوصلہ دینے کی کوشش کی تو اس کی جناتی اردو سن کر شیخ کے لرزے اور میری ہنسی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے نعیم الحق کاجو اس مشکل وقت میں میرا سہارا بنا اوراس نے مجھے اس وقت تک سینے سے لگائے رکھا جب تک میری ہنسی مکمل طور پر نہیں رک گئی۔ اگرچہ اس نے بچوں کی طرح میری کمر پر ہاتھ بھی پھیرا تھا لیکن بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے میں اس کے ہاتھ کامادرانہ لمس محسوس نہیں کرسکا۔ مجھے یہ ٹھاہ سن کرجاوید ہاشمی کی باتیں یاد آئیں جس نے بڑا وقت لگا کرمجھے آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا تھا لیکن میں سمجھ 
نہیں سکا۔ اب تم خود سوچو کہ جس شخص کی گفتگو کے تین فِقروں میں چار دفعہ جمہوریت آجائے تو اس کی بات کیسے سمجھی جائے۔ 
آخر میں تم سے ایک ذاتی نوعیت کا کام کہنا ہے، تم اپنے وسائل استعمال کرکے یہ پتا کراؤ کہ آزادی مارچ کی طرف مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔کوشش کرنا کہ تمہاری تفتیش کے نتیجے میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی پرکوئی آنچ نہ آنے پائے؛البتہ عارف علوی، جمشید چیمہ یا ولید اقبال کا نام آجائے توکوئی مسئلہ نہیں۔ اپنی تحقیقات کے نتائج سے مجھے براہ راست بذریعہ تحریر آگاہ کرنا تاکہ میں تمہاری رپورٹ دکھا کر اپنے لیے مصیبتوں کا باعث بننے والوں کوکیفرکردارتک پہنچا سکوں۔ آنسو گیس کی شیلنگ کے لیے ایک بار پھر شکریہ ، تمہارے لیے ممکن ہو تو مجھے فوری طور پرگرفتار کرکے بنی گالہ بھجوا دو تواور بھی شکریہ۔ 
تمہارا ۔۔۔۔۔ عِمّی 
نوٹ: یار یہ خط پڑھ کر پھاڑ دینا۔ 
(2) 
محترم چودھری نثار صاحب ! 
السلا م علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ ، آپ کو انتہائی عجلت میںعزیزی رحیق عباسی کے ذریعے یہ عریضہ بھیج رہا ہوں۔ صورت احوال یہ ہے کہ چاروں طرف آپ کی پولیس انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں میرے فدائیوں کو بے بس کیے ہوئے ہے اور میں اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھا اس وقت کوکوس رہا ہوں جب میں نے چودھری شجاعت حسین کے کہنے پر اپنے مریدوںکو وزیراعظم ہاؤس کی طرف منتقل کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہورہی ہے کہ آپ اتنی سی بات پر سنجیدہ ہوگئے اور ہمیں پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مجھے اپنی عزت کی قسم ہم نے تو صرف ایوان وزیراعظم باہر سے دیکھ کر واپس آجانا تھا کیونکہ مجھے یہ بات گزشتہ دوہفتوں میں اچھی طرح سمجھ آچکی ہے کہ اس ایوان پر قبضہ کرنے کے لیے میرا طریقۂ واردات موزوں نہیں ہے۔ میں تو اسی دن واپس جانا چاہتا تھا جب آپ کی مہربانی سے مجھے پاکستان کے سپاہ سالارکی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوگئی تھی، لیکن بھلا ہو چودھری برادران کا کہ انہوں نے مجھے سابق دوستوںکی طرح مروادیا۔ 
محترمی، اسلام آباد میں آپ کی تعینات کردہ پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت اور تربیت کی داد نہ دینا میری انصاف پسند طبیعت کے خلاف ہے۔ اگرچہ ہم نے بھی اپنے فدائین کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن میری توقعات کے بالکل برعکس آپ کی پولیس نے جس خشوع و خضوع سے ہماری درگت بنائی اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ میں انشاء اللہ لاہور واپس جاکر فدائین کی تربیت پر مامور سابق ایس پی پولیس شاہ صاحب کی مناسب گوشمالی کروں گا کہ انہوں نے آنسو گیس کی صورت میں فدائین کو حبسِ دم جیسی ضروری تکنیک کیوںنہیں سکھائی۔ امید ہے کہ آپ بھی ہمارے کارکنوں کی لٹھ بازی، سنگ باری ، خاردار تاریں کاٹنے میں مہارت اورکنٹینر ہٹانے کی صلاحیت کی نہ صرف داد ضرور دیں گے بلکہ سرکاری طور پر تعریفی اسناد بھی جاری کریں گے۔ 
چودھری صاحب ،آپ نے پولیس کارروائی کے ذریعے مجھے اپنے دھرنے سے جان چھڑانے کا جو نادر موقع فراہم کیا ہے اس کا شکریہ۔ میں ذاتی طور پر آپ کا شکریہ اداکرنا چاہتا تھا لیکن آپ کی پولیس نے میرا باہر نکل کر سانس لینا بھی دوبھر کردیا ہے۔ بہرحال آپ اپنی کارروائی جاری رکھیں اورکھانے پینے کی چیزیں ہم تک نہ پہنچنے دیں۔ آپ سے کیا پردہ کہ دھرنے والے روزانہ بیس پچیس لاکھ روپے کا تو صرف کھانا ڈکار جاتے ہیں، میں اتنے پیسے کہاں سے لاؤں۔ الطاف بھائی اور چودھری شجاعت حسین نے ایک ایک بارکھانا بھیج کر ہی ہاتھ کھینچ لیاتھا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنی خاندانی شرافت کا پاس کرتے ہوئے مجھے اس دھرنے سے نکلنے کا باعزت موقع فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ آپ سے یہ گزارش بھی ہے کہ اپنے پولیس والوں کو میرے بارے میں نرمی کی خصوصی ہدایات جاری فرما دیں۔
والسلام، آپ کا اپنا۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری 
پس تحریر : مجھے یقین ہے کہ آپ یہ خط پڑھ کر پھاڑ دیں گے اور اسے کینیڈین حکومت کے ہاتھ لگنے سے بچا لیں گے۔ میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی کینیڈین حکومت سے سرکاری یا غیر سرکاری طور پر کوئی منفی بات نہیں ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved