موجودہ سیاسی بحران کے مضمرات کا احاطہ تو ممکن نہیں لیکن اس کشمکش کی کوکھ سے پھوٹنے والی سماجی وسیاسی صف بندی کی حیرت انگیز استواری نے کاروان جمہوریت کی منزل مقصود تک جلد پہنچنے کی امید پیدا کر دی ہے۔ اگر ہم روایتی انداز میں سوچیں تو ہمارے سیاسی کلچر میں سسٹم کے ساتھ وفاداری کی روایت مفقود تھی۔ ووٹوں کے حصول کے لئے پاپولر سیاست کرنے والی پارٹیوں کے علاوہ نظریاتی جماعتیں بھی جمہوری نظام کی پاس داری سے زیادہ وقتی مفادات کے حصول کو قرین دانش سمجھتی تھیں۔ جماعت اسلامی جیسی خالص نظریاتی جماعت نے عارضی مصلحتوں کے تحت جنرل یحییٰ، ضیاء الحق اور پھر جنرل مشرف کے مارشل لائوں کی حمایت کر کے نمو پاتے سیاسی سسٹم کے فروغ کی راہ مسدود بنانے کے علاوہ خود اپنی ساکھ کو داغدار کرنے سے گریز نہ کیا، حتیٰ کہ انہی نظریاتی لوگوں نے تمام سیاسی اقدار کو پس پشت ڈال کے جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت میں عار محسوس نہ کی۔ بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹیوں نے بھی جمہوری اصولوں کی پروا کئے بغیر جنرل مشرف کی روشن خیالی اور لبرل ازم کی حمایت کر کے سیاسی تمدن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اقتدار پرست اور نظریاتی سیاستدانوں کی سسٹم سے لاتعلقی نے عمومی حالات کو پراگندہ کر کے کنفیوژن کی ایسی فضا طاری رکھی جس میں سسٹم کی بجائے ملکی بقا و سلامتی کا مسئلہ فوقیت اختیار کرتا گیا؛ چنانچہ جس قوم کو آئینی نظام کا محافظ ہونا چاہیے تھا‘ وہی اس پورے عمل سے بیزار نظر آئی۔ اسی انحراف نے انسانی وسائل اور صلاحیتوں کے بہائو کو تعمیرِ وطن کے عظیم مقصد کی طرف موڑنے کی بجائے سیاسی اور حربی تنازعات میں کھپا دیا۔
سیاست کے اسی رجحان نے ملک کو دولخت کرنے کے علاوہ قومی زندگی کے 65 سال مہم جُو جرنیلوں کی افتادِ طبع کی نذرکر دیے، جن کی محوری پالیسیوں نے قومی بقا کے تقاضوں سے صرفِ نظر کر کے اور عسکریت کو پروان چڑھا کے ایک منظم معاشرہ کی نئی نسل کو مسلح تنازعات میں الجھا دیا، جس کے نتیجہ میں بدامنی و لاقانونیت کو فروغ ملا اور سیاسی و معاشی بدعنوانی بڑھی تو ملک اقتصادی بدحالی کے بھنور میں پھنستا چلا گیا۔ جنگی نفسیات کے باعث پڑوسی ملکوں سے کشیدگی بڑھتی گئی، جس نے ایک نارمل مملکت کو سکیورٹی سٹیٹ میں بدل کے عالمی تنہائی کا شکار بنا دیا۔ پڑوسی ملکوں سے تنازعات بڑھنے سے معمول کا تال میل ٹوٹ گیا اور بقا کے تقاضے اس خود مختار ریاست کو عالمی طاقتوں کی چوکھٹ تک لے آئے۔ اس کے برعکس جمہوری مینڈیٹ کے حامل سیاستدانوں نے سسٹم کے دفاع کی خاطر پہلی بار استقامت اور تدبر کا مظاہرہ کر کے ناامیدی کی دھند صاف کر دی، جو ایک بہتر مستقبل کی صبح امید بنے گی۔ منتخب قیادت کی سسٹم کے ساتھ سچی کمٹمنٹ نے قوم کو بے یقینی کے اندھیروں سے نکال کے ایک واضح صراطِ عمل دکھا دی۔ منظر بہت واضح ہے اور جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو گزند پہنچانے والوں کے چہرے بے نقاب ہیں۔ یہ بات تقریباً یقینی نظر آتی ہے کہ آئینی نظام کے دشمنوں کو اب کامیابی نہیں مل سکتی۔ پارلیمنٹ میں موجودہ بارہ میں سے گیارہ جماعتوں نے جمہوری نظام کے ساتھ اپنی غیر مشروط وفاداری ظاہر کر کے مقتدرہ سمیت دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ قومی لیڈرشپ اور اجتماعی ذہانت سیاسی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے یکسو ہو چکی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ، وکلاء تنظیموں، تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی نے پارلیمنٹ کی پشت پناہی کا عندیہ دے کر مہم جوؤں کے پیش قدمی روک دی ہے۔ یہ رویہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر آئین و پارلیمنٹ پر شب خون مارا گیا‘ تو قوم اسے قبول نہیں کرے گی۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان اور قادری صاحب کے سوا سب نے اس پیغام کو سمجھا ہے اس لئے جمہوریت اور پارلیمنٹ کے گھیراؤ کے عمل کو کمک نہیں
مل سکی، جمہوری سسٹم کو یرغمال بنانے والے ہاتھ رفتہ رفتہ مضمحل اور لانگ مارچ اور دھرنے وقعت کھو رہے ہیں۔ جمہوریت کے خلاف عمران کی پیش دستی نے پی ٹی آئی کے داخلی نظم کو بدترین انتشار کا شکار بنایا اور پارٹی پہ ان کی گرفت ڈھیلی کر دی، خیبر پختون خوا اسمبلی کے اراکین نے استعفوں کی سیاست کی حمایت نہیں کی، کوشش بسیار کے باوجود عمران قومی اسمبلی کے 25 ممبران کے استعفے اسپیکر کو پیش کر کے اپنی جماعت کی داخلی تفریق کو عیاں کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم جیسی موقع شناس جماعتیں جو اس کشمکش میں کوئی واضح پوزیشن لینے کی بجائے خط امتیاز پہ رہ کے اس کشمکش میں غالب آ جانے والے فریق کے حق میں اپنا وزن ڈالنے کی پالیسی پہ عمل پیرا تھیں، اب مضطرب نظر آتی ہیں۔ الطاف حسین پوری ترتیب کے ساتھ اپنی حمایت عمران اور قادری کے پلڑے میں ڈال کے میدان میں آنے والے ہیں۔ سراج الحق کو تحریک انصاف کے اثاثوں اور سیاسی مستقبل کو بچانے کی فکر دامن گیر ہے تو الطاف بھائی ابہام کے پردوں میں عوامی تحریک کی مساعی کو توانائی بہم پہنچانے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منصوبہ کے اصل ڈیزائنر نے ان دونوں جماعتوں کو سیفٹی وال کے طور پر استعمال کرنا ہے، اگر عمران کا لانگ مارچ آگے بڑھتا ہے تو جماعت اسلامی اپنا وزن پی ٹی آئی کے اور ایم کیو ایم عوامی تحریک کے پلڑے میں ڈال کے میدان سیاست کے مال غنیمت سے حصہ وصول کر لیں گی بصورت دیگر دونوں پارٹیوں کی قیادت کو ثالثی کی دستار فضیلت سجانے سے تو کوئی نہیں روک سکتا۔ بہرحال! نواز شریف صاحب کی استقامت اور سیاستدانوں کی جمہوری سسٹم کے ساتھ لازوال کمٹمنٹ نے تمام سازشی منصوبوں پر پانی پھیر کے قومی وقار کی علامت پارلیمنٹ کی آبرو بچا لی، میڈیا کے بعض لوگوں کے کے سوا پاکستانی سیاست میں پہلی بار تمام طبقات جمہوری سسٹم کے دفاع پر یکسو ہو کے اس اعصابی جنگ کا پہلا مرحلہ جیت چکے ہیں۔ یہ واضح ہو گیا کہ لانگ مارچ اور دھرنے دینے والی جماعتیں
وسیع عوامی حمایت سے محروم ہیں، ان کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ وہ مبینہ نعروں کی آڑ میں سسٹم کو گرا کے ایک بار پھر قوم کو بے یقینی کے صحرائوں میں بھٹکانے کے لئے دام ہم رنگ زمین بچھا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ دراصل پارلیمنٹ کی تحلیل کا ابتدائیہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اس پارلیمنٹ کی اجتماعی خواہش کا مظہر ہیں جو سسٹم کو گرانے والی غیر جمہوری قوتوں کی راہ میں سب سے توانا مزاحمتی دیوار ہے اور جس کی پشت پناہی پر پوری قوم یکسو و متحد ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم کے استعفیٰ سے جہاں سیاسی بحران زیادہ گمبھیر ہو گا وہاں یہ نفسیاتی پسپائی پارلیمنٹ کی منظم مزاحمتی طاقت کے اضمحلال کا سبب بن کے پوری قوم کی اجتماعی مساعی کو برباد کر ڈالے گی، جس سے ہر شعبہ زندگی میں ابھرنے والی وہ فکری یک جہتی بھی تحلیل ہو جائے گی جس نے معاشرے کو زیادہ مضبوط و منظم بنا کے طالع آزمائوں کی پیش قدمی روک رکھی ہے۔ سیاست کا فرض یہی ہے کہ وہ افراد کی معاشرے کی صورت میں تنظیم کرے اور سیاسی روایات کے قیام سے حدودوقیود کا تعین کر دے، آج جو کشمکش جاری ہے یہ معاشرتی تنظیم کے علاوہ ان روایات کی تدوین بھی کر رہی ہے جو مستقبل کے سیاسی عمل کو حدود و قیود عطا کریں گی۔ مجھے افسوس ہے کہ کارپوریٹ میڈیا کی تقسیم نے جہاں اصول پسند صحافتی تنظیموں کے کردار کو بے اثر بنایا‘ وہاں ان کی اخلاقی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے، کچھ میڈیا گروپ آئین و جمہوریت اور سیاسی آزادیوں کا طرف دار بن کے سامنے آئے جبکہ بعض میڈیا ہائوسز نے سسٹم کو گرانے والے عمران اور قادری کے موقف کی حمایت کر کے صحافتی برادری میں پائے جانے والے فطری اختلافات کی خلیج بڑھا کے صحافت کی اجتماعی قوت کو کمزور بنایا ہے۔