تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-09-2014

کیا کہنے ، کیا کہنے !

اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے ۔ بعض کو وہ بعض کے ذریعے تباہ کر دیتاہے ۔ پیپلز پارٹی اور دوسرے حلیفوں سمیت کپتان نے نون لیگ کو عریاں کردیا۔ پھر علّامہ صاحب کی مدد سے اپنے آپ کو ۔ شکست و ریخت جاری ہے اور ابھی جاری رہے گی ۔ کیا اس ملبے سے آنے والے دن کی پو پھوٹے گی؟ 
اللہ بہت مہربان ہے ۔ مہلت موجودہے کہ معاملہ سلجھا لیا جائے وگرنہ اس بحران سے کتنی ہی زہریلی شاخیں مزید پھوٹیں گی اور ہوا ان کے بیج اڑا کر نئی سرزمینوں تک لے جائے گی ۔ اگر واقعی بحران سے نمٹنا ہے تو فوج کو ثالث بنانے اور سپریم کورٹ پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ 
ہر روز نت نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں ۔ اوّل جاوید ہاشمی کو لیجیے ، جنہوں نے اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگا دیا ہے ۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وزیراعظم اپنی قابلِ احترام صاحبزادی کو غیر ضروری بیان بازی سے منع کریں ۔ کل انہوں نے ارشاد کیا کہ جاوید ہاشمی کو نون لیگ اب بہت یاد آئی ہوگی اور یہ کہ سچ بولنا انہوں نے یہیں سے سیکھا ہے ۔ اس پارٹی سے جہاں برائے وزنِ بیت اختلاف بھی آیت الکرسی پڑھ کر کیا جاتا ہے ؟ شریف خاندان اپنے باورچیوں کے ساتھ جدّہ کے محل میں براجمان تھا۔چار سال کی جیل کاٹ کر جاوید ہاشمی رہا ہوئے تو راولپنڈی سے ملتان تک جلوس لے جانے کا ارادہ کیا۔ پارٹی کارکنوں کو منع کر دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں ، اوّل میاں نواز شریف کی موجودگی میں رانا تنویر نے ہاشمی کا مذاق اڑایا اور پھر خواجہ آصف نے ۔ ہاشمی اس طرح کے چونچلے برداشت کرنے والا آدمی نہیں ؛ چنانچہ اس نے کہا : میاں صاحب اپنے ...کو باندھ کر رکھیے ۔ میں اس طرح کے لوگوں سے نمٹنا خوب جانتا ہوں ۔ 
اڈیالہ جیل میں اپنی آپ بیتی وہ مکمل کر چکا تو اس کے کچھ باب پڑھ کر سنائے ۔ پھر اس کا مسوّدہ میرے حوالے کیا۔ اس کاخیال تھا کہ اس کا عنوان ''زندہ تاریخ ‘‘رکھا جائے ۔ میں نے اس پر لکھا ''ہاں ! میں باغی ہوں‘‘ حج کے لیے جانا ہوا تو میاں محمدنواز شریف سے درخواست کی کہ وہ دیباچہ لکھ دیں ۔ بہت دن سے مسوّدہ ان کے پاس پڑا تھا اور وہ متامل تھے ۔ راجہ ظفر الحق کامیاب ہیں ، جب حج کے معاملات میں خرابی پر ناچیز نے ایک کالم لکھا۔ میاں شہباز شریف کے توجہ دلانے پر وزیراعظم نے ان سے استفسارکیا تو جواب میں انہوں نے لکھا : خانہ کعبہ میں ، میں آپ کی درازیٔ عمر اور طولِ اقتدار کے لیے دعائیں مانگ رہا ہوں ۔ یہ بھی کہ ان کے خلاف جنگ کے رپورٹر عظیم چوہدری کی وجہ سے لکھاگیا ، جو پاکستان ہائوس میں مفت رہائش کے آرزومند تھے۔ عظیم چوہدری صرفہ کرنے نہیں ، دوسروں پر خرچ کرنے والے آدمی ہیں ۔ ایسا شخص عبادت کے ہنگام بلیک میلنگ کا ارتکاب کیوں کرتا؟
کیا مخصوص ٹی وی چینلوں کے نمائندوں پر بہیمانہ تشدّدکسی منصوبے کے بغیر تھا؟ ایسا ہی تھا تو سب کی ایک سی آئو بھگت کیوں نہ ہوئی ؟ 
جاوید ہاشمی کو اس وقت اور اس انداز میں اپنی پارٹی کو خیر باد نہ کہنا چاہیے تھا۔ وہ مگر اوّل درجے کے احمق اور بزدل ہوں گے ، اگر پھر سے نون لیگ کا رخ کریں۔ اپنے طویل تجربے کے ساتھ انہیں احساس ہونا چاہیے تھا کہ اس ملک میں پارٹیاں نہیں ہوتیں ، فقط لیڈر یا ان کے خاندان۔ 
عمران خاں ابھی کل پرسوں سے طاہر القادری کے زیرِ اثر نہیں ۔ خیر سے وہ ان دنوں ایک صاحب کے مرید بھی ہیں، جنہوں نے دوسروں کے علاوہ اس مضحک کردار پیر صاحب کاکی تاڑ سے بھی فیض پایا ہے ۔ خود انہیں کوئی مسئلہ ہو تو رہنمائی کے لیے ڈھنگ کا کوئی آدمی ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ علم واجبی اور دانش واجبی سے بھی کم۔اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ مشکل میں آپڑو تو راسخون فی العلم سے رجوع کرو، اہلِ ذکر سے اور یہ کہ درجات علم کے ساتھ ہیں ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے مجھے روک نہ دیا ہوتو میں مزید کچھ عرض کرتا۔ 
علّامہ طاہر القادری پر عمران خان کبھی ایک پختہ رائے کے حامل تھے اور یہ رائے مکمل طور پر منفی تھی ۔ اب فقط ہنگامی سیاسی ضرورتوں کے لیے ان کے قائل کیسے ہو گئے ۔ المیہ یہ ہے کہ کپتان کا اپنا علم بہت ہی محدود ہے اور ساتھیوں کے مشورے کو وہ درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے ۔ کیا اسی کا نام دانائی ہے ۔ رہے علّامہ صاحب تو ان کا انقلاب ایک معمّہ ہے ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تادیر وہ دونوں ایک ساتھ چل سکیں ۔ ان کا ارشاد تو یہ ہے کہ ختم المرسلینؐ کے حکم پر وہ بروئے کار آئے ہیں۔ ان کے اسی مقام و مرتبے پر ایمان لا کر مریدینِ با صفا کی ایک جماعت ان کی ہم رکاب ہے ۔ بہت مبالغہ کر لیا جائے تو ایک فیصد ہوں گے ...اور مقام و مرتبہ وہ امام خمینی کا چاہتے ہیں ۔ اتنی سی بات انہیں معلوم نہیں کہ انقلاب اگائے اور برپا نہیں کیے جاتے ۔ حالات کے تیوروں سے ، طوفانوں کی طرح وہ بھڑکتے ہیں ۔ ان کے تاریخی، سیاسی ، معاشی اور سماجی عوامل ہوتے ہیں ۔ خدا کی زمین پر خواب دیکھنے پر کبھی کوئی پابندی نہ تھی مگر اس کے قوانین بدلے نہیں جا سکتے ۔ دریا اپنی راہ چلتے ہیں اور معاشرے بھی ۔انہیں بدلا جا سکتا ہے لیکن وہ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ علّامہ ایسے نہیں ، جنہوں نے رانا ثناء اللہ کے بیرونِ ملک فرار کی خبر دی ۔ جنہوں نے انکشاف کیا کہ شریف خاندان امریکہ میں رہائش پذیر ہونے کا فیصلہ کر چکا۔ جنہوں نے ہر دوسرے دن کو یومِ انقلاب کہا اور عظیم خوشخبری کا دعویٰ کیا۔ ان دعووںکا کیا ہوا؟ دیکھنے والے انہیں اور ان پر بھروسہ کرنے والوں کو ناکام اور نامراد ہوتا ہوا دیکھ لیں گے مگر خواب فروش اپنا کاروبار بند کیسے کریں ؟ ہر ایک کا اپنا روزگار ہے اور دانشوروں میں ایسے بہت ہیں ، جو کسی بھی ہنگامی واقعے سے عہدِ آئندہ کی تاریخ کے سب باب مرتب کرڈالتے ہیں ۔ 
دو نکات پر میڈیا میں اتفاقِ رائے ہوا ۔ اوّل یہ کہ کپتان کا منصوبہ ناقص ہے ۔ ثانیاً یہ کہ وزیراعظم نے اپنے چند احمق حلیفوں کے طعنوں پر فوج کو خود سے کی گئی پیشکش واپس لے کر ایک عظیم غلطی کا ارتکاب کیا۔ بحران جس سے دراز ہو گیا۔ وزیرِ داخلہ کا فرمان ہے کہ آئی ایس پی آر کی وضاحت ان کی مرضی سے جاری ہوئی ۔ فوجی افسر صاف صاف کہتے ہیں کہ ہم نے وزیرِ اعظم کے خطاب کا جواب دیا۔ دوسرا جواب کور کمانڈر کی کانفرنس کے بعد کا اعلامیہ ہے ۔ طاقت کے استعمال سے گریز، جلد از جلد سمجھوتہ اور یہ کہ فوج قومی امنگوں سے انحراف نہ کرے گی ۔ آخری اشارہ اس طرف ہے کہ اگر ذمہ داری سونپی جائے تو وہ بحران کا متوازن حل تلاش کرے گی ۔ وزیرِ اعظم کا استعفیٰ اس حل کا حصہ نہ تھا مگر افسوس کہ خبطِ عظمت! افسوس کہ دکھاوا ، افسوس کہ احساسِ کمتری جوبرّصغیر کی روح میں ہے ۔جاری بحران کے تین نتائج ہیں ۔ اوّل معیشت اور امن و امان کی تباہی، ثانیاً دنیا بھر میں جگ ہنسائی ، ثالثاً فوج کی قوّت میں اضافہ اور سیاستدانوں کی رسوائی ۔کپتان شاد ہے او ر اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی زندگی کے سب سے پرمسرّت ایام ہیں ۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔ 
اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے ۔ بعض کو وہ بعض کے ذریعے تباہ کر دیتاہے ۔ پیپلز پارٹی اور دوسرے حلیفوں سمیت کپتان نے نون لیگ کو عریاں کردیا۔ پھر علّامہ صاحب کی مدد سے اپنے آپ کو ۔ شکست و ریخت جاری ہے اور ابھی جاری رہے گی ۔ کیا اسی ملبے سے آنے والے دن کی پو پھوٹے گی؟ 
پسِ تحریر: ابھی تک ہسپتال میں ہوں اور کچھ دن رہوں گا۔ طبیعت اکثر شام میں کشادہ ہوتی ہے اور کالم لکھنے کا وقت گزر چکا ہوتاہے ۔ چندے معذرت قبول کیجیے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved