تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-09-2014

تین ممالک، چار صدر

سب سے پہلے میں اپنے قارئین کو یقین دلاتا ہوں کہ آج کے کالم کے موضوع کا پاکستان کی داخلی سیاسی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ۔ میں جانتا ہوںکہ بدقسمتی سے اب وطن عزیزکا جو مریضانہ ذہنی ماحول بن چکا ہے اُس میں نیک نیتی کا شدید فقدان ہے۔ آپ جو بھی پڑھیں یا سنیں آپ کے دل میں شک رہتا ہے کہ لکھنے والے کی نیت میں ضرورکوئی خرابی یا منفی جذبہ یا مفاد یا سازش کارفرما ہوگی۔ اس لیے آپ کو یقین دلانا مناسب سمجھا کہ آپ کو جو دال کھلانا چاہتا ہوں اُس میںکچھ کالا نہیں بلکہ خالصتاً صحافیانہ نکتہ نظر سے تین ممالک کے صدارتی انتخابات سے اپنے قارئین کوباخبرکرنا مقصود ہے۔ 
ہم اپنے جائزے کو لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے اورگمنام ملک یوروگوائے سے شروع کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے حال ہی میں فٹبال ورلڈ کپ کے میچ دیکھے ہیں اُنہوں نے اس کی ٹیم کی شاندارکارکردگی کا نظارہ کیا ہوگا۔ فٹبال ٹیم کی کارکردگی جتنی بھی اچھی ہو وہ ایک ملک کی قسمت نہیں بدل سکتی۔ فیصلہ کن کردار تو صرف وہاں کا سیاسی نظام، انتظامی ادارے، عدلیہ، نظام تعلیم اور صحافت ادا کر سکتے ہیں۔ یوروگوائے اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اسے وہ صدر مل گیا جس نے قُرون اُولیٰ کے حکمرانوںکی یاد تازہ کر دی۔ نام ہے جوزے موجیکا، وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی بنیاد ہی اس بنیادی مفروضے پر ہے کہ مائوں نے غلاموں کو نہیں جنا، تمام انسان برابر ہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہے مساوات، انصاف اور انسانی حقوق کا احترام۔ جوزے نے آج تک سرخ قالین پر قدم نہیں رکھے۔ وہ ہر قسم کے سرکاری رکھ رکھائو ( پروٹوکول) سے سخت پرہیزکرتے ہیں۔ آپ اُن کا یہ قول پڑھ کر خوش ہوں کہ ''اگر جمہوری نظام میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے اکثریت کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر انہیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جانے کے بعد موروثی بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنے کے اندازکے برعکس افتادگانِ خاک اور عوام کی اکثریت کے معیار زندگی کو اپنانا ہوگا‘‘۔ جوزے جوکہتے ہیں اُس پرعمل کرتے ہیں۔ سادگی کے معاملے میں اس حد تک جاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا۔ خستہ حال پرانی فوکس ویگن کار (جو کبھی کبھی دھکا دے کر چلانی پڑتی ہے) کے مالک ہیں۔ لاہور کی گوالمنڈی جیسے بازار کی ایک بالکل عام دُکان میں محنت کشوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتے ہیں۔ دارالحکومت کے ایک قریبی گائوں میں تین کمروں کے معمولی گھر میں رہتے ہیں۔ ہر روز سڑک پر کھڑے ہوکر دیر سے آنے والی بس کا انتظارکرتے اورآدھے گھنٹے کا سفرکرکے دفتر جاتے ہیں۔ اس سے آپ نے درویش صفت جوزے کے لباس اور حلیے کا بخوبی اندازہ کر لیا ہوگا۔ان کا لباس ،گھر اور دفتر کا فرنیچر اس غریب ملک کے کسی بھی شخص سے زیادہ اچھا نہیں ۔ 
یوروگوائے جغرافیائی طور پر لاطینی امریکہ کے بالکل وسط میں واقع ہے۔ شمال میں برازیل اور جنوب میں ارجنٹینا جیسے بہت بڑے پڑوسی ہیں ۔ نصف صدی قبل جوزے ایک مضبوط گوریلا دہشت گرد تنظیم (Tupamaros) کے رہنما تھے۔ روپوشی کے دوران پولیس مقابلے میں چھ گولیوں کا نشانہ بننے سے شدید زخمی ہوئے۔ دوبار قید سے مفرور ہوئے۔ تیسری بار پکڑے گئے تو چودہ سال کی قید بامشقت اور قید تنہائی کی سزا بھگتی۔ اس قید میں دو سال وہ بھی تھے جب اُنہیں ایک اندھے کنوئیں کی تہہ میں رکھا گیا جہاں اُن کا وقت آدم خورکیڑوں مکوڑوں سے جان بچاتے گزرا۔ دہشت گرد گوریلا تحریک کا آدرش یورو گوائے کوکیوبا کی طرح سوشلسٹ ملک بنانا تھا مگر حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ اس جدوجہد کا یہ نتیجہ نکلا کہ ملک پر فوج کی فسطائی حکومت قائم ہوگئی۔ جب بھی جوزے سے پوچھا جائے کہ اب جبکہ اپنے ملک کے صدر بن گئے ہیں، آپ کا نصب العین کیا ہے؟ وہ اپنے کمرے میں لگے اپنے پیرومرشد چی گویرا کی تصویرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختصر اور سادہ جواب دیتے ہیں : '' ہر قسم کے استحصال اور چند لوگوں کی دُوسرے انسانوں پر حکمرانی اور لوٹ مار کا خاتمہ‘‘۔
جوزے کے دل میں کسی کے خلاف بغض ہے، غصہ نہ شکایت۔ وہ کسی کی مذمت نہیں کرتے، اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔ اُن کے سیاسی جلسوں میں صرف بائیں بازو کے نہیں بلکہ مرکزی سیاسی فکرکی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہوتے ہیں۔ جوزے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ گزارا کرنا سیکھ گئے ہیں۔ آزاد عدلیہ اور آزاد پریس کا احترام کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو بخوشی برداشت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بڑے زمینداروں پر بھاری ٹیکس لگایا تو سپریم کورٹ نے اسے خلاف قانون قرار دے دیا۔ جوزے کا وسیع تر ترقی پسند اور عوام دوست محاذ کا دور اقتدار دس سال مکمل کرنے والا ہے۔ اکتوبر میں نئے انتخابات ہوں گے تو پرامن انتقال اِقتدار کی صورت میں جوزے کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔
اب ہم مشرق وسطیٰ کی طرف چلتے ہیں اور جس ملک کے حالیہ صدارتی انتخابات کا جائزہ لیں گے اُس کا نام ہے ترکی جو پاکستان کا بہترین دوست ہے۔ طیب اردوان ترکی کے پہلے براہ راست چنے جانے والے صدر ہیں۔ وہ بارہ سالہ دور اقتدار میں نو انتخابات جیت چکے ہیں۔ اُنہیں 52 فیصد ووٹ ملے۔ اگر 50فیصد سے کم ووٹ ملتے تو سب سے زیاہ ووٹ لینے والے دواُمیدواروں میں پھر الیکشن ہوتا،افغانستان کے صدارتی انتخاب کی طرح۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ صدر بننے تک وزیراعظم تھے۔ عبداللہ گل صدارت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ غالباً جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(AK) کی قیادت سنبھالنے اور اپنے جانشین (طبیب اردوان) کی جگہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ طیب اردوان ایک نیا آئین بنانا چاہتے ہیں جس میں (فرانس کی طرح) صدر کا عہدہ نمائشی ہونے کی بجائے اہم انتظامی اختیارات کا مالک ہوگا۔ طیب اردوان کو ملک کے اندر حزب اختلاف سے اتنا بڑا سیاسی خطرہ درپیش نہیں جتنا امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن سے ہے۔ ہمارے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی منہاج القرآن کی طرح وہ ایک بہت بڑی مذہبی تحریک کے بانی اور رہنما ہیں جو ترکی میں (خصوصاً پولیس عدلیہ اور سرکاری محکموں میں) بڑا اثر و رُسوخ رکھتی ہے۔ اُنہوں نے کرپشن اور چوری چھپے کروڑوں اربوں کے کمیشن لے کر ناجائز دولت اکٹھی کرنے کا جو الزام لگایا وہ سابق وزیراعظم اور نئے صدر کے لئے بہت بڑی پریشانی کا باعث بنا اورغالباً سب سے بڑا درد سر ثابت ہوا۔ ترکی زبان میں قائدکو رئیس کہتے ہیں۔ مقامی اور بلدیاتی حکومتوں کے انتخاب میں 89 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے مگر صدارتی انتخاب میں صرف 74فیصد لوگوں نے۔ بائیں بازوکی سوشلسٹ پارٹی (جس کا نام عوامی جمہوریت ہے) صرف چند سال پہلے معرض وجود میں آئی، اُس کے امیدوار Demirtao نے استنبول اور ازمیر میں اپنے ووٹوں کی تعداد دگنی اور انقرہ میں تین گنا بڑھا کر ملک بھر میں7.9 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ طیب اردوان کی کامیابی کی بڑی وجہ ترکی کی معاشی حالت میں انقلابی بہتری ہے۔ ترکی کے خیر خواہ اُمید کرتے ہیں کہ ترکی کا نیا صدر سلطنت عثمانیہ کا مطلق العنان خلیفہ یا کمال اتاترک یا دور حاضر میں روس کے صدر پیوٹن بن جانے کی بجائے جمہوری روایات کا زیادہ سے زیاہ احترام کرے گا۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ صرف جمہوری معاشرے مضبوط، دیرپا، مستحکم، خوش و خرم اور خوشحال ہوتے ہیں۔
ایران میں صدارتی انتخاب ہوئے عرصہ گزر چکا ہے، اس لئے ہم افغانستان چلتے ہیں۔ جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کابل میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اب میں آپ کا تعارف افغانستان کے صدر سے کرانے لگا ہوں تو ایک کی بجائے دو افراد آگے بڑھے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عبداللہ اور اشرف غنی۔ ان دو اُمیدواروں کے درمیان امریکی وزیر خارجہ نے صلح کا جو نسخہ تجویزکیا ہے اُس کی دُنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر عبداللہ نے الیکشن میں بڑی دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور خطرہ پیدا ہوگیاکہ ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ووٹوں کے 23000 صندوق کھول کر دوبارہ گنتی کرائی گئی تو دھاندلی کا الزام سچ نکلا۔ معاہدے کے مطابق اشرف غنی صدر بن جائیں گے اور ڈاکٹر عبداللہ چیف ایگزیکٹو (اور دو سال بعد وزیراعظم) آئینی ترمیم کے ذریعہ اختیارات کو صدر اور وزیراعظم کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ آئینی توازن قائم ہو جائے۔
کالم ختم کرنے سے پہلے دوبارہ لاطینی امریکہ چلتے ہیں جہاں برازیلی سوشلسٹ پارٹی کے رہنما اور صدارتی اُمیدوار Eduardo Campos ہوائی جہازکے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ برازیل کی موجودہ صدر Rousseff اُن کی مدمقابل جماعت سے ہیں مگر اُنہوں نے سیاسی دانشمندی (جس کا ہمارے ہاں شدید فقدان ہے) کا مظاہرہ کرتے ہوئے برازیل میں تین دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کر دیا۔ ملک بھر میں پرچم سرنگوں ہوئے اور صف ماتم بچھ گئی۔کاش ! ہم بھی سمجھ لیں کہ جمہوریت اتفاق اور اختلاف کی دو ٹانگوں پر چلتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved