تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-09-2014

مغرب کا ملمع زدہ چہرہ اور دوہرے معیار

ہالینڈ بادشاہت پر قائم مملکت ہے یعنی بادشاہ یا ملکہ ملک کی حکمران ہے۔ ملک کا سرکاری نام بھی اسی نسبت سے ''کنگڈم آف نیدر لینڈز‘‘ ہے۔ موجودہ بادشاہ کا نام ولیم الیگزینڈر ہے جو اپنی والدہ ملکہ بیٹرکس کے تخت سے دستبردار ہونے کے بعد 30اپریل 2013ء میں یعنی تقریباً ڈیڑھ سال پہلے بادشاہ بنا ہے۔ نیدر لینڈز ہالینڈ کا سرکاری نام ہے۔ نیدر لینڈز نے مختلف ادوار دیکھے ہیں اور اس دوران سلطنت نے کئی شکلیں تبدیل کیں۔1581ء سے 1795ء تک کا عرصہ یہ ملک ''ڈچ ریپبلک ‘‘ رہا۔ 1806ء سے 1810ء تک '' کنگڈم آف ہالینڈ ‘‘ اور 1813ء سے 1815ء تک ''پرنسپیلیٹی آف دی نیدر لینڈز‘‘ رہا اور 1815ء کے بعد سے اس کا نام '' کنگڈم آف دی نیدر لینڈز‘‘ ہے۔ اس کا پہلا بادشاہ ولیم او ل تھا۔ اکہتر سال عمر پانے والے اس بادشاہ نے ملک پر پچیس سال بادشاہت کی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے ولیم دوم نے نو سال حکمرانی کی۔ پھر ملک میں ولیم سوم کا طویل دور شروع ہوا جو اکتالیس سال تک چلا۔ 1890ء میں ولیم سوم کے بعد ملکائوں کا دورشروع ہوا۔ ولیم سوم کی بیٹی ملکہ ولہلمینا (Wilhelmina)نے سب سے لمبا عرصہ حکمرانی کی۔ اس کا دور حکومت اٹھاون سال پر مشتمل تھا۔ پھر اس کی بیٹی ملکہ جولیانا نے 1948ء سے 1980ء تک بتیس سال حکومت کی۔ جولیانا کی بیٹی بیٹرکس تینتیس سال '' بادشاہت‘‘ کرنے کے بعد 2013ء میں اپنے بیٹے ولیم الیگزینڈر کے حق میں دستبردار ہوگئی۔ یاد رہے کہ ولیم اول اور موخر الذکر تینوں ملکائیں اپنے بچوں کے حق میں دستبردار ہوئیں۔
ہالینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ جس کا رقبہ تقریباً ساڑھے اکتالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ رقبے کے اعتبار سے ہالینڈ دنیا کا ایک سو چونتیسویں نمبر ہے اور پاکستان کے رقبے کا تقریبا پانچ فیصد ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان ہالینڈ سے بیس گنا بڑا ملک ہے۔ آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ (گزشتہ کالم میں غلطی سے ایک کروڑ بیس لاکھ لکھی گئی تھی) یعنی پاکستان کا تقریباً دس فیصد۔ لیکن جی ڈی پی پر نظر ڈالیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ ہالینڈ کا جی ڈی پی یعنی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (مجموعی قومی پیداوار) پاکستان کے تین سو چھتیس ارب ڈالر سالانہ کے مقابلے میں آٹھ سو اڑتیس ارب ڈالر سالانہ ہے۔ یعنی پاکستان سے قریباً اڑھائی گنا زیادہ اور فی کس آمدنی کا تو مت ہی پوچھیں۔ پاکستان فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا میں ایک سو سینتالیسویں نمبر پر ہے جبکہ ہالینڈ دنیا میں تیرہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدنی تقریباً تیرہ سو ڈالر سالانہ ہے جبکہ ہالینڈ میں فی کس آمدنی پچاس ہزار ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ اگر دنیا بھر میں ممالک کے باہمی تقابل کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہالینڈ آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں تریسٹھویں نمبر پر ، رقبے کے اعتبار سے ایک سو چونتیسویں نمبر پر ہے جبکہ جی ڈی پی کے حساب سے سترہویں نمبر پر ہے اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے تیرہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کا حساب اس کے بالکل الٹ ہے۔ پاکستان آبادی کے حساب سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ، رقبے کے اعتبار سے چھتیسویں نمبر پر ، جی ڈی پی کے حوالے سے پینتالیسویں نمبر پر اور فی کس آمدنی کے چارٹ پر ہمارا ایک سو سینتالیسواں نمبر ہے۔ بزعم خود ہم '' ایشین ٹائیگر‘‘ ہیں۔ اسحاق ڈار کے بقول ہماری معیشت راکٹ کی مانند اوپر جارہی ہے۔ شاید خلا میں ،جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔
ہالینڈ بھی مغرب کے عمومی رویے کی مانند بظاہر لبرل ، وسعت قلبی اور انسانی حقوق کا عملبردار بلکہ چیمپئن ہے، لیکن اندر سے تنگ نظر ، تنگ دل اور متعصب ۔ یورپ میں عموماً نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہے۔ اگر کوئی عیسائی یا غیر مسلم نعوذ باللہ توہین رسالت کا مرتکب ہو تو وہ آزادی اظہار کی چھتری تلے جائز قرار پاتی ہے لیکن مسلم عورت اگر حجاب لے تو یہ لبرل یورپ کو قابل قبول نہیں کہ مسلمان عورت اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے۔ کئی ممالک میں مسجد کے مینار بنانے پر پابندی ہے کہ مسلم شناخت کا مظہر ہے جو مذہب سے بالاتر انسانی اور مذہبی آزادی کے دعویدار ممالک کو قابل قبول نہیں۔ ہالینڈ بھی اسی قبیل کی منافقتوں سے مالا مال ملک ہے۔ ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں ہم جنسوں کی شادی کو قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا اور اس کو آئینی تحفظ فراہم کیاگیا۔ جسم فروشی باقاعدہ طور پر جائز اور قانونی ہے۔ طوائفیں رجسٹرڈ ہیں اور سیکس ورکر کہلاتی ہیں۔ سرکار انہیں ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے اور وہ سرکار کوٹیکس دیتی ہیں۔ ایمسٹرڈم کا '' ریڈ
لائٹ ڈسٹرکٹ‘‘ اس حوالے سے دنیا بھر میں سب سے بڑا اور مشہور ایریا ہے۔ یہ شاید دنیا کا سب سے بڑا '' چکلہ ‘‘ ہے۔ میں اس نامناسب لفظ کے لیے معذرت خوا ہ ہوں مگر اس لفظ کا کوئی مہذب ترجمہ اس کی صحیح ترجمانی نہیں کرسکتا۔ بات مغرب کی منافقت کی ہورہی تھی۔ ہالینڈ میں ہم جنسوں کی شادی جائز ہے، جسم فروشی قانونی ہے۔ بغیر ایذا کے مرنے کی یعنی سہل مرگی (Euthanasia)کی قانوناً اجازت ہے۔ کسی قسم کے مذہبی دبائو کی شدت سے مخالفت ہے اور مذہبی انتہا پسندی کی کسی صورت اجازت نہیں، لیکن دوسری طرف یہ عالم ہے کہ دستبردار شدہ ملکہ بیٹرکس کی دو بہنوں آئرین اور کرسٹینا کو شاہی خاندان کی حکمرانی کرنے والوں کی درجہ بندی سے صرف اس لیے نکال دیاگیا کہ دونوں نے رومن کیتھولک مردوں سے شادی کی تھی۔ اس قسم کی شادی کی سٹیٹس جنرل (States General)یعنی ہالینڈ کی پارلیمنٹ نے اجازت نہیں دی تھی۔ ان دونوں میں سے آئرین نے نہ صرف یہ کہ رومن کیتھولک مرد سے شادی کی بلکہ خود بھی رومن کیتھولک مذہب اختیار کیا۔ ہالینڈ کا شاہی خاندان کے افراد روایتی طور پر ہمیشہ سے '' ڈچ ریفارمڈ چرچ‘‘ کے ممبر ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ آئینی شرط نہیں مگر اس کے باوجود شاہی خاندان اس فرقے سے علیحدہ نہیں ہوسکتا۔ موجودہ بادشاہ ولیم الیگزینڈر کے چھوٹے بھائی شہزادے فریسو کو بھی اسی جرم میں حق حکمرانی سے محروم کردیاگیا کہ اس نے قبیل نامی خاتون سے شادی کی اور پارلیمنٹ نے اس شادی کی توثیق کرنے سے انکار کردیا۔ شہزادے کا نام تاج و تخت کے وارثان کی فہرست سے خارج کردیاگیا۔
سارے مغرب کی مانند ہالینڈ میں بھی جانوروں کا درجہ فلسطینیوں سے ہزار گنا اوپر ہے۔ میں اور سیفی ٹرام پر سوار تھے۔ راستے میں ایک سٹاپ سے ایک خاتون ہاتھ میں ایک خوبصورت سا پنجرہ لیے ٹرام پر سوار ہوئی۔ اس پنجرے میں ایک بیمار کبوتر تھا۔ سیفی نے بتایا کہ یہ خاتون جانوروں یا پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی کسی تنظیم سے وابستہ ہوسکتی ہے۔ ابھی ہماری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہمارے بائیں ہاتھ والی سائڈ سے ایک '' سی گل‘‘ اڑتا ہوا آیا اور جہاں میں بیٹھا ہوا تھا اس کی اگلی کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا کر سڑک پر گر گیا۔ اس خاتون نے ایمرجنسی بٹن دبایا۔ ٹرام ڈرائیور نے فوراً بریک لگائی۔ وہ خاتون تقریباً روتے ہوئے ٹرام سے اتری۔ میں نے پلٹ کر دیکھا پیچھے سڑک پر ٹریفک رک چکی تھی۔ سی گل سڑک کے درمیان براجمان تھا۔ وہ خاتون سی گل کے پاس پہنچی ۔وہ اٹھ کر آہستہ آہستہ چلا۔ پھر دوڑا اور پھراڑ گیا۔ ٹریفک چل پڑی۔ ٹرام نے موڑ لیا اور سارا منظر غائب ہوگیا۔ فلسطینیوں کے قتل عام پر بچوں کے سکولوں اور ہسپتالوں پر اسرائیلی بمباری پر،غزہ میں شہریوں پر بدترین بمباری پر ، ناکہ بندی پر ، ظلم و بربریت پر کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ ایسی صورت میں مغرب کی ساری انسان دوستی کے دعوے ، انسانی حقوق پر قرار دادیں، جانوروں سے ہمدردی، فلاحی تنظیموں کے کارنامے اور انتہا پسندی کے خلاف نعرے سوائے فراڈ کے اور کچھ بھی نہیں لگتے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نام نہاد انسانیت کی ملمع کاری کے نیچے تعصب کا قبیح صورت چہرہ مغرب کی منافقت اور دوہرے معیار کا مظہر ہے۔ باقی تاریخ کا تو ذکر ہی چھوڑیں، صرف فلسطین ہی اس چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved