تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-09-2014

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

ریاستی اداروں پر حملے غیر آئینی
اور غیر جمہوری ہیں...نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ '' ریاستی اداروں پر حملے غیرآئینی اور غیر جمہوری ہیں‘‘ماسوائے سپریم کورٹ پر حملے کے، کیونکہ وہ حملہ ملک کے بہترین مفاد میں کیاگیا تھا۔ ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ '' اداروں کی حفاظت یقینی بنائی جائے ‘‘ جبکہ بادشاہت کو بھی ایک ادارے کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' میڈیا پر حملہ برداشت نہیں‘‘ تاہم ضرورت سے زیادہ سچ بولنے سے بھی ہاضمہ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اگر آپ کا ہاضمہ ہی ٹھیک نہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' نقصاان کے ازالے کے لیے میکنزم بنایا جائے ‘‘ اگرچہ میڈیا کے کچھ لوگوں کی خدمت کرکے ایک طرح سے اس میکنزم کی بنیاد پہلے ہی رکھ دی گئی ہے اور شروع سے سب سے زیادہ نتیجہ خیز یہی میکنزم ثابت ہوا ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
نام نہاد سیاسی لیڈروں نے آئین
کی دھجیاں بکھیر دیں... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ '' نام نہاد سیاسی لیڈروں نے آئین کی دھجیاں بکھیر دیں‘‘ جبکہ ادھر ہم نہ
صرف آئین کی مکمل پاسداری کررہے ہیں بلکہ ایسی بکھری ہوئی دھجیوں کو اکٹھا بھی کررہے ہیں جن میں سانحہ ماڈل ٹائون کی دھجیاں بطور خاص قابل ذکر ہیں، جس کی خاطر خواہ ایف آئی آر ابھی تک درج نہیں کی جاسکی کیونکہ اسلام آباد وغیرہ میں ایسے کئی دیگر مشاغل میں مصروفیت کی وجہ سے فرصت ہی نہیں ملتی جن میں صحافیوں کی ٹھکائی بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ جیسے اعلیٰ ترین ریاستی اداروں پر حملے ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ‘‘ جبکہ سپریم کورٹ پر حملے میں کئی معزز ارکان پارلیمنٹ خود بھی شامل تھے جس سے وہ حملہ مکمل طور پر '' آئینی‘‘ ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کو جواب دینا ہوگا کہ جب مذاکرات آخری مراحل میں تھے تو انہوں نے ریاستی اداروں پر دھاوا کیوں بولا‘‘ البتہ اگر موصوف کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب ہو تو اور بات ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ مذاکرات بھی برائے مذاکرات ہی ثابت ہوتے تھے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
دھرنا رہنما لاشوں کی سیاست کرنے
والے لوگ ہیں...پرویزرشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''دھرنا رہنما لاشوں کی سیاست کرنے والے لوگ ہیں ‘‘ چنانچہ ان
کی اس خواہش کے احترام میں اسلام آباد میں جو تین لاشیں گرائی گئی ہیں انہیں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے کیونکہ ماڈل ٹائون کی طرح ہم ہر جگہ چودہ چودہ لاشیں نہیں گرا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ '' دونوں جماعتوں کے رہنمائوں میں سے کسی کی بہن یا بیٹی دھرنے میں شریک نہیں ‘‘سوائے اس کے کہ عمران خان کی ہمشیرہ جو مظاہرین کے لیے کھانا لے کر آئی تھیں پولیس نے ان کی دوڑ لگوا دی تھی تاکہ زیادہ کھانے سے وہ لوگ بدمی کا شکار نہ ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ '' دھرنا دینے والی جماعتوں کے موقف کو دنیا کے کسی کونے سے پذیرائی نہیں ملی ہے‘‘ جبکہ دنیا کے ہر کونے میں ہمارے آقائوں کا بزنس ہے جہاں سے ہمیں ہر طرح کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' ہم نے مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے‘‘ بلکہ صرف ان کا نتیجہ نکلنے کا دروازہ بند کیا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔
فوج کی نگرانی میں قومی حکومت کی
تشکیل ناگزیر ہوچکی ہے...مشرف
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ '' فوج کی نگرانی میں قومی حکومت کی تشکیل ناگزیر ہوچکی ہے‘‘ کیونکہ یہ کوئی نگرانی نہیں کہ موقع ہونے کے باوجود جمہوریت کی حمایت کی جارہی ہے حالانکہ فوج کی نگرانی کو ویسے بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے اور لوگوں نے انتظار کرکرکے پریشان ہونا شروع کردیا ہے اور میں نے قوم کی امنگوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ '' نوازشریف حکومت چلانے کا اختیار کھوچکے ہیں ‘‘ ورنہ وہ اب تک مجھے بیرون ملک جانے کی اجازت ہی دے چکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ '' وہ فوری طور پر مستعفی ہوجائیں ‘‘ تاکہ ان کی جگہ کوئی بااختیار وزیراعظم آ سکے جو میرے بارے میں بھی غور کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ '' قومی حکومت کے قیام میں مزید تاخیر ملک کے لیے نقصان کا باعث ہوگی‘‘ جبکہ میں نے اس کارخیر میں پھرتی کا مظاہرہ کرکے ملک کو نقصان سے بچالیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ '' موجودہ ٹولہ برسراقتدار رہا تو لوگوں کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ جائے گا‘‘ جو میں نے بڑی مشکل سے بحال کیا تھا اور جواب تک یادگار چلا آرہا ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کررہے تھے۔
طاقت کے استعمال سے
نظام تباہ ہوجائے گا...گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ '' طاقت کے استعمال سے نظام تباہ ہوجائے گا‘‘ اس لیے حکومت کو تمام تر عاجزی و انکساری سے '' ہماری طرح ‘‘ اپنے اصل کام پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ ہمارا تجربہ بھی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام احسن طریقے سے سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف اداروں کو لڑانا بند کردیں‘‘ بلکہ یہ کام سیاستدانوں پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اطمینان سے اپنے اصل کام میں لگے رہیں کیونکہ یکسوئی سے کیا ہوا کام ہی صحیح معنوں میں نتیجہ خیز ہوسکتا ہے اور اس سلسلے میں ہماری روشن مثال ہمیشہ پیش نظر رکھیں بلکہ ایم بی بی ایس کہلانے کی بھی کوشش کریں کیونکہ ایسے خطابات اور القابات قربانی دینے سے ہی ملا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' مظاہرین کے جائز مطالبات مان لیے جائیں ‘‘ جبکہ سب سے جائز مطالبہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہے کیونکہ اب تو میری پارٹی کے کئی دیگر زعمانے بھی یہ مطالبہ کردیا ہے جو لوہا گرم ہونے کے منتظر چلے آرہے تھے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
آج کا مقطع
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفرؔ اس گھر کی
اس نے آخر مجھے رنگِ در و دیوار دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved