تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-09-2014

ماضی اور حال

مدت ملازمت کے بعد توسیع پانے والے ڈی جی آئی بی نے عمران خان کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے ادارے نے اپنے خفیہ فنڈ سے اڑھائی ارب روپے '' دھرنا مخالفین‘‘ میں تقسیم کیے ہیں۔ عمران خان نے تو کسی کانام لیے بغیرکچھ نا معلوم لوگوں کا ذکر کیا تھا لیکن ان کے الفاظ باہر آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد کوئی چھ سات جید لکھاری اور اینکرز گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں سے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ اور تو اور ان کی حمایت میں آج کے ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کو خود سامنے آ کر یہ وضاحت بھی کرنی پڑی ، اخلاقی طور پر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس طرح وہ خود ایک پارٹی بن کر سامنے آ گئے ہیں ۔یہ کام تو وزیر داخلہ کا تھا جن کے ماتحت ان کا ادارہ کام کرتا ہے۔اگر انہیں ان کے نائبین نے نہیں بتایا تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ آج سے زیادہ نہیں بلکہ صرف چار سال قبل کی بات ہے جب ان کی موجودہ مدت ملازمت میں توسیع دینے والوں نے یہی الزام پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف لگایا تھا اور ان الزامات کا ایک ماہ تک اپنے ڈھب کے میڈیا پر طوفان اٹھائے رکھا۔ چار سال قبل جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اس وقت ا نہی فر شتہ صفت حضرات نے جو آج آپ کے ہم قافلہ ہو کر گرج برس رہے ہیں، اپنے انتہائی''خصوصی ذرائع‘‘ کے حوالے سے خبر نشر کرتے ہوئے سب کو چونکا دیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے رحمان ملک کے ذریعے آئی بی کے خفیہ فنڈ سے پچاس کروڑ روپے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے علم میں لائے بغیر میڈیا میں تقسیم کر دیئے ہیں تاکہ صدر جناب آصف علی زرداری کے گرتے اور بگڑتے ہوئے امیج کو بحال کیا جا سکے ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اپنے ٹی وی چینلز کے مختلف پروگراموں میں اپنے ڈھب کے سیا ستدانوں اور کچھ صحافیوں کو بلا کر ان پچاس کروڑ روپوں کی خوب درگت بنائی گئی۔ چند دن کے شور شرابے کے بعد اس مو ضوع پر خاموشی چھا گئی لیکن کچھ عرصہ بعد آئی بی کے انہی پچاس کروڑ روپوں کی باز گشت قومی ا سمبلی اور سینیٹ میں بھی گونجنے لگی لیکن حیران کن طور پر وہاں پر آئی بی کا کوئی ڈائریکٹر اپنی صفائی دینے نہیں پہنچا تھا ۔پچاس کروڑ روپے کی اس خبر نے آج کے اڑھائی ارب روپے کی طرح اس وقت بھی سب کو چونکا دیا تھا اور بہت سے ہمارے جیسے ضرورت مندوں نے اپنے موبائل فونز کو تروتازہ رکھ کر پچاس کروڑ روپوںمیں سے اپنے اپنے حصے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا لیکن یہ کہاں ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا؟۔
جب پچاس کروڑ روپوں کی یہ خبر ہر سو پھیل گئی تو پاکستان کے عوام اس انتظار میں رہنے لگے کہ اب وصولیاں پانے والامیڈیا اپنا رخ بدل کر جناب زرداری کی مدح سرائی میں مصروف ہو جائے گا اور سب پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کی بجائے ان کے مخالفین کے نت نئے سکینڈلز سامنے لائیں گے اور جناب زرداری کی حمایت میں خبروں کے علا وہ آرٹیکلز کی بھر مار ہو جائے گی۔ٹاک شوز اور سیا سی اور غیر سیا سی با توں اور کالموں میں جناب زرداری کے مخالفین کے خوب لتے لیے جائیں گے لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے پچاس کروڑ روپے میڈیا میں بانٹنے کی اس خبر کے بعد جس چینل کو بھی آن کرتے تھے، جس اخبار کو بھی دیکھتے تھے وہ پہلے سے بھی زیادہ پیپلز پارٹی کی مد مقابل جماعت کی مدح سرائی میں اسی طرح مصروف رہا جیسا کہ اس سے قبل رہتا تھا ۔ پچاس کروڑ روپے میڈیا میں تقسیم کئے جانے کی خبر چھپنے کے بعد جس کالم کو بھی دیکھتے تھے اس میں زیر سے لے کر زبر تک ہر نقطہ جناب زرداری کے خلاف نکلا اور سب ان کی '' کہیں حریف اور کہیں قریب‘‘ سیاسی قیادت کی مدح سرائی میں پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر مصروف تھے۔
کچھ لوگوں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے خبر دینے والے گروپ کو یہ اطلاع ملی ہو کہ یہ پچاس کروڑ روپے ان کو دینے کی بجائے کسی اور گروپ کو دے دیے گئے ہیں اور پیشہ ورانہ حسد میں انہوں نے یہ خبر چلا دی ہو لیکن پھر اس خیال کو بھی جھٹلایا دیا گیا کیونکہ سارا میڈیا یک زبان ہو کر پہلے سے بھی زیا دہ جناب آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کوبدنام کرنے میں ایک دوسرے سے نمبر لینے کی دوڑ میں لگا رہا ۔ ایک نجی چینل پر جب ایک جماعت کے میڈیا مین کو آن لائن کیا گیا تو ان کے کچھ کہنے سے پہلے اس پروگرام کے ایک میزبان کے چہرے پر اس مہمان کے لیے اس قدر خو د سپردگی تھی کہ دیکھنے والے سوچنے لگے کہ آخر اس انکساری کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ اس فون کال کے سامنے تین سو کلومیٹر دوربیٹھے ہوئے اس میزبان کا یہ حال ہے تو ان کے دربار میں حاضری کے وقت کیا حال ہوتا ہو گا؟۔
میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ آج جو کچھ کہہ رہا ہے اور جو کچھ کرر ہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا میں تقسیم کرنے کے لیے خفیہ فنڈ سے چار سال قبل حاصل کئے گئے وہ پچاس کروڑ روپے آخر کدھر غائب ہو گئے تھے؟۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جناب آصف علی زرداری نے خفیہ ایجنسی یا محکمہ اطلاعات کے خفیہ فنڈز سے یہ پچاس کروڑ روپے اس لیے نکلواکر میڈیا میں تقسیم کیے ہوں کہ اس کے بدلے میں ہر ٹی وی چینل پر انہیں خوب جی بھر کے گالیاں سنائی جائیں، ان کے خلاف اخبارات میں ہر طرح کا گند لکھا اور لکھوایا جائے؟۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پچاس کروڑ روپے لینے کے بعد بھی یار لوگ اپنے اپنے پروگراموں میں اونچی اونچی آوازوںسے پچاس کروڑ دینے والوں کو اسی طرح خوب برا بھلا کہتے رہیں؟ پچاس کروڑ کی خبر دینے والے کہیں جلدی میں تو نہیں تھے؟ کہیں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ان سے صحیح نام نہ پڑھا گیا ہو؟ کیونکہ جب سے اڑھائی ارب کی خبر باہر آئی ہے جس ٹی وی چینل کو دیکھیں وہ ایک ہی راگ الاپ رہا ہے، جس ٹاک شو کے میزبان کو دیکھیں اس نے اپنا سر کہیں اور جھکایا ہوا ہے، جس کالم نگار کو پڑھیں اس کے ہاتھ اور زبان سے کچھ اورہی قسم کی آواز نکل کر اپنی حقیقت بیان کر رہی ہے ۔ وہی لوگ جو کل تک تحریک انصاف کے حق میں بات کر رہے تھے ‘ اچانک انہیں اس پارٹی میں کیڑے دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ لوگ عمران خان کے پیغام کو حق پر مبنی قرار دیتے تھے لیکن اب انہیں یہ سب اچانک بھول گیا ہے۔ 
لیکن چار سال قبل جن پچاس کروڑ روپوں کا شور مچایا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی مشہوری کے لیے تقسیم کئے تھے وہ کہاں گئے ؟۔کیونکہ ہر لکھنے اور لکھانے والا زرداری صاحب کی شان میں وہی '' قصیدے ‘‘پڑھ رہا تھا جو آفتاب سلطان کے موجو دہ مالکان انہیں بھیجتے تھے؟۔ کیاان پچاس کروڑ روپوں کو اس ملک کی زمین کھا گئی تھی یا آسمان؟ ۔ میں نے یہی سوال جب اس ملک کے مایۂ ناز اور زمانہ شناس مفکر جناب ''گوگا دانشور ‘‘سے کیا تو وہ ہنس کر فرمانے لگے کہ اس کا جواب تو بہت ہی سیدھا اور سادا ہے۔ جناب گوگا کی یہ بات سن کر میں حیران ہوا کہ اس اہم ترین سوال کا جواب سیدھا سادا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس پر جناب گوگا کہنے لگے ''تمہارے پاس ٹی وی ہے‘‘ میں نے کہا ''یہ کیا بات ہوئی‘ ٹی وی تو اب جھونپڑی والوں کے پاس بھی ہے‘‘ اس پر جناب گوگا نے کہا ''ٹی وی دیکھو ۔۔۔‘‘ جناب گوگا کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے سار ا سارا دن اور رات تمام ٹی وی چینلز دیکھنے کے بعد اڑھائی ارب کی کرامات پر حیران رہ گیا ۔ اس تناظر میں آج جب چاروں طرف ڈھول بجانے والوں کاشور سنیں تو ''دھرنا مخالفین‘‘ کی ہی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ذرا سوچیں کیوں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved