تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی قوم کو جاگنا ہوگا۔ بحران اتنا بڑا ہے کہ اسے فقط لیڈروں پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ وہ تو کھوٹے سکّوں سے بھی بدتر ہیں ۔
یہ ایک بہت دکھ پہنچانے والی صورتِ حال ہے ۔ ان اداروں کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے ، جو بحران ختم کرنے میں مددگار ہو سکتے تھے۔میرا خیال تھااور اب بھی یہی ہے کہ میرے عزیز دوست جاوید ہاشمی کا مسئلہ عمران خان سے حساب برابر کرناہے ۔ اس قدر مگر وہ غیر محتاط ہوگئے کہ انہوں نے فوجی قیادت اور عدلیہ کی پوزیشن خراب کر دی ۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ عسکری قیادت کپتان کی پشت پناہ ہرگز نہیں اور چیف جسٹس کی دیانت پر انہیں مکمل بھروسہ ہے۔ دوسری طرف انہی کے فرمودات سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ بنیادی طور پر دونوں ادارے خرابی کے مرتکب ہیں ۔ خود اپنا سیاسی مستقبل انہوں نے تباہ کر لیا ہے اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو موقع دیا ہے کہ پاک فوج کو رسوا کریں ۔ این جی اوز کی سرخیل محترمہ عاصمہ جہانگیر نے اعلان کیا ہے کہ سکرپٹ اس کا لکھا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں کے لیے کام کرنے والے دانشور حرکت میں آگئے ۔ وہ جو اپنے وطن کے خلاف وعدہ معاف گواہ ہیں ، ہنر بیچتے اور آسودہ زندگیاں بسر کرتے ہیں ۔ نون لیگ کی خاموش حمایت انہیں حاصل ہے ، جو اس تبدیلی پہ شاداں ہے ۔ اس کے قلمی کارندے بھی اشارے کنایے میں وہی کچھ کہہ رہے ہیں ، جو این جی اوز کے سپوت۔ حکمران جماعت کو اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا مگر پاکستان کی رسوائی کا سامان ضرور ہوگا۔ عدالتِ عظمیٰ اور اس سے زیادہ فوجی قیادت کو غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان کے لیے کانٹے بونے میں کسی نے کسر اٹھانہیں رکھی ۔ تحریکِ انصاف اور نہ پاکستان عوامی تحریک اور نون لیگ نے۔ شاید یہ دنیا کا واحد ملک ہے ، جہاں سکیورٹی معاملات پر اس درجہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتاہے ۔
جاوید ہاشمی اب یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو عسکری پشت پناہی کا غلط تاثر دیا گیا ۔ اگر ایسا ہے تو انہیں اس انداز میں اظہارِ خیال کی ضرورت کیا تھی ؟ اتنی سادہ سی بات تو وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ اگر فوج نے نواز شریف کواکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو واقعات اس طرح ہرگز پیش نہ آتے ۔ ایسا کوئی منصوبہ درحقیقت موجود ہی نہ تھا مگر بھارت اور امریکہ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی عاصمہ جہانگیر اور ہمنوا تو بہرحال یہی کہیں گے ۔
آشکار ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم ہائوس پر چڑھائی کا یکسر غلط فیصلہ علّامہ طاہر القادری کی پیروی میں کیا۔ علّامہ پر بھروسہ کرنے کا ارادہ انہوں نے کس مرحلے پر اورکن لوگوں کے اکسانے پر کیا۔ انہیں فریب دیا گیا مگر نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اس وقت ،جب مذاکرات 85فیصد کامیاب تھے ، اس مہم جوئی کا مطلب کیا تھا؟ کیا علّامہ خارجی اشاروں پر حرکت میں ہیں؟ گویابیرونی طاقتیں ایک طرف تو نواز شریف کو تائید کا یقین دلاتی ہیں اور دوسری طرف مخالفین کو۔ ہدف کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ
پاکستان کو کمزور ترکرنا اور اس کے لیے مسلّح افواج کو دلدل میں دھکیلنا ۔ کیا یہ محض اتفا ق ہے کہ ٹھیک انہی دنوں بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر مسلسل گولہ باری میں مصروف ہے۔ اس اثنا میں پینٹاگان کے ایک بیان کو نظر انداز کر دیا گیا، جس میں پاک فوج کے ساتھ اور زیادہ قریبی تعلقات کی خواہش کا اظہار تھا۔ کیا یہ فریب دہی کی ایک کوشش تھی ؟ کیا وہ پاکستان کو عراق ، نائجیریا اور شام بنا نے کے آرزومند ہیں ؟ ایک اور سوال بے حد اہم ہے ، کہ عمران خان کی تحریک تو اصلاً انتخابی دھاندلی کے خلاف تھی ، پھر یکایک لانگ مارچ سے قبل انہوںنے وزیراعظم کے استعفے کو سب سے بڑا مطالبہ کیوں بنا دیا؟ کن لوگوں نے انہیں اس پر آمادہ کیا اور طاہر القادری کی طرح وہ اس قدر پُریقین کیوں نظر آنے لگے ؟ اس کے باوجو دکہ ان کے سب مطالبات مان لیے گئے اور خود وزیراعظم کے استعفے کو عدالتی تحقیقات سے مشروط کر دیاگیا، ان کا لہجہ تلخ سے تلخ تر کیوں ہوتا گیا؟ خودایف آئی آر درج ہونے کے باوجود طاہر القادری کا طرزِ عمل مزید جارحانہ کیوں ہو ا؟کیا کچھ لوگ ایک ہی مقصد کے لیے دونوں کیمپوں میں سرگرمِ عمل تھے ؟
لاہو رکے ایک اخبار نویس کا طرزِ عمل شکوک و شبہات پیدا کرتاہے ۔ ابھی کل تک وہ محتاط اور غیر جانبدار تھے مگر اب وزیراعظم کی حمایت میں وہ اس قدر پُرجوش ہیں کہ مکالمے کے شرکاء تو کیا، وہ ٹی وی کے میزبان تک کو بات کرنے نہیں دیتے ۔ ان صاحب کی ماہیتِ قلب کا سبب کیا ہے ۔ جاوید ہاشمی کا مقصود تو صرف یہ تھا کہ عمران خان کی تحریک سے خودکو الگ کر لیں اور اس کے ممکنہ منفی نتائج سے قوم کو آگاہ کردیں ۔ اگر وہ خود کو یہیں تک محدود رکھتے تو ان کے وقار میں اضافہ ہوتا اور ان کی اصول پسندی کی تحسین کی جاتی ۔ وہ مگر بہت دور نکل گئے ۔ بہت پہلے میں نے عمران خان کو متنبہ کیا تھاکہ وہ لاہور کے اس اخبار نویس سے محتاط رہیں مگر احتیاط ان کی سرشت میں کہاں ہے ۔رہی مردم شناسی تو وہ انہیں چُھو کر بھی نہیں گزری۔
یہ ایک خطرناک اور شرمناک صورتِ حال ہے ۔ دوسرے عوامل کے علاوہ شاید یہ اس لیے بھی پیدا ہوئی کہ پاک بھارت اور پاک افغانستان تعلقات کے باب میں امریکیوں کا ایک ایجنڈا ہے۔ برطانیہ کی مدد سے جس پر وہ برسوں سے کام کر رہے ہیں ۔ این آر او برطانوی وزارتِ خارجہ کی پسِ پردہ کوشش ہی سے وجود میں آیا تھا‘ جس کی سترھویں شق یہ کہتی ہے کہ پاکستان کسی تعصب کے بغیر بھارت اور افغانستان سے اچھے مراسم برقرار رکھے گا۔ ''تعصب‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ ہی کر گزریں، پاکستان ایک مسکین کا سا طرزِ عمل اختیار کیے رکھے گا۔ تو کیا امریکیوں کا منصوبہ یہ ہے کہ نواز شریف کو قوّت بخش کر ، پاک فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا جائے ۔ تہہ در تہہ سازشوں کا مطالعہ کرنے کے عمل میں این جی اوز کے فرزندوں کوملحوظ رکھنا چاہیے، جن پر ایک سو ارب روپے سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں ۔ ان میں سے بعض نے واویلا شروع کیا ہے کہ پاک فوج وزیرستان آپریشن پر آمادہ ہی نہ تھی ۔ سب جانتے ہیں کہ اس کے برعکس یہ نواز شریف تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ لاہور کے ابن الوقت اخبار نویس ، علّامہ محمد احمد لدھیانوی ، محمود خان اچکزئی اور پیپلز پارٹی آج ایک ہی صف میں کھڑ ے ہیں ۔ کیا خورشید شاہ کی جوش و جذبے سے بھری تقاریر کا مفہوم وہی تھا، جو بظاہر دکھا ئی دیا؟
ایک نازک سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایس آئی کے بعض افسر شرارت کے مرتکب ہیں ؟ اگر ہیں تو کیوں ؟ جنرل راحیل شریف اگر کھوج لگانے کا تہیہ کر لیں تو چند روز میں تعین ہو سکتاہے ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو اپنے ادارے کو انہوں نے بدترین دشمنوں سے زیادہ نقصان پہنچایا ۔ بحران ختم کرنے میں فوج کی قوّت ، اس کی غیر جانبداری اور یقینی انصاف کے لیے عدلیہ کا انحصار اس کی نیک نامی پر تھا۔ اسے نقصان پہنچانے کا ذمہ دار کون کون ہے ؟
کچھ بھی ہو، یہی ادارے قوم کو دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ اس نکتے سے یہ بھی واضح ہے کہ انہی کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی قوم کو جاگنا ہوگا۔ بحران اتنا بڑا ہے کہ اسے فقط لیڈروں پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ وہ تو کھوٹے سکّوں سے بھی بدتر ہیں۔