تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     05-09-2014

میری بقا کس میں ہے ؟

مجھے ایک دوست نے بتایا جمہوریت خطرے میں ہے۔
جب میں نے پوچھا کون سی اور کس کی جمہوریت تو جواب ملا، نواز شریف صاحب کی جمہوریت، تو پھر یاد آیا کہ واقعی میں بھول گیا تھا، اس ملک میں تو پچھلے چودہ ماہ سے اصلی جمہوریت جاری ہے۔ 
وزیراعظم نواز شریف کی جمہوریت خوش قسمت ہے کہ اس کو بچانے کے لیے ہم صحافی بھی دھرنے دے رہے ہیں، جب کہ ہم صحافی ہی زرداری گیلانی حکومت ختم کرنے کی روزانہ نئی تاریخیں دیتے تھے کیونکہ وہ جمہوریت ہماری مرضی کی نہیں تھی۔ وزیراعظم نواز شریف تو اتنے خوش قسمت ہیںجن صحافیوں کو مار مار کر دنبہ بنا دیا گیا وہی ان کے حق میں دھرنے دے رہے ہیں ۔ 
اس دوست نے ڈرتے ڈرتے مجھے کہا، امریکہ سے لوٹنے کے بعد میری باتوں اور کالموں سے یہ تاثر ملنا شروع ہوگیا ہے کہ میں جمہوریت دشمن ہوگیا ہوں۔ میں نے کہا، شکر ہے ابھی تک امریکی ایجنٹ کا الزام نہیں لگا یا بغاوت کا مقدمہ درج نہیں ہوا کیونکہ آج کل جمہوریت پسند بغاوت کے مقدمے سے کم پر راضی نہیں ہوتے اور یہ وہ کام ہے جو کبھی انگریز سرکاری شودر ہندوستانیوں کے ساتھ کرتی تھی۔
اس دوست نے کہا تم جمہوریت بچانے کے لیے اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتے؟ میں نے کہا پاکستان برانڈ جمہوریت بچانے کے لیے ایک کام کر سکتا تھا جو میں نے دل و جان سے کیا ہے۔ میں نے سیاستدانوں کے سکینڈلز اور حکمرانوں کی کرپشن کی ہوشربا داستانیں بیان کرنا بند کر دی ہیں تاکہ جمہوریت قائم رہے اور لوٹ مار چلتی ہے۔ وہ دوست فوراً بولا، یہ تو آپ زیادتی کررہے ہیں۔ اپنے پیشے سے بددیانتی کررہے ہیں۔ آپ بھی لفافہ؟ میں نے کہا، حضور کیا کروں۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے اچانک محسوس ہوا کہ ان سکینڈلز کی وجہ سے اداروں ، کرپشن اور کرپٹ افراد کو تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا لیکن جب میں اپنا کالم ٹویٹر اور فیس بک پر شیئر کرتا تو جو کمنٹس آتے، ان سے میں ڈر گیا۔ مجھے لگا میں آگ لگانے والا کام کررہا ہوں ۔ وہ دور گزر گئے جب پاکستان میں چار اخبارات اور ایک پی ٹی وی ہوتا تھا اور دنیا مست ہوتی تھی۔ اب تو ہماری نئی نسل ٹویٹر سے بھی آگے نکل گئی ہے... اب وہ سب جانتے ہیں اور ان میں نفرت بڑھ رہی ہے کہ اس ملک کو کیسے یہ بیوروکریٹس، اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان لوٹ رہے ہیں ۔ اس لیے بہتر ہے کہ سکینڈلز کو گولی ماریں اور ویسے بھی آج تک کس کا کچھ بگڑا ہے کہ اب بگڑ جائے گا ۔ کیسے کیسے لیڈر ہیں جن پر کرپشن کے ثبوت عدالتوں میں پیش ہوئے لیکن وہ وکٹری کے نشانات بنا کر نکل گئے اور آج کل پھر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ 
امین فہیم کے خلاف ثبوت کی ضرورت تھی جب چار کروڑ روپے اہلیہ کے اکائونٹ سے نکل آئے؟ یا پھر مونس الٰہی کے خلاف این آئی سی سکینڈل میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا کہ برطانوی بینکوں میں پڑے پندرہ لاکھ پائونڈز واپس لائے جائیں؟ انجم عقیل خان کے چھ ارب روپے سکینڈل پر فیصلہ دبانے کا کام ہویا پھر آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سیاستدانوں کے کارناموں کی تفصیل... کچھ ہوا؟ 
دوست بولا، پھر بھی یار تم تو اپنا کام کرو...! میں نے کہا، جب کام کرتا ہوں تو آپ کہتے ہو جمہوریت کے دشمن ہو اور کرپشن کی کہانیاں سنا کر جمہوریت کے دشمنوں کو مضبوط کررہے ہو۔ اسی لیے تو یہ کام بند کر دیا ہے۔ جب سب ادارے، لوگ اور سیاست دان ایک دوسرے سے مل کر اس ملک کو نوچ رہے ہیں اور سب ایک دوسرے کی کمر پر خارش کرتے ہیں تو پھر میں کیوں اس ملک کی نئی نسل میں اپنے سکینڈلز فائل کر کے زہر اور نفرت بڑھائوں۔ جیسا ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر جو چل رہا ہے، اسے چلنے دیں۔ 
وہ کہنے لگا، کہ پھر کیا ہوگا؟ میں نے کہا، ہونا کیا ہے۔ ہم صحافی بہت خوش بخت ہوتے ہیں اور اسلام آباد رہنے والے تو مزید خوش قسمت۔ کوئی بھولا بھٹکا وزیر، کوئی نظر انداز کیا گیا ایم این اے، یا کوئی پرانا سیاستدان شام کو مجھے چائے پر بلائے، یا کچھ آموں کی پیٹیاں گھر بھجوا دے ، تھوڑا سا ڈرامہ کرے کہ وہ میرے کالم پڑھتا ہے یا پھر مارننگ ٹی وی شوز دیکھتا ہے تو میں دل و جان سے اس کا ہوجاتا ہوں۔ وہ اگر فلیٹ سے نکل کر مجھے باہر تک چھوڑنے آجائے تو اپنی عزت میری آنکھوں میں بڑھ جاتی ہے۔ میں گھر میں بات بات پر اس وزیر کا حوالہ دوں گا اور جب گائوں یا سسرال سے رشتہ دار آتے ہیں تو میری بیوی اور بچے بھی اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ مجھے علم ہے گائوں میں کوئی سپاہی واقف نکل آتا تو میں پورے گائوں کو آگے لگا لیتا، یہاں تو وزیراعظم تک سے میری جان پہچان ہے اور شاید گیلانی صاحب سے تو دوستی تک ہوجاتی ہے۔ میرے نزدیک بڑا صحافی وہ ہوتا ہے جس کے حکمرانوں سے تعلقات ہوں۔خبر لینے کے لیے نہیں،بلکہ اپنے پاپی من کو خوش کرنے کے لیے۔ 
یہ وہ تڑکا ہے جو سیاستدان میرے جیسے صحافی کو لگاتا ہے اور میں اس کا ہورہتا ہوں۔ پھر میں بھول جاتا ہوں کہ وہ سیاستدان یا ایم این اے ہر ماہ ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتا ہے۔
پھر اگر وہ میرا دوست ایم این اے یا وزیر کرپشن کرے گا تو میں کہوں گا، دیکھیں یار جمہوریت میں یہ تو ہوتا ہے۔ کرپشن کہاں نہیں ہوتی۔ یہ نہیں بتائوں گا کہ شرفاء کے ملکوں میں جہاں کرپشن سامنے آجائے تو پھر جاپان جیسے ملک میں وزیراعظم خودکشی کر لیتے ہیں۔ اگر اعتراض ہو کہ یہ لوگ ہر ترقیاتی فنڈ میں سے کم از کم سولہ فیصد کمیشن کھاجاتے ہیں تو میں جواب دوں گا، یار اب تم بھی فرشتے چاہتے ہو جو اس ملک پر حکومت کریں۔ کیا ہوگیا ہے، چھوٹا موٹا تو چلتا رہتا ہے۔ اگر کوئی کہے گا کہ پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز لکی مروت میں بیچ ڈالے اور ایک کروڑ پر بیس لاکھ کمائے تو کہوں گا، ثبوت لائو۔ اگر ثبوت پیش کر دیے گئے تو جواب میں کہوں گا تو کیا ہوا، لکی مروت کوئی ہندوستان میں تھوڑی ہے۔ پاکستان کا ہی حصہ ہے۔ جب بتایا جائے گا کہ جناب وہاں لکی مروت میں صرف واٹر پمپ کی سکیم ہی کیوں ہے جو ہر ایم این اے شروع کراتا ہے اور پھر وہ غائب ہوجاتی ہے تو جواب ہو گا، یار سیاست میں سب چلتا ہے۔ اگر کوئی یاد دلائے گا کہ یار نواز شریف لندن اور جدہ میں تو قسمیں کھاتے تھے کہ وہ آئندہ جنرل مشرف کے ساتھیوں کو قریب نہیں آنے دیں گے اور نئی شروعات کریں گے تو جواب ہوگا آپ کیا چاہتے ہیں وہ انقلابی بن جائیں؟ انقلابیوں کا حشر جانتے ہیں آپ؟ یہ بڑھک بھی میں ماروں گا کہ میاں صاحب تو نہیں مانتے تھے بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا گیا۔ ہاں لندن میں آپ درست گفتگو فرمایا کرتے تھے کہ وہاں یہی گفتگو بکتی تھی۔ پاکستان جیسے ملکوں میں اصولی گفتگو تو لوگ اب اکیلے میں بھی ایک دوسرے سے نہیں کرتے۔ یہ سب نعرے اپوزیشن کے دنوں میں ہوتے ہیں۔ 
جب مجھے کوئی کہے گا کہ جناب سیاست میں عزت نفس، کردار، وعدہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ آخر وزیراعظم کیسے آفتاب شیرپائو سے وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر مشورے کرتے ہیں جو اس وقت جنرل مشرف کے وزیرداخلہ تھے جب نواز لیگ کے ورکرز کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر نواز شریف کے استقبال سے روکنے کے لیے تشدد کیا گیا تھا؟ تو جواب ہو گا یار تم بھی کیسے انسان ہو۔ سیاست میں بھلاکوئی مستقل دوست اور دشمن تھوڑی ہوتے ہیں؟یہ تو صرف مفادات ہوتے ہیں جو مستقل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کہے گا کہ اس نے خود میاں صاحب کو ایئرپورٹ پر کہتے سنا تھا کہ جو لوگ انہیں جنرل مشرف کے کہنے پر ذلیل کررہے ہیں انہیں بھگتنا پڑے گا، تو جواب ملے گا کہ جناب اپوزیشن اور اقتدار کی سیاست میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ آپ سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ویسے بھی توہین نواز شریف کی ہوئی تھی اور اگر انہوں نے معاف کر دیا ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟
 
اگر کوئی اعتراض کرے گا کہ یہ کون سی جمہوریت ہے جس میں پورا خاندان عہدوں پر فائز ہوجاتا ہے تو جواب دوں گا کہ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ہے۔ ان کی مرضی جس کو چاہیں عہدے دیں۔ ویسے بھی عہدوں پر اپنے وفادار لگائے جاتے ہیں اور خاندان سے زیادہ کون وفادار ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی مجھے کہے گا کہ دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے بغیر کسی قسم کی جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے تو میں جواب دوں گا‘ چھوڑو یار۔ ناظم تو تھے ہی کرپٹ۔ ہاں، میں اس بات کا جواب نہیں دوں گا کہ آیا اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں بیٹھے سیاستدان، بابو اور باقی لوگ فرشتے ہیں؟ اور وہ کرپشن نہیں کرتے؟ یا کوئی پوچھے گا کہ کس ناظم کی بیوی کے اکائونٹ سے چار کروڑ نکلے تھے؟یہ تو بتائو، میں خاموش رہوں گا۔ میں کسی بھی بات پر قائل نہیں ہوں گا، کیونکہ مجھے علم ہے کہ اسلام آباد میں میری آن بان شان انہی سیاستدانوں اور ان کی شاموں کی وجہ سے ہے جہاں وہ مجھ سے دوستی کا دم بھرنے کی اداکاری کرتے ہیں، میرے نخرے اٹھاتے ہیں،سنجیدہ اداکاری کرتے ہوئے میرے الٹے پلٹے تجزیے سنتے ہیں، چاہے اندر سے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہی کیوں نہ ہوتے ہوں کہ کیا ''چولاں‘‘ مار رہا ہے۔ وہ ہر سال میرے گھر آم بھجواتے ہیں۔ ان کی وجہ سے میری اپنے رشتہ داروں میں بھی عزت بلکہ ٹوہر بنی رہتی ہے۔ راز کی بات بتائوں؟ ایک دن وزیراعظم گیلانی نے قومی اسمبلی میں کہہ دیا کہ میں ان کا دوست ہوں، یقیں کریں پوری رات خوشی سے نیند نہیں آئی۔ 
یہ ہے میرے جیسے صحافی کی اوقات ! 
لہٰذا اس طرح کی جمہوریت جو ان سیاستدانوں کو سوٹ کرتی ہے وہ مجھے بھی سوٹ کرتی ہے کیونکہ اسٹیٹس کو سب کو سوٹ کرتا ہے۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ نئی چیز اوراندھیرے سے ہر کوئی ڈرتا ہے لہٰذا میں بھی ڈرتا ہوں۔ اگر یہ اسٹیٹس کو ختم ہوا تو مجھے ڈر ہے اپنا یہ مقام ضائع نہ کربیٹھوں۔ لہٰذا میں انقلاب تو دور کی بات، نظام میں بہتری تک کی تبدیلی کی حمایت نہیں کرتا، جو ہو سکتا ہے اس معاشرے اور ملک کو بہتر بنا دے لیکن کیا پتہ میں تباہ ہوجائوں۔ لہٰذا اگر کوئی میرے ان دوست حکمرانوں پر تنقید کرتا ہے تو میں ایسے ناقدوں کو بڑے آرام سے جمہوریت دشمن، فوج اور امریکہ کا ایجنٹ بھی قرار دے دیتا ہوں کیونکہ مجھ جیسے سازشی تھیوریوں پر زندگی گزارنے والے خوفزدہ صحافی کی اپنی بقا اسی میں ہے کیونکہ اب میں خود ایک اسٹیس کو ہوں !
اب میرے اور میرے دوست سیاستدانوں کے مفادات مشترک ہوگئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved