تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-09-2014

مکالمہ… I

میرے گھر کے چار ووٹ درج ہیں۔ ایک میرا اور تین میری بیٹیوں کے۔ 2013ء کے الیکشن میں ان چار ووٹ میں سے تین ووٹ کاسٹ ہوئے۔ یہ تینوں ووٹ میری بیٹیوں کے تھے۔ میری کسی بیٹی کو سیاست سے رتی برابر دلچسپی نہیں تھی۔ عام حالات میں وہ ووٹ ڈالنے کا تصور بھی نہ کرتیں مگر انہوں نے اس الیکشن میں اپنے ووٹ کا پتہ کرنے‘ پولنگ سٹیشن کی معلومات لینے اور اپنی یونین کونسل کا پتہ کرنے کے لیے بذریعہ موبائل فون اپنا شناختی کارڈ نمبر الیکشن کمیشن کے دیے گئے نمبر پر بھیج کر پوری تسلی کی کہ ان کا ووٹ درج ہے اور کہاں جا کر کاسٹ کرنا ہے۔ انہیں اپنے حلقے میں شاید کسی امیدوار کا نام بھی نہیں آتا تھا۔ میں نے ازراہ مذاق ان سے قومی اور صوبائی حلقوں پر کھڑے امیدواروں کا نام پوچھا تو ان تینوں میں سے کسی کو بھی ایک دو امیدواروں کے علاوہ کسی کا نام نہیں آتا تھا۔ بلکہ صرف درمیان والی بیٹی کو ہی ان دو تین امیدواروں کا نام آتا تھا۔ یہ نام بھی اس نے گھر کے آس پاس لگنے والے رنگین پوسٹروں‘ بینروں اور پینا فلیکس وغیرہ پر پڑھے تھے۔ 
میں گھر کا واحد ووٹر تھا جس نے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ یہ مجبوری تھی۔ میں الیکشن ٹرانسمیشن کے سلسلے میں لاہور میں تھا اور دنیا ٹی وی پر ہونے والے تجزیوں اور تبصروں میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ 2008ء کے الیکشن کے دوران میں یہی کام کراچی میں کر رہا تھا۔ ان دو الیکشنوں کے علاوہ میں نے ہر الیکشن میں (جب سے میرا ووٹ درج ہوا ہے) ووٹ ڈالتا رہا ہوں۔ یہ ووٹ ڈالنا ایک علیحدہ قصہ اور اس پر کبھی پھر سہی‘ فی الحال تو الیکشن 2013ء کی بات ہو رہی ہے۔ میری بیٹیاں ووٹ ڈالنے پر مصر تھیں اور مجھے لاہور جانا تھا۔ منجھلی بیٹی نے باقی دونوں بہنوں کو تسلی دی اور بتایا کہ ہمارا پولنگ سٹیشن گھر سے محض سو گز دور واقع پرائمری سکول میں ہے‘ ہم وہاں خود ہی چلی جائیں گی۔ میں نے لاہور جانے سے قبل ایک بار پھر اپنی بڑی بیٹی سے ازراہ مذاق پوچھا کہ حلقہ این اے 151 ملتان IV میں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدوار کون ہیں تو اس نے جواباً ہنس کر کہا کہ اسے امیدواروں کا تو پتہ نہیں لیکن اسے یہ پتہ ہے کہ اس نے مہر کہاں لگانی ہے۔ میرے گھر کا ووٹنگ ٹرن آئوٹ پچھتر فیصد تھا اور تمام ووٹروں نے بلے پر مہر لگائی۔ اس طرح ٹرن آئوٹ کا سو فیصد تحریک انصاف کے حق میں تھا۔ 
کل شام میری منجھلی بیٹی گھر آئی تو آتے ہی مجھ سے کہنے لگی کہ یہ جاوید ہاشمی نے کیا کیا ہے؟ میں نے پوچھا کیا کیا ہے؟ وہ تھوڑی غصے میں تھی‘ کہنے لگی آپ کو پتہ تو سارا ہے آپ پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟ جاوید ہاشمی نے بہت برا کیا ہے۔ اسے پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں نے پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پوچھا۔ مثلاً کیا نہیں کرنا چاہیے تھا؟ کیا اسے پارلیمنٹ ہائوس پر دھاوے میں عمران کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟ کیا اسے پی ٹی وی پر قبضے میں طاہرالقادری کے مریدوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟ کیا اسے مارشل لاء کے حالات پیدا کرنے میں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کینیڈین شہری کے ہمراہ جمہوریت کا بستر گول کرنے کی کاوشوں میں حصہ ڈالنا چاہیے تھا؟ کیا اسے وزیراعظم کے استعفے کے لیے غیرآئینی دھونس دھاندلی کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟ کیا اسے صرف چند ہزار لوگوں کے اکٹھے کر لینے سے وزیراعظم کو غیرآئینی طریقے سے گھر بھیجنے کا مطالبہ کرنے اور اس پر بلاجواز اصرار کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟ کیا اسے حساس عمارتوں کا محاصرہ کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟ اسے آخر کیا کرنا چاہیے تھا؟ میری بیٹی کہنے لگی۔ مجھے ان سب باتوں کا کچھ پتہ نہیں لیکن عمران خان کے ساتھ کسی کو‘ اور خاص طور 
پر اس کی پارٹی کے صدر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں نے پوچھا کیا تمہارے خیال میں عمران خان جو کچھ کر رہا ہے وہ درست ہے؟ وہ کہنے لگی مجھے زیادہ علم تو نہیں مگر میں یہ جانتی ہوں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور عمران خان کے ساتھ ہوئی ہے۔ عمران ا س دھاندلی کی پیداوار اسمبلی اور اس اسمبلی کے منتخب کردہ وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہا ہے جو بالکل درست ہے۔ میں نے کہا اس حد تک تمہاری بات بالکل درست ہے۔ دھاندلی ہوئی ہے‘ اسمبلی میں دھاندلی یافتہ ممبران بیٹھے ہیں۔ دھاندلی کی چھان بین کا مطالبہ درست ہے۔ وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی غیر آئینی نہیں ہے لیکن طریقہ کار غلط ہے۔ ملک اس انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب اس طریقہ کار کے نتیجے میں‘ اس دھرنے سے‘ اس ساری مارکٹائی سے کیا ہوگا؟ دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ عمران اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا اور دوسری یہ کہ ناکام ہو جائے گا۔ اب ان دونوں باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
پہلی صورت یہ کہ عمران کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کامیابی کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ نوازشریف استعفیٰ دے دے۔ اسمبلیاں توڑ دے اور مڈٹرم الیکشن کروا دے۔ ایسی صورت میں وہ مظلوم بن کر عوام میں جائے گا اور اس ڈرامے سے لوگوں کی ہمدردیاں بٹورے گا۔ اس کمبخت عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہے اور رقیق القلبی کا یہ عالم ہے کہ ہر ظالم کو مظلوم کا ڈرامہ کرنے پر ہمدردی کے ووٹ عطا کر دیتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس سارے کھڑاک میں مارشل لا لگ جائے یا نظام تلپٹ ہو جائے۔ ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک شخص اس ملک کی سیاست میں عمران سے پہلے بھی کرپشن اور ناانصافی کے خلاف اٹھا تھا۔ وہ شخص کھرا‘ سچا‘ صاف کردار کا حامل‘ کرپشن سے مبرا‘ منہ پر سچ بولنے والا اور قومی ہیرو تھا۔ بالکل عمران جیسا۔ اس کی پارٹی کی اٹھان بڑی زبردست تھی۔ تحریک انصاف جیسی بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے اوپر آنے والی۔ اس کی پارٹی میں کیسے کیسے لوگ تھے۔ خود میاں نوازشریف‘ جاوید ہاشمی‘ منظور وٹو‘ شیخ رشید‘ اعتزاز احسن‘ فخر امام‘ خورشید محمود قصوری‘ معراج محمد خان اور دیگر کئی ایسے بلند قامت لوگ جو اب اس دنیا میں نہیں۔ جلسے ہوتے تھے تو لوگ اسے سن کر سر دھنتے تھے۔ لاکھوں کا مجمع اسے سنتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ مارشل لا لگ گیا۔ ضیاء الحق کا مارشل لا۔ وہ مارشل لا کے بعد ڈکٹیٹر کی ٹیم میں شامل ہو گیا۔ اور بس۔ پھر وہ ماضی کا قصہ بن کر رہ گیا۔ تمہیں شاید اس کا نام بھی نہ آتا ہو۔ وہ اب بھی حیات ہے۔ اس کا نام ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان ہے۔ تم ایک اور کہانی سنو۔ ایک وزیراعلیٰ تھا پنجاب کا۔ ملتان میں کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ بنایا۔ چلڈرن کمپلیکس بنایا۔ برن یونٹ بنوایا۔ ڈینٹل کالج بنایا۔ صوبے میں 1122 سروس شروع کی۔ 15 کی سہولت متعارف کروائی۔ ہائی وے پولیس بنائی۔ جنوبی پنجاب میں ایسی ترقی کروائی کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس نے نعرہ لگایا کہ ڈکٹیٹر کو دس بار وردی میں صدر بنوائوں گا۔ ساری ترقی‘ سارے منصوبے اور سارے کام دھرے کے دھرے رہ گئے الیکشن میں وہ حشر ہوا کہ الامان۔ یہ پرویز الٰہی تھا۔ اگر عمران کے جاری اس انتشاری دھرنے کے باعث مارشل لاء لگ گیا تو عمران کا سیاسی کیریئر‘ ساری جدوجہد‘ ساری کامیابیاں اور اس سے بڑھ کر شاندار سیاسی مستقبل‘ سب کچھ ختم سمجھو۔ ویسے بھی مارشل لا لگا یا نظام لپٹا تو کئی سال چھٹی سمجھو۔ نئی پارٹی میں آنے والے مسافر پنچھی مثلاً جہانگیر ترین‘ شاہ محمود‘ خورشید قصوری‘ پرویز خٹک اور اسی قبیل کے دوسرے لیڈر‘ سب اڑن چھو ہو جائیں گے۔ بھلا برسوں کون انتظار کرتا ہے؟ 
اور اگر ناکام ہو گیا تو... یہ سوچ کر ہی خوف سے جھرجھری آ جاتی ہے کہ یہ ملک پھر انہی دو لٹیروں کے درمیان شٹل کاک بنا رہے گا؟ ہم انہی کی حکمرانی میں زندگی گزاریں گے اور اسی استحصالی نظام میں زندگی کا اختتام کریں گے۔ عمران کے پاس اب بھی وقت ہے۔ وہ بڑے لوگوں کی طرح اپنی غلطی تسلیم کر سکتا ہے۔ اس کے پاس اس سارے نقصان کو‘ جس کا ذمہ دار بھی خود ہے پورا کرنے کے لیے وقت بھی ہے اور صلاحیت بھی مگر اس کے لیے انا کے خول سے میرا مطلب ہے جھوٹی انا کے خول سے نکلنا ہوگا۔ تکبر اور خودپرستی سے نکلنا ہوگا۔ جمہوریت کا شور مچانے والوں کو خود بھی جمہوری اقدار پر عمل کرنا ہوگا۔ بادشاہت کے خلاف نعرہ زنوں کو خود بھی شاہانہ اور مطلق العنان رویے سے باہر نکلنا ہوگا۔ یہ مشکل کام ہے مگر اس سے کہیں کم مشکل ہے جو کام دو پارٹی سسٹم کو چیلنج کر کے عمران کر چکا ہے۔ پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ ''گر کر بکھرنے والے بیروں کا کچھ نہیں بگڑتا‘‘۔ ابھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں مگر کب تک؟ اڑتالیس‘ بہتر یا کچھ مزید گھنٹے۔ خواہ جیت ہو یا ہار۔ انجام کار نقصان اور صرف نقصان۔ فائدہ صرف برابر چھوٹنے میں ہے مگر اس کے لیے صرف ایک قدم پیچھے ہٹنے کی ہمت کرنی ہوگی۔ یہ ایک قدم برسوں کا نقصان بھی کر سکتا ہے اور تاریخ میں نام بھی لکھوا سکتا ہے۔ فیصلہ خان کے ہاتھ میں ہے۔ (جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved