تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-09-2014

ابرار احمد کی نظمیں

روشنی میرے اندر ہے 
عجب خواب تھا... جو تری نرم آنکھوں سے بہتا چلا جا رہا تھا... کہیں نیند کے ایک جھونکے کی صورت۔ بہت نیلا پانی تھا... پانی جسے میں نے سوچا بہت تھا... زمیں پر مگر پہلے دیکھا نہیں تھا... وہ کیا لمس تھا... جس میں دیوانگی جیسی لرزش تھی... اور ایسی لذت... کہ جس پر زمانے نچھاور۔ وہاں چار سُو غیر آبادیاں تھیں... کھنڈر تھے... قدامت کے آثار تھے... ریت پر پائوں دھنستے گئے تھے... وہیں پر پڑے ہیں۔! وہ مہکار تھی چار سُو... جیسے شالاطؔ... سارے میں بکھری ہوئی... بال کھولے ہوئے پھر رہی ہو... وہیں خواب تھا... جس نے امجدؔ کو اپنی پکڑ میں لیا... وہ مٹی میں مٹی۔ یہ کب جانتا تھا... ہوا کا کوئی بھی ٹھکانہ نہیں ہے... وہ اگلے دیاروں کو مہکانے... کب کی نکل بھی چکی ہے۔ وہ ہر رات لکھنے کو خط سوچتا... اجنبی بے نشاں منزلوں کی طرف پھینک دیتا... وہ لفظوں کے پیکر بناتے ہوئے... روز جیتا رہا‘ روز مرتا رہا... وہ بھاگا۔ اندھیرے کے پیچھے... زمیں آسماں کے کناروں تلک... تیز سائیکل چلائی... اور آخر کو لوٹا... کہ دندانے ٹوٹے پڑے تھے... وہ جیمیؔ یا شالاطؔ ہو... واقعہ ہو کہ ہو خواب کوئی... اسے دیکھتی ہیں جو آنکھیں... وہی جانتی ہیں... وہی دل سمجھتا ہے اس بھید کو... جس کے اسرار کو عمر بھر جھیلتا ہے... مگر۔ غیر ممکن سا یہ خواب میرا... ہے میرے زمانے کا پرتو... ذرا مختلف وقت کے دائرے میں رُکا... یہ شبستاں مرے گرد پھیلا ہوا ہے... اِدھر سے اُدھر... سر کو ٹکرا رہا ہوں... میں یکدم بکھرتی ہوئی نیند میں... بہت دور تک بے اماں تیرگی ہے... مگر یوں بھی ہے... میں اس میں چمکتا ہوا راستہ دیکھتا ہوں... نئی منزلوں کی طرف... میں ٹھہرا رہوں گا نواحِ محبت میں۔ ترے خواب کو... طاق میں رکھ کے دیکھا کروں گا... اسے اپنی وحشت سے ڈھانپے رہوں گا... کہ جینا غضب ہے... اسی رنگِ شب میں... اگر روشنی ہے... تو وہ میرے اندر ہے... باہر نہیں ہے! 
بیاں ممکن نہیں ہے 
جو سر میں بھر گئے ہیں... انگلیوں میں سرسراتے... آنکھ میں کانٹے اگاتے ہیں... انہی لفظوں سے لکھ دیکھو... بیاں ممکن نہیں ہے... اس کا... جو تم جھیلتے ہو... کہ پہلی آنکھ کھل جانے سے... لمبی تان کر سونے کا عرصہ بوجھ ہوتا ہے... سو کندھے ٹوٹتے‘ ٹخنے تڑختے ہیں... دکھن ہوتی ہے... بوجھل پن میں... گرتی گونج چکراتی ہے... برتن ٹوٹتے‘ بجتے ہیں... بجتے‘ ٹوٹتے رہتے ہیں... آنگن میں‘ رسوئی میں... کوئی صورت بدلتی دُھند سی ہے... گھاس کے تختوں پہ... کیچڑ سے بھری راہوں میں... چکنے فرش پر... دن کی سفیدی میں... سنہری خواب کے لہراتے اندر میں... تمہاری ہی طرح کے لوگ... بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں... راستوں پر... بے حیائی سے... بہت تذلیل کرتے ہیں... کوئی ملبوس ہو... کوئی قرینہ ہو... اُدھر جاتی ہے آخر کو۔ کناروں پر ہے خاموشی... چھدی تاریکیاں ہیں... کیا کرن کوئی تمہاری ہے؟ کوئی آنسو‘ کوئی تارہ... تمہیں راستہ دکھائے گا؟... کوئی سورج تمہارے نام سے چمکے گا آخر کو؟... حقیقت تھی سوالِ اولیں اور بس... اور ا س کے بعد میں کیا ہے؟ فقط خفت ہے... ننگی بے حیائی ہے‘ ڈھٹائی ہے... جیے جائو ندامت میں... مگر لکھتے رہو... دیوار سے سرمار کر۔ کہ عظمت خبط ہے... اک واہمہ ہے... یہ لہو کی رقص کرتی گنگناہٹ بھی... کہ دانائی بھی اک بکواس ہے... آواز بھی‘ چُپ بھی... یہاں ہونا نہ ہونا بھی وہی قصہ پرانا ہے... تو پھر لکھتے رہو بیکار میں... بیگار میں لکھتے رہو... کیا فرق پڑتا ہے!!؟ 
پھینک دے تیشہ اپنا 
کوہ کن! پھینک یہ تیشہ اپنا... سر کو ٹکرا کے بہت دیکھ لیا... پتھروں سے کبھی آنسو نہیں ٹپکا کرتے... اک جنوں سے... کبھی نہریں نہیں نکلا کرتیں... ترے ہاتھوں میں سکت... دل میں وہ وحشت نہ رہی... بیٹھ چشمے کے کنارے پہ... بہا دے آنسو... بھر لے آنکھوں میں یہ سبزہ... یہ مہکتا منظر۔ آ اِدھر لوٹ زمینوں کی طرف... اپنی بستی کو پلٹ... اپنے مکینوں کی طرف... اپنے پھولوں کی طرف دیکھ... انہیں ہاتھ لگا... اُٹھ کے بڑھ اپنوں کی جانب... جو تری راہ میں تھے... اور غیروں پہ نظر کر اپنی۔ یہ جو رونق ہے... لکپتی ہے‘ لپٹتی ہے ہر اک دامن سے... کوئی دن اس سے نمٹ... اس کے اندر سے گزر... خاک اوڑھے ہوئے... خوابوں سے لدی آنکھوں سے... اور یک رنگ شب و روز میں ٹھہری دنیا... جتنی بھی ادنیٰ ہے‘ معمولی ہے... چھوڑ تکرار‘ گوارا کر لے... جو بھی موجود ہے... اب اس کا نظارہ کر لے... اپنی بے سُود محبت سے کنارہ کر لے! 
آخری بارش 
ایک محبت کے باطن میں... کتنے جذبے مہک رہے ہیں... ایک چمکتے مُکھ میں... کتنے چاند ستارے دمک رہے ہیں... جاگنے کی ساعت کے اندر... کتنی صدیاں سوئی ہوئی ہیں... دلوں میں اور دروازوں میں... کہیں ابھی موجود ہیں شاید... رستہ تکتی... جھکی ہوئی بیلیں اور بارش... جہاں سے کوئی مہک پرانی... تیرے کپڑے پکڑ رہی ہے... میری مٹی اُڑا رہی ہے... جتنے اشک تھے لہو کے اندر... اتنے پھول کھلا آیا ہوں۔ جن ہونٹوں پر چہکا‘ ان پر... چُپ کی مہر لگا آیا ہوں... جتنے خواب بھرے تھے مری نیندوں میں... اتنی تعبیروں کے پیچھے بھاگ چکا۔ ایک نوع کے آنسو... آنکھ سے گرجاتے ہیں... اور طرح کے بھر جاتے ہیں... رستوں کے اندر رستے ہیں... سفر کے ا ندر سفر چھپے ہیں... بادلوں کے اندر بادل ہیں... چھینٹوں کے اندر چھینٹے ہیں!... بارش تو گرتی ہی رہے گی... دنیا تو بستی ہی رہے گی... جو بھی چلتا ہے بارش میں... جو بھی گھومتا ہے بستی میں... کھو جاتا ہے... کھو جائے گا... عمر کی بھی سرحد ہوتی ہے... رقص کی بھی اک حد ہوتی ہے... تھک کر اب... میں بھی تیار ہوں... تھم جانے کو... کسی مہکتی مٹی میں گھل مل جانے کو! 
آج کا مطلع 
وہ تحریر سے یا زبانی کھلا 
سو، کر کے بہت مہربانی کھلا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved