آج کل پاکستانی پارلیمنٹ ہر جانب سے ہدفِ طعن وتشنیع اور نشانۂ ملامت ہے اور یہ کافی حد تک بجا ہے، اس لئے پارلیمنٹ کے ارکان کو کسی اور پر غصے اتارنے کی بجائے اپنے اندر اپنی ناکامیوں کے اسباب کو تلاش کرناچاہئے۔ شیطان کے مریدین اور متبعین جب قیامت کے دن شیطان کو ملامت کریں گے کہ اس نے ہمیں گمراہ کیااور اس خطرناک انجام سے دوچار کیا، تو قرآن مجید کے الفاظ میں شیطان کا جواب یہ ہوگا:''اور جب فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا: اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا،وہ برحق تھا اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا ، اس کی میں نے خلاف ورزی کی، (مگریہ بھی تو سوچو!) میرا تم پر کوئی غلبہ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (گناہ کی) دعوت دی اور تم نے میری دعوت قبول کرلی، سو تم مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو (ہی) ملامت کرو، (اب اس مقام پر) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر پاؤں گا اور نہ ہی تم میری ،(ابراہیم:22)‘‘۔
تاہم ہماری اس پارلیمنٹ کے بحیثیتِ ادارہ چند قابلِ ذکر کارنامے ضرورہیں، جن میں سے ایک قیامِ پاکستان کے 26سال گزرنے اور آدھا پاکستان گنوانے کے بعد 1973ء کا متفقہ آئین ہے، جو پاکستانی قوم کا اجتماعی عمرانی معاہدہ اور دستوری میثاق ہے اور جس نے آج تک پاکستان کو مختلف اَدوَار کے اہلِ اقتدار کی بے تدبیریوں اورناکامیوں کے باوجود جوڑے رکھا ہے اور دعا ہے کہ یہ وحدت تاقیامِ قیامت قائم رہے۔
ہماری نظر میں پاکستانی پارلیمنٹ کا دوسرا اہم کارنامہ دستور کی متفقہ ساتویں ترمیم ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی سطح پر انکارِ ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دیا گیا اوربرصغیر پاک وہند کے جھوٹے مدعیِ نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی یا مجدّد یا مسلم مانے والوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ عہدِرسالت مآب ﷺ کے بعد خلافتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے دوران اس امت میں جو پہلا فتنہ برپا ہوا ، وہ فتنۂ انکارِ ختمِ نبوت تھااور اس وقت بھی ریاست نے اجماع اور مکمل اتفاقِ رائے کے ساتھ اسے ارتداد قرار دیا اور اس کی مکمل سرکوبی کی ۔
اسلام میں امام الانبیاء والرسل سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ آپ کو خاتم النبیین یعنی اس زمین پر اللہ کے بندوں کے لئے اللہ کا آخری رسول تسلیم کیا جائے ، آپ کی نبوت پر ایمانِ محض مسلمان ہونے کے لئے کافی نہیں ہے اور اس کا اعلان اﷲتعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں فرمایا:''محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ،(الاحزاب:41)‘‘۔ اسی طرح اﷲعزّوجلّ نے تکمیلِ دین کا اعلان فرمایا:''آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لئے اسلام کو (بطورِ) دین پسند کرلیا،(المائدہ:3)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے تمام انبیائِ کرام پر چھ چیزوں میں فضیلت عطا کی گئی ہے ،(ان میں سے ایک آپ نے یہ بیان فرمائی کہ ماضی میں ) کوئی نبی کسی خاص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتاتھا اور مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ۔اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا: ''مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''(اے نبی! )کہہ دیجئے ، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں،(الاعراف:158)‘‘۔
1974ء میں ربوہ میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ پر حملہ کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں تحریکِ ختمِ نبوت چلی ۔ قائدِ ملّتِ اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی نے ارتدادِ قادیانیت کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی اور اسمبلی میں موجود تمام علمائِ کرام سمیت تقریباً پچاس کے قریب اراکینِ اسمبلی نے اس کی تائید وتوثیق کی ۔ قادیانیوں کے اس وقت کے خلیفہ مرزا ناصر احمد نے استدعا کہ انہیں قومی اسمبلی میں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کی اس استدعا کو اس شرط کے ساتھ قبول کرلیا گیا کہ ان پر جرح بھی کی جائے گی۔ چنانچہ ایک ماہ سے کچھ زائد یہ کارروائی جاری رہی۔ مرزا ناصر احمد نے اس خوش فہمی میں اپنا موقف پیش کیا کہ تکفیر کا سلسلہ تو چلتا رہتا ہے، اگر مرزا غلام احمد یا قادیانیوں کی تکفیر کسی نے کردی ہے، تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ جھوٹے مدعیِ نبوت اور اس کے ماننے والوں کی تکفیر ایک منفرد مسئلہ ہے، یہ کسی ایک فرد یا چند افراد کا تکفیری فتویٰ نہیں ہے، بلکہ سَلَف سے خَلَف تک اس پر پوری امت کا اِجماعِ کلی قطعی رہا ہے اور ہے ، اس لئے اسے انفرادی فتووں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
مرزا ناصر احمد کی ایک خوش فہمی شاید یہ تھی کہ لفظی اور علمی بحثیں شروع ہوجائیں گی، جو اراکینِ اسمبلی کے سروں کے اوپر سے گزر جائیں گی ، چند علماء کے سوا کسی کو اس میں دلچسپی نہیں ہوگی ، چند دنوںمیں سب اکتا جائیں گے اور فائل داخلِ دفتر ہوجائے اور قصہ تمام ہوجائے گا۔ لیکن ان کی یہ خوش فہمی کافور ہوئی ، پوری قومی اسمبلی نے نہایت توجہ اور انہماک کے ساتھ اس بحث میں حصہ لیا ، اسے دلچسپی سے سنا اور آخرِ کار یہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور 7ستمبر1974ء کو پارلیمنٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر ساتویں آئینی ترمیم منظور کی اور قادیانیوں کو مُرتَد اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔
اس تاریخی کارنامے میں اس وقت کی اسمبلی میں موجود تمام علمائِ کرام کا بہت بڑا کردار ہے اور اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کا بھی بڑا احسن اور نتیجہ خیز کردار رہا ۔ علماء نے ارکانِ اسمبلی کو دقیق علمی بحثوں میں نہیں الجھایا ، بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصانیف سے ان کی عبارات کے حوالے نکالے اور متعلقہ کتب برائے حوالہ پیش کیں اور ان کی بابت مرزا ناصر سے اٹارنی جنرل نے سوالات کئے ۔ مرزا ناصر نے فرار کے بہت سے حیلے اختیار کئے ، لیکن ان کے لئے حقائق سے فرار کی کوئی صورت نہ بن پائی ۔
اسلامی ریاست میں ہر پابندِ آئین وقانون غیر مسلم شہری کوجان ومال اور عزت وآبرو کے وہی تحفظات حاصل ہیں ، جو کسی مسلمان کو حاصل ہیں۔ غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔ پاکستان کا دستور بھی انہیں یہ تحفظ دیتاہے اور ہم اس کی مکمل تائید وتوثیق کرتے ہیں، غیر مسلموں کے حوالے سے پاکستان کا ٹریک ریکارڈ اپنے پڑوسی ملک ہندوستان سے بہتر ہے، اس کے باوجود جو اکادکا واقعات ماضی میں ہوئے، ان کی ہم شدید مذمت کرتے رہے ، مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے ان پر افسوس ہے۔ آج بھی پاکستان میں ہندو، سکھ ، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے امن وامان کے ساتھ رہ رہے ہیں اور مسلمانوں کا ان سے کوئی تصادم یا ٹکراؤ نہیں ہے ۔ گوجرہ کا ناخوشگوار واقعہ ہوا ،''اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کے تمام قائدین وہاں گئے ، چرچوں میں گئے، اپنے عیسائی ہم وطنوں کو تسلی دی اور مسلمانوں اور عیسائی برادری کو ایک ساتھ بٹھا کر امن وعافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کی۔ قادیانیوں سے ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ دستورِ پاکستان کو تسلیم کریں اور دستور نے انہیں جو حیثیت دی ہے ، اس پر قناعت کریں ، ان کو بھی تمام دستوری اور قانونی تحفظات حاصل ہیں ۔