کالم کے عنوان سے دھوکا مت کھائیے۔ یہ مت سمجھیے کہ ہم نیر سلطانہ مرحومہ کی کسی دُکھ بھری فلم کی کہانی بیان کرنے والے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ ہم تو حالات کا رونا رونے والے ہیںکہ آج کل کالم نگاروں کا یہی کام رہ گیا ہے۔
آج کل مرزا تنقید بیگ کی عجیب حالت ہے۔ مگر خیر، اُن کی تو پوری شخصیت ہی عجیب و غریب ہے۔ جب سے اُنہوں نے دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں اور چبوتروں پر بیٹھنا شروع کیا تھا، بھابی صاحبہ نے سُکون کا سانس لیا۔ اُن کی شادی کو چالیس برس ہوچکے ہیں۔ اب ''بیٹھ مِرے پاس تجھے دیکھتی رہوں‘‘ والا زمانہ تو رہا نہیں۔ جب کوئی مرد اور عورت میاں بیوی کی حیثیت سے خاصا طویل عرصہ ساتھ گزار لیں تو دونوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں رونما ہوتی جاتی ہیں۔ ایک بار شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب سے اُن کے گھر پر ملاقات ہوئی تو باتوں ہی باتوں میں وہ سنگیت کی دُنیا سے بہت دور چلے گئے اور ازدواجی زندگی کو گھسیٹ کر بہت قریب لے آئے۔ رشتوں کے اُتار چڑھاؤ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا۔ہم یہ سُن کر سَٹ پٹاگئے۔ پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ شاید خاں صاحب باتوں ہی باتوں میں آٹھوں سُر لگاکر ہماری کھوپڑی گھمانا چاہتے ہیں مگر جب اُن کی طرف دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ تو خاصے سنجیدہ ہیں۔ خیر اِسی میں تھی کہ ہم اُن سے متفق ہوجاتے۔ اور ہم نے اتفاقِ رائے ہی کیا۔
دو ہفتوں کے دوران مرزا کا بیشتر وقت گھر میں گزرا ہے اور اِس دوران گھر والوں پر کیا گزری ہے یہ اللہ جانتا ہے یا گھر والے۔ کچھ کچھ ہم بھی جانتے یا سمجھتے ہیں کیونکہ مرزا کے ساتھ ہم نے بھی بہت وقت گزارا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ مرزا ایک دشت ہیں اور ہماری تو ع
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سَیّاحی میں
مگر یہ مُدت اتنی طویل نہیں کہ ہماری اور اُن کی شکلیں ملنے لگیں! سیاسی بحران نے مرزا کو دو آتشہ کردیا ہے۔ وہ کسی بھی نکتے کو دانتوں سے پکڑ کر پلک جھپکتے میں ہَتّھے سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ گفتگو کے دوران وہ کب کہاں سے کہاں جا نکلیں، پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ قوم کو راہ دِکھانے کے دعویداروں نے مُلک کی جو گَت بنائی ہے وہ مرزا سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ آن کی آن میں وہ لعن طعن سے دُشنام اور پھر تَبرّے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اُنہیں روکنے کی کوشش انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے کیونکہ اُن کی زبان چشم زدن میں مادر پدر آزاد ہوکر واہی تباہی بکنے لگتی ہے۔ ایسے عالم میں اُن کی زبان سے نکلنے والے بیشتر جُملے عوام کے منتخب نمائندوں کی زبان سے نکلنے والے جملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں یعنی جس طرح منتخب نمائندوں کی بہت سی باتیں ایوان کی کارروائی سے حذف کرنی پڑتی ہیں بالکل اُسی طرح ہمیں مرزا کے بھی بہت سے جُملے اپنے کالم کی حدود سے باہر رکھنے پڑتے ہیں!
بعض احباب نے مرزا کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ کوشش کرکے کسی ٹی وی چینل سے وابستہ ہوجائیں تو اُن کے دِن پھر سکتے ہیں کیونکہ سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں وہ جو کچھ کہتے ہیں اُس کی ٹی وی چینلز پر بہت مانگ ہے! مرزا بھی ایسے بے نیاز واقع ہوئے ہیں کہ اِس مشورے پر اب تک سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ مرزا میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو سیاست دانوں اور اُن کے عیب گنوانے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ وہ جب بولنے پر آتے ہیں تو آنکھ بند کرلیتے ہیں کیونکہ وہ کسی کو اذیت میں دیکھ نہیں سکتے! اُنہیں بچپن ہی سے بولنے کا ہَوکا رہا ہے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر جی ایچ کیو کے علاوہ امریکہ نے بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ نے تو نگرانی کا اعلان کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی۔ ہاں اُسے یہ پڑھ کر ضرور شرمندگی سی ہوسکتی ہے کہ ریڈ زون کی صورت حال پر مرزا نے بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ وہ رات دن پلنگ پر بیٹھے بیٹھے ٹی وی اسکرین کو تکتے رہتے ہیں اور ریموٹ ہاتھ میں رکھتے ہیں تاکہ کسی چینل کی کوریج میں اگر مصالحہ کم ہو تو اُس چینل پر چلے جائیں جو ذرا سی بات کو نمک مرچ لگاکر بتنگڑ میں تبدیل کر رہا ہو، رائی کو پربت بنانے کی کوشش کر رہا ہو! کہتے ہیں شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ سیاسی ایونٹ کی کوریج میں مصالحہ تلاش کرنے کی مرزا کی ہر کوشش بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے کیونکہ سیاست کی طرح میڈیا کے یاروں نے بھی اِس کا خوب اہتمام کر رکھا
ہے۔ میڈیا پر مرزا کے لیے نمک مرچ والی شکر تھوک کے حساب سے دستیاب ہے اور وہ بھی بن دام۔ گویا ؎
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
گراں ہے اب کے مے لالہ فام کہتے ہیں
مرزا کو سیاست نے بہت دکھ دیئے ہیں۔ وہ قاضی ہیں جو شہر سے متعلق اندیشوں کے باعث دُبلے ہوئے جارہے ہیں۔ اُن کا رونا یہ ہے کہ سیاست دان اپنے استحقاق کا رونا روتے رہتے ہیں۔ جو ایوان میں بیٹھے ہیں اُنہیں اپنی مراعات کی فکر لاحق ہے۔ جو سڑک پر ہیں وہ عوام کو بھی سڑک پر لانے کے موڈ میں ہیں مگر عوام کے مسائل کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا۔ جن کے مسائل حل کرنے کے نام پر وفاقی دارالحکومت کو سرکس کے پنڈال میں تبدیل کردیا گیا ہے اُن کی بات اَن سُنی رہ گئی ہے۔
خان صاحب فٹ پاتھ پر میلہ سجائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ ''ہمارا مال بہت اچھا ہے۔ کسی کو اگر بولنا ہے تو بولو۔‘‘ ایک دُبلا پتلا، مریل کا شخص آگے بڑھا اور بولا۔ ''مجھے۔۔۔‘‘ خان صاحب نے کہا۔ ''خوچہ تم بکواس بند کرو، کوئی اور صاحب لوگ؟‘‘
عوام کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہ جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو جواب ملتا ہے۔ ''تم منہ بند رکھو، کسی اور کو کچھ اعتراض ہے تو سامنے آئے۔‘‘