تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-09-2014

اسلام آباد پر کیا گزری؟

چین کے صدر ژی جن پنگ کے جس دورے کا بے تابی سے انتظار کیا جا رہا تھا‘ وہ منسوخ ہو گیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت پاکستان کی گڈ گورننس اور سیاسی عدم برداشت کے رویے سے یہی کچھ حاصل ہو سکتا تھا۔ گڈ گورننس کے نتیجے میں دارالحکومت اسلام آباد اپنی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل بحران کا شکار ہوا۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی؟ صرف اس لئے کہ انتخابی عمل کا ایک فریق‘ دھاندلی کے الزامات لے کر‘ حکومت سے مطالبہ کرتا رہا کہ صرف چار نشستوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی چھان بین کر کے دیکھ لیا جائے کہ کیا انتخابات شفاف ہوئے ہیں؟ ''دھاندلی ثابت ہو جائے تو ہماری شکایت جائز سمجھی جائے‘ ورنہ ہم معافی مانگ لیں گے‘‘۔ اس وقت تک نہ حکومت کی برطرفی کا سوال تھا‘ نہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ تھا۔ اگر حکومت معاملہ فہمی سے کام لیتی تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ دھاندلی کے نتیجے میں خالی ہونے والی ایک دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو جاتے۔ جیسا کہ کہا جا رہا ہے‘ مذکورہ نشستوں سے منتخب ہونے والے دو وفادار وزراء‘ اسمبلی میں اپنی نشستوں سے محروم ہو سکتے تھے۔ محض ان دو وزراء کو بچانے کے لئے حکومت نے اپنا آپ ہی دائو پر لگا دیا۔ جیسے جیسے حکومت دوبارہ گنتی کا مطالبہ نظر انداز کرتی گئی‘ یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا اور آخرکار عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔ ایک مذہبی لیڈر‘ ڈاکٹر طاہرالقادری‘ بہت دنوں سے پاکستانی سیاست میں کودنے کا ارادہ کئے بیٹھے تھے۔ ایک الیکشن میں حصہ لے کر بری طرح ہارے تھے۔ وہ ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں سرگرم حصہ لے رہے ہیں۔ 
انہوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز گزشتہ دور حکومت میں کیا اور اسلام آباد جا کر دوسرا دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ وہ پورے نظام ہی کے خلاف تھے۔ پہلے انہوں نے سپریم کورٹ سے مدد چاہی کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ دے‘ جس سے رائج الوقت نظام متنازعہ بن جائے۔ عدلیہ نے انہیں مایوس کیا۔ حکومت مطالبات پر بات چیت کے لئے تیار ہوئی۔ دونوں کے نمائندہ وفود کے مابین مذاکرات ہوئے اور ایک سمجھوتے پر دستخط ہو گئے‘ جس کی تفصیل اب شاید کسی کو بھی یاد نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری واپس چلے گئے۔ چند ماہ قبل‘ انہوں نے پاکستان واپسی کا اعلان کر دیا اور ان کے استقبال کے لئے‘ لاہور میں منہاج القرآن کے اندر‘ دور دور سے ان کے پیروکار آ کر جمع ہوتے رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو لاہور سے دور رہتے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد پر ان کا بھرپور استقبال کرنا چاہتے تھے۔ یہ لوگ منہاج القرآن کی عمارت میں مقیم ہوئے۔ 17 جون کو نصف شب کے قریب‘ پولیس کی بھاری تعداد‘ مدرسے کے گیٹ پر پہنچی اور اس نے حفاظتی بیریئر اکھاڑنا شروع کر دیئے۔ اندر سے مدرسے کے چند سینئر اہلکار نکلے۔ ان کے استفسار پر پولیس نے بتایا کہ وہ اعلیٰ حکام کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں‘ جس پر منتظمین نے اندر سے ایک کاغذ لا کر انہیں دکھایا
کہ یہ عدالت کا حکم ہے۔ اس حکم میں بیریئرز کو برقرار رکھنے کا اجازت نامہ تھا۔ پولیس نے اس کی پروا نہ کی۔ زبردستی بیریئر ہٹانا شروع کر دیئے۔ جو چند لوگ بیریئر گرانے کی آواز سن کر باہر نکلے تھے۔ انہوں نے مزاحمت کی اور پولیس نے دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ ظلم و بربریت کی ایک ایسی داستان ہے جسے مدتوں یاد کیا جاتا رہے گا۔ واقعات دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کی تفصیل دنیا بھر میں‘ میڈیا پر دیکھی جا چکی ہے۔ یہ تھا وہ پس منظر‘ جس میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں جماعتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہ تھا۔ صرف یہ ایک ہی دن‘ تھوڑے سے وقفے کے بعد آگے پیچھے اسلام آباد پہنچے۔ دونوں نے مختلف مقامات پر دھرنا دیا۔ اس کے بعد تھوڑا سا آگے بڑھ کر‘ دونوں پھر سے مختلف مقامات پر جا بیٹھے اور آخر میں ساری پابندیاں توڑتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہو کر‘ ساتھ ساتھ کیمپ لگا لئے۔ یہاں پر چوہدری نثار علی خان کی حکومت تھی۔ انہوں نے مظاہرین پر بے رحمی سے آنسو گیس کے شیل پھینکنے اور بظاہر ربڑ کی گولی چلانے کا حکم دیا۔ اصل میں یہ سٹیل کی گولی تھی‘ جس کے اوپر ربڑ چڑھایا گیا تھا۔ یہ محض چوٹ نہیں لگاتی‘ باقاعدہ ہلاک کر دیتی ہے۔ پہلے کارروائی ہوئی تو 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ 3 ہلاک ہوئے۔ بہت سے زخمیوں کو ہسپتال سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا۔ اس دن کے بارے میں ابھی تک واضح نہیں کہ آنسو گیس کے شیل پھینکنے یا گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ نے زبانی حکم دیا تھا۔ غالباً جب21 اگست کو مظاہرین نے ریڈ زون میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تو وزیر داخلہ نے اس وقت کے آئی جی پولیس‘ آفتاب چیمہ کو گولی چلانے کا حکم دیا۔ آئی جی اسلام آباد نے درخواست کی کہ حکم نامہ انہیں تحریری طور پر دیا جائے۔ چوہدری نثار حسب عادت اس پر سیخ پا ہو گئے۔ چوہدری نثار گستاخی برداشت کرنے کے معاملے میں چنگیز خانی مزاج رکھتے ہیں۔ انہوں نے کھڑے کھڑے آئی جی پولیس کو او ایس ڈی بنا دیا۔ اس واقعے کی خبر اسلام آباد کی چھوٹی سی پولیس میں تیزی سے پھیل گئی۔ وہاں کی پولیس کو پہلے ہی گلہ تھا کہ اسے تحریری حکم کے بغیر ربڑ کی نام نہاد گولیاں اور اشک آور گیس کے شیل چلانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب اور اسلام آباد میں پولیس کا نظام مختلف ہے۔ یہاں پر پولیس کا محکمہ ایک آزادانہ حیثیت رکھتا ہے جبکہ دارالحکومت میں یہ انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے مثلاً وہاں پر اگر پولیس کو گولی چلانے کا حکم دیا
جائے تو اعلیٰ افسران کو ضلعی انتظامیہ کے افسران تحریری آرڈر جاری کرتے ہیں جبکہ پنجاب میں ڈی ایس پی کی سطح کا افسر خود گولی چلانے کا حکم دے سکتا ہے۔ اسلام آباد میں جو بدنظمی دیکھنے میں آئی‘ اس کی وجہ پولیس کے دو نظاموں کے درمیان موجود وہ تفریق بھی ہے‘ جس کی وجہ سے مختلف علاقوں کی پولیس مختلف رولز کے تحت جاری ہونے والے حکم ناموں سے پیدا ہونے والے خلفشار میں الجھی رہی اور پورے شہر میں مظاہرین پر قابو پانے کے لئے مربوط حکمت عملی موجود نہیں تھی۔ اصولی طور پر اس کے ذمہ دار وزیر داخلہ چوہدری نثار علی ہیں۔ انہیں اب تک یہی شکایت ہے کہ پولیس ان کا حکم نہیں مان رہی۔ انہوں نے شاید حقیقت معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کمان خود حاصل کرنے کی زحمت نہ فرمائی اور پولیس ماڈل ٹائون لاہور کے واقعہ کے بعد‘ اپنی ذمہ داری پر گولی چلانے یا اشک آور گیس استعمال کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ پولیس میں جن افسروں اور ان کے جونیئرز نے نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائیں‘ آج ان میں سے کئی حوالاتوں میں پڑے ہیں اور کئی گرفتاری کے خوف سے روپوش ہیں۔ انسپکٹر اور ڈی ایس پی کے درجے کے افسران‘ ساتھیوں سے چندے جمع کر کے‘ وکیلوں اور ضمانتوں کا خرچ پورا کر رہے ہیں۔ اصل حکم چلانے والے ساری ذمہ داری پولیس پر ڈال کے متعلقہ افسروں کو بے یارومددگار چھوڑ چکے ہیں۔ ظاہر ہے اس صورت حال کا اسلام آباد میں ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کو بھی علم تھا۔ وہاں جتنے افسروں نے گولی یا اشک آور گیس استعمال کرنے کے حکم پر تحریری حکم نامہ مانگا‘ وہ اسی ذہنی کیفیت میں تھے۔ ایسی ہی کہانی ریلوے پولیس کے بارے میں بھی سننے میں آرہی ہے۔ حقیقت میں مختلف سروسز رولز کے مطابق کام کرنے والی پولیس فورسز کو اچانک اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا اور انہیں ایک کمانڈ میں دینے کے بجائے اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا مثلاً جس پولیس افسر کے پاس پی ٹی وی سٹیشن کی کمانڈ تھی وہ پہلے کہہ چکا تھا کہ یہاں پر پولیس کی دستیاب نفری بکھرے ہوئے مظاہرین پر قابو نہیں پا سکے گی‘ اس لئے پی ٹی وی پر فوج متعین کی جائے۔ معلوم نہیں کس وجہ سے ٹی وی سٹیشن فوج کی تحویل میں نہ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مظاہرین کو آسانی سے قبضہ کرنے کا موقع ملا۔ اگر اسلام آباد میں ہونے والے سانحوں کی انکوائری کسی عدالتی کمیشن سے آزادانہ طور پر کرائی جائے تو پتہ چلے گا کہ دارالحکومت کے اندر جو انتظامی بدنظمی پیدا ہوئی‘ اس کی ذمہ دار خود پولیس نہیں تھی بلکہ وہ اعلیٰ شخصیت تھی‘ جو شہر کے امن و امان کی ذمہ دار ہے۔ آج ہی پارلیمنٹ کے اندر ''جمہوری نظم و نسق‘‘ کا جو شاندار منظر دیکھنے میں آیا‘ اس کی فوٹیج پاکستانی جمہوریت کا تمسخر اڑانے والوں کے بہت کام آ سکتی ہے۔ اس ڈرامے کا پارٹ 2 پیر کے روز دکھایا جائے گا۔ یہ دونوں پارٹ یکجا کر کے جمہوریت کے عجائب گھر میں محفوظ کئے جا سکیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved