ہم اہلِ ایمان ہیں اِس لیے اِس اَمر پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ضرور برآمد ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ اسلام آباد میں آزادی اور انقلاب کے نام پر جو کچھ ہوا ہے وہ قوم کے لیے صرف خسارے کا سودا تھا۔
خسارہ ابھی پوری طرح سامنے نہیں آیا۔ پھر بھلا کیوں ہم صرف خسارے کا سوچیں؟ عمران خان اور طاہرالقادری نے جو کچھ بھی کیا وہ بظاہر غیر منطقی سا لگتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ اُن کے تمام مطالبات ناجائز تھے‘ بعض باتوں میں خاصا دم تھا۔ ہاں، مطالبات تسلیم کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے معاملے میں وہ حد سے گزر گئے۔ چند ایک باتوں میں ذرا بھی دم نہ تھا مگر اُنہوں نے ضرورت اور گنجائش سے کچھ زیادہ ہی زور لگادیا۔ مگر خیر، سیاسی جلسوں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ خطابت ایسا فن ہے جو اپنے حامل کو پاگل کرکے چھوڑتا ہے۔ ہمارے کئی رہنماؤں کو اُن کا جوشِ خطابت ہی تو کھاگیا۔ بڑبولا پن انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ اب کے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ پبلک اسپیکنگ سے عمران خان کا کبھی زیادہ تعلق نہیں رہا۔ وہ بولنے والوں میں سے نہیں؛ البتہ طاہرالقادری صاحب کے لیے یہ بنیادی میدان ہے‘ مگر ہر بار وہ اپنی قائم کردہ ہر حد سے بڑھتے ہی دکھائی دیے ہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے دردِ دل کی دوا بیچنے کے لیے اسلام آباد کے ریڈ زون میں دُکان سجائی۔ دُکان کیا تھی، دِل بہلانے کے سامان کی سُپر مارکیٹ تھی۔ قوم اِس غلغلے میں ایسی مست و گم ہوئی کہ کچھ ہوش نہ رہا کہ دُنیا میں اور کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ کوئی اور دُنیا بھی ہوتی ہے! تین ہفتے ہونے کو آئے ہیں اور تماشا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ نئی نسل کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ احتجاجی تحریک بھرپور جوش و جذبے کے شانہ بشانہ خوشیوں کی راہ ہموار کرنے والے سامان کے ساتھ بھی چلائی جاسکتی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے احتجاجی تحریک کے چلن کو نیا ٹرینڈ دیا ہے۔ ویسے بھی دونوں رجحان ساز ہی رہے ہیں۔ اِس بار اُنہوں نے فلم ساز کا سا انداز بھی اختیار کیا۔ دونوں کے دھرنے فلم کی شوٹنگ کا تاثر لیے ہوئے ہیں اور آخر آخر میں تو ''شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا‘‘ کا سماں پیدا ہوگیا!
عمران خان احتجاج کو رنگِ انبساط دینے میں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ اُنہوں نے پاکستانی سیاست میں pre-emptive strike کا تصور بھی متعارف کرایا ہے‘ یعنی کامیابی جب ملے گی تب ملے گی، کیوں نہ پہلے اُس کا جشن منالیا جائے! ٹھیک ہی تو ہے، زندگی کا کیا بھروسہ اور کامیابی کا بھی کیا بھروسہ کہ ۔ملے نہ ملے۔ کامیابی کا جشن منانا تو خیر اپنے اختیار کی بات ہے‘ تو پھر اختیار کو بروئے کار لانے میں کسی کا کیا جاتا ہے!
آزادی اور انقلاب کے نام پر جو کچھ اِس قوم نے تین ہفتوں تک جھیلا ہے اُس کے پہلو سے کیا برآمد ہوسکتا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ ہر خرابی میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے۔ اب تو یہ ہماری بصارت کا فریضہ ہے کہ اُس خوبی کو دیکھ پائیں۔
وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے رفقاء کے لیے یہ تین ہفتے سخت اعصابی کشمکش سے عبارت رہے ہیں۔ اُن کے چہروں سے پریشانی ایسی ہویدا تھی کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے متوالے خوش ہو اُٹھے کہ استعفیٰ اب آیا کہ تب آیا۔ پارلیمنٹ نے کھل کر وزیر اعظم کی حمایت کی اورتمام ارکان مل کر اُن کے دفاع کے لیے دیوار کی مانند کھڑے ہوگئے۔ اِس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ جو لوگ پارلیمنٹ کے اندر ہیں وہ جمہوریت کو بچانے کے لیے ایک ہیں۔ یہ تو ہوا دھرنوں کا ایک فائدہ۔ دوسری بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب وزیراعظم نواز شریف کو بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اقتدار کو جمہوریت کی طشتری میں رکھا ہوا حلوہ سمجھ کر ڈکارا نہیں جاسکتا۔ اقتدار پھولوں کی سیج ہے لیکن اگر کام نہ کیا جائے اور ''ڈلیور‘‘ نہ کیا جائے تو یہی اقتدار کانٹوں کا بستر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ احتجاجیوں کے رہنمائوں نے وزیر اعظم کے استعفے کے معاملے میں حد سے زیادہ جوش و خروش اور اشتعال دکھایا۔ مگر اُن کے سارے ہی مطالبات ایسے نہیں کہ یکسر نظر انداز کردیے جائیں۔ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ ہر اعتبار سے جائز تھا اور اِسی لیے عدالتی کمشن بنانے پر اتفاق بھی ہوا۔ انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے سے متعلق اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی احتجاجی تحریک کی غایت خواہ کچھ رہی ہو، دونوں نے سیاسی محاذ پر کچھ گولہ باری تو کی ہے، دھماچوکڑی تو مچائی ہے، کچھ اُلٹنے پلٹنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوئی جمہوری قوتوں کو اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ اب گڈ گورننس ناگزیر ہے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ معاملات صرف منتخب عوامی نمائندوں کا اعزازیہ اور مراعات بڑھانے تک محدود نہ رکھے جائیں۔ اگر حکمرانی کے طور طریقے تبدیل نہ کئے گئے اور عوام کی توقعات پر پورا اُترنے سے گریز کیا جاتا رہا تو صبر کا ہر پیمانہ لب ریز ہونے میں دیر نہیں لگائے گا۔ پارلیمنٹ میں جن لوگوں نے جمہوریت اور نظام کے حق میں پُرجوش تقریریں کی ہیں اب اُنہیں عوام کے بنیادی مسائل کی بات بھی کرنی ہوگی۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اُن کی منافقت اظہر من الشمس ہو رہے گی۔ قوم کو تقریریں نہیں، نتائج درکار ہیں۔ دو بڑے دھرنوں کے بعد قومی موڈ یہ ہے کہ اگر کچھ دے سکتے ہو تو دو، ورنہ گھر کی راہ لو۔ جمہوریت یقیناً اچھا تصور ہے اور اِس کے لیے بہت کچھ قربان کیا جاسکتا ہے‘ مگر جو لوگ جمہوریت کے کاندھوں پر سوار ہوکر آتے ہیں اُن پر سب کچھ تو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وہ قوم کو قربانی کا بکرا بناکر ذبح کرتے رہیں اور قوم قربان ہوتی رہے۔ ایک زمانے سے اہلِ سیاست کی روش یہ ہے کہ مال بٹورنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرو اور مقدور بھر سمیٹ کر پتلی گلی سے نکل لو۔ اِس روش ہی نے ملک کو بند گلی میں لا پھینکا ہے۔
ریڈ زون کی صورت حال نے بہت کچھ اُلٹ پَلٹ دیا ہے۔ طریق کار تھوڑا غلط سہی مگر جو کچھ ہوا وہ بہت سوں کے دِل کی آواز سے تھوڑی بہت مطابقت ضرور رکھتا تھا۔ اختلاف رکھنے والوں نے بھی دِل ہی دِل میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو تھوڑی بہت داد تو ضرور دی ہوگی۔ بلی کے بھاگوں چھینکا بھلے ہی نہ ٹوٹا ہو، ہلا ضرور ہے۔ بھرپور جمود سے عبارت معاشرے میں اِتنا بھی کیا کم ہے۔
قوم نے تین ہفتوں تک جو کچھ دیکھا اور جھیلا ہے اُس کی کوکھ سے اگر کوئی کام کی چیز برآمد ہو جائے تو تھوڑے بہت آنسو تو پُنچھ ہی جائیں گے۔ کچھ نہیں ہے تو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ برسوں سے ترسی ہوئی قوم اب چاہتی ہے کہ آسمان پر کوئی ایسا بادل بھی نمودار ہو جو اُس کے دیرینہ مسائل کا حل برسائے۔ نام نہاد نظام تو ٹھہرے ہوئے، پُرتعفن پانی کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جو کچھ زمین پر ہے اُسے دیکھ کر شرم سے پلکیں جُھکی جاتی ہیں۔ ایسے میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنا فطری امر ہے کہ وہیں سے کوئی بہتری آئے تو آئے۔