بحیثیت قوم ہم لوگوں کا طرز عمل ایسا ہوچکا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہوجائے پھر اس کے بعد اگر مقام رونے دھونے کا ہو تو رولیا جائے ، اگر کسی کی کارکردگی پر حرف آتا ہو تو اس کو محض مورد الزام ٹھہرا دیا جائے اور پھر اس ملزم شخص کو اپنے ہاں موجود اس سسٹم کے حوالے کردیا جائے جس میں محض بے آسرا اور غریب آدمی ہی پھنس سکتا ہے۔ صاحب حیثیت اس سسٹم میں سے کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو صاف بچا لیتا ہے۔ یہ وتیرہ ہمارے ہاں پہلے پولیس سے متعلق معروف تھا۔ یعنی اگر کہیں جھگڑا فساد ہورہا ہو تو پولیس اطمینان سے تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔ جب خون خرابہ ہو جائے تو اطمینان سے مرحلہ وار کارروائی کا آغاز کرتی ہے۔ اس طرز عمل میں تو مشرف دور میں جو پولیس آرڈر جاری ہوا اس سے بھی کوئی بہتری نہیں آئی۔
عیدالفطر کے اگلے روز کراچی کے ساحل پر نہ جانے کتنے لوگ ڈوب گئے جس پر کمشنر کراچی نے پولیس کو حکم دیا کہ جو شخص ساحل سمندر پر پانی میں داخل ہونے کی کوشش کرے‘ گرفتار کرلیاجائے۔ سبحان اللہ! کیا کارکردگی ہے۔یہی بے حسی ہر شعبے میں دکھائی دے گی۔ صحت کے شعبے میں زہر آلود ادویات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کئی لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ کھانسی کے شربت نے تباہی مچادی تھی۔
تعلیم کے شعبے کو دیکھ لیں۔ سرکاری شعبے میں سکولوں اور کالجوں کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد اب بیرونی ممالک کی امداد سے شعبہ تعلیم کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو لوگ یہ کام کررہے ہیں انہیں بھی یقین ہے کہ یہ شعبہ اس طرح پائوں پر کھڑا نہیںہوگا مگر وہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔ملک میں نظم و نسق کا نظام لے لیں۔ جس وقت انگریزوں کے دور کا آزمودہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے لا اینڈ آرڈر قائم رکھنے کا نظام بدلا جارہا تھا تو سب سوئے رہے۔ کچھ جعلی قسم کے دانش ور نئے نظام کی تعریف میں دن رات ایک کرتے رہے مگر نتیجہ کیا نکلا۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں یہ ڈنگ ٹپائو طرز عمل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک طاقت کے تمام مراکز کے درمیان دائمی مصالحت نہ ہوجائے جو تمام مرکزوں کی قوت یکجا کر کے قومی زندگی کو درست کرنے کے اقدامات کرے۔
جنرل ضیاء الحق کو برا بھلا تو بہت کہا جاتا ہے اور ملک کی خارجہ حکمت عملی کے ضمن میں موصوف کی وجہ سے جو نقصان پہنچا اس کی تلافی اب تک نہیں ہوپائی لیکن اندرون ملک طاقت کے مرکزوں کے حوالے سے جنرل ضیاء الحق نے جواٹھاون ٹو بی کی شق آئین میں متعارف کروائی تھی وہ ایک بہترین حکمت عملی تھی جس کی مدد سے ملک کے اندر طاقت کے مرکزوں کو آہستہ آہستہ یکجا کیا جاسکتا تھا۔
ہمارے ہاں بیان بازی تو بہت ہوتی ہے کہ اقتدار سویلین کے پاس ہونا چاہیے اور فوج کو اپنے آپ کو محض دفاع کے کاموں تک محدود ر کھنا چاہیے اور اُسے ملک کی دفاعی اور خارجہ حکمت عملی میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ ہم ترقی پذیر ملک ہیں‘ لہٰذا ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ مناسب نہیں۔ لیکن پھر بھی‘ آج کل کیا ترقی یافتہ ملکوں میں دفاعی اداروں کا بڑا اہم کردار نہیں رہا؟ مثلاً امریکی محکمہ دفاع اگر کسی بات پر اڑ جائے تو پھر وائٹ ہائوس کو ہی پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے بقا کے لیے جمہوریت اور بااختیار سویلین حکومت سے زیادہ فوج کے ادارے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہمارے ہاں کے کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ جاہل تک جانتے ہیں اور دل سے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ جب ایک عام آدمی کو ایک طرف بھارت جیسا دشمن دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف افغانستان کے حوالے سے سکون ملتا دکھائی نہیں دیتا اور ساتھ ہی اس کو یہ نظر آتا ہے کہ ہمارے دشمن جمہوری اور سویلین حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان کو ہاتھ دکھا جاتے ہیں تو پھر لامحالہ وہ فوج کی اہمیت کا قائل ہوجاتا ہے اور اس کو اس ادارے کی کوتاہیاں‘ خوبیاں لگنے لگتی ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قومی زندگی میں فوج کے کردار کو کچھ عرصہ کے لیے قانونی حیثیت دے دی جائے؟ جنرل ضیاء ا لحق نے اٹھاون ٹو بی کے ذریعے یہی کوشش کی تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوج اپنے آپ کو سویلین قیادت سے دور محسوس کرنے لگی تھی اور سویلین قیادت فوج کو قریب لانے کے بجائے اسے زیر نگیں کرنے کی خواہاں ہوگئی تھی۔ ایسی صورت میں جب دونوں طرف جب دبائو بڑھ جاتا تو یہ شق سیفٹی والو کا کام کرتی تھی اور سسٹم چلتا رہتا تھا۔ پھر نوازشریف کی پہلی دو تہائی اکثریت نے اس سیفٹی والو کو ختم کردیا تو مشرف صاحب آ گئے اور یہ سیفٹی والو بحال ہوگیا۔ بعدازاں جمہوریت کے دعوے داروں نے پھر اسے ختم کردیا تو مسائل آپ کے سامنے ہیں۔ اس شق کی عدم موجودگی میں آپ کو فوجی اور سویلین قیادتوں کے مابین تنائو کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ آپ خود سوچ لیں کہ پریشر ککر بھی ایک حد تک بھاپ کا دبائو برداشت کرتا ہے اس کے بعد وہ پھٹ جاتا ہے۔
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ سویلین قیادت ، فوجی ادارے کی مخالف دکھائی دیتی ہے اور اس ادارے کے بارے میں معلوم ہونے لگتا ہے کہ وہ سویلین حکومت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا ہوا ہے۔ اس تصویر کو بدلنا ضروری ہے۔اس کے لیے اگر اٹھاون ٹو بی نہیں لائی جاسکتی تو نیشنل سکیورٹی کونسل سمیت کسی اورطریقے سے ملک میں طاقت کے ان مراکز کویکجا کیا جاسکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ مراکز کبھی یکجا ہوں گے یا نہیں مگر اس بات کا مجھے یقین ہے کہ چونکہ طاقت کے ان دونوں مراکز میں جو لوگ فیصلے کرتے ہیں وہ انسان ہیں اور پاکستانی ہیںاس لیے یہ دونوں اگر یکجا ہوجائیں تو پھر ہی ممکن ہوگا کہ ملک جو مسلسل پیچھے کی طرف جارہا ہے‘ آگے کی طرف بڑھتا دکھائی دے۔
اوپر کی سطح پر جب طاقت کے مراکز میں یہ اتحاد ہوگیا تو پھر جس قومی طرز عمل کا میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا ہے اس کا مداوا ہونا شروع ہوجائے گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کس طرح ہوگا۔یہ اس طرح ہوگا کہ پورے ملک میں جو ماتحت ادارے ہیں ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اب وہ اپنی غفلت کو چھپانے کے لیے طاقت کے کسی ایک مرکز میں پناہ نہیں لے سکتے۔ ان کو دکھائی دے گا کہ احتساب تو ہوکر رہنا ہے۔ہمارے ہاں جو اب تک احتساب کرنے کی کوئی بھی سکیم کامیاب نہیں ہوئی اس کی وجہ یہی ہے کہ جرائم پیشہ لوگ یا بدعنوان لوگ طاقت کے ایک مرکز میں پناہ حاصل کرکے طاقت کے کسی دوسرے مرکز کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔جنرل مشرف کے ابتدائی دو برسوں کی حکمرانی محض اس وجہ سے بے مثال تھی کہ انہوں نے ان دو برسوں کے دوران میں بدعنوان لوگوں کو طاقت کے ذریعے اپنے مرکز میں پناہ دینے سے انکار کیا تھا لیکن بعدازاں جب جنرل مشرف سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گئے تو پھر ان کی وہی نیب‘ جس نے 320ارب روپے بدعنوان لوگوں سے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے تھے‘ بے بس ہوگئی تھی۔ بدعنوان لوگوں کو سیاسی حکومت کے قائم کردہ طاقت کے مرکز میں پناہ مل چکی تھی اور سیاسی حکومت مشرف صاحب کی مجبوری بن چکی تھی۔
ان حالات میں ہمارے ہاں جمہوریت جتنے مرضی پر پھیلا لے ، قومی سطح پر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کے ادارے کو آئینی کردار دے کر جب تک طاقت کے مراکز کو یکجا نہیں کیا جائے گا۔ ہمارا قومی طرز عمل ڈنگ ٹپائو ہی رہے گا۔