تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-09-2014

ٹوٹے

دراڑ؟ 
حکومتی حلقے اور بطور خاص اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف میں دراڑ پڑ چکی ہے جس کی وجہ پارلیمنٹ میں مخدوم شاہ محمود قریشی کا عمران خان کی ہدایت کے باوجود استعفیٰ کی توثیق نہ کرنا اور اس کے بغیر ہی اپنی تقریر ختم کر کے ایوان سے پارٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ اُٹھ آنا ہے۔ اس کی ایک وجہ خود عمران خان کی اس سلسلے میں دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے اور وہ اس انتہائی اقدام کو فی الحال خود بھی التوا میں رکھنا چاہتے ہوں‘ اس لیے ان حضرات کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہی ان کے اس بیان سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے تعلقات میں دراڑ پڑنے کا اندیشہ ہے جس میں انہوں نے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی سنٹر پر قبضہ سے اپنی بریت کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ انہوں نے یہ سن کر ڈاکٹر طاہرالقادری سے کہا تھا کہ وہاں نہ جائیں اور واپس آ جائیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کارکن اب ان کے اختیار سے باہر ہو چکے ہیں اور اسی میں عوامی تحریک کے لیے بھی ایک بیانِ صفائی موجود ہے۔ 
ماتھے کا جھومر؟ 
جناب قمر زمان کائرہ نے ڈاکٹر قادری کی طرف سے سید خورشید علی شاہ پر کرپشن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمارے سینئر رہنما اور اثاثہ ہیں اور ہمارے ماتھے کا جھومر‘ لیکن انہوں نے الزامات کا جواب یا ان کی تردید کرنے کے سلسلے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا‘ جن میں کہا گیا تھا کہ نہ صرف ان کے خلاف نیب میں کرپشن کے مقدمات ہیں بلکہ وہ ایک دہشت گرد بھی ہیں۔ جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے تو یہ بات بہت آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ دونوں جماعتوں کے قائدین سمیت دیگر اکثر حضرات کی صفائی دینے سے یہ جماعتیں قاصر ہیں بلکہ اب تو انہوں نے ایک روٹین کا معاملہ سمجھتے ہوئے اسے اہمیت دینا بھی چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کائرہ صاحب اس بہت بڑے الزام کی تردید بھی نہیں کر سکے اور محض آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گئے۔ اور‘ یہی کرپشن کا طومار ہے جس کے خلاف
دھرنے والوں کا سب سے زیادہ زور بھی ہے اور لوگ اس کی پذیرائی بھی کر رہے ہیں اور ان دونوں جماعتوں کی طرف سے اس کا کوئی جواب بھی نہیں بن پڑ رہا۔ 
سازش؟ 
حکومتی حلقوں کی طرف سے دھرنوں کو ایک عالمی سازش کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے جس سے پاکستان کو کمزور کرنا مقصود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کوئی سازش ہے بھی تو یہ پاکستان کے خلاف کہاں‘ بلکہ یہ تو اس کے حق میں ہے کیونکہ اگر اس سازش کے نتیجے میں دھاندلی کا پردہ فاش ہوتا ہے‘ انتخابی اصلاحات شکل پذیر ہو جاتی ہیں اور آئندہ انتخابات کے شفاف ہونے کا راستہ صاف ہو جاتا ہے تو پاکستان پر اس سے بڑا احسان اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ موجودہ بادشاہت کا خاتمہ ان سب کے علاوہ ہے اور دھرنے والوں کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے بیشتر مطالبات تو حکومت طوعاً و کرہاً ہی سہی‘ تسلیم بھی کر چکی ہے جبکہ پہلے یا آخری مطالبہ یعنی وزیراعظم کے استعفے پر بھی کوئی قابلِ عمل پیش رفت متوقع ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کی تقریروں کا ایک ایک لفظ لوگ غور سے سنتے اور ساتھ ساتھ قائل بھی ہوتے جاتے ہیں کیونکہ یہ باتیں اس شدومد کے ساتھ پہلے کبھی اور کہیں بھی نہیں کی گئیں! 
کتنا آسان‘ کتنا مشکل 
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا تو ہے کہ دھرنے والے دو اڑھائی ہزار افراد ہیں جنہیں وہاں سے اٹھانا کوئی مشکل بات نہیں ہے جبکہ حالت یہ ہے کہ شاہراہِ دستور پر حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے‘ حتیٰ کہ پولیس والوں کی بھی وہاں داخلے سے پہلے کارکنوں کی طرف سے تلاشی لی جاتی ہے بلکہ پولیس کی گاڑیوں کو بھی واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ حکومت ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے سے بھی گھبراتی ہے جب کہ پولیس کے تین آئی جیز معذرت کر کے چھٹی پر جا چکے ہیں اور عصمت اللہ جونیجو‘ جن کے پاس پولیس کی کمانڈ تھی‘ دھرنے والوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر ہسپتال کے آئی سی یو میں پڑے ہیں اور حکومت نے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا ہے جنہوں نے موصوف کو مظاہرین سے بچانے میں کوتاہی کا ارتکاب کیا۔ حق تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف فوج کا کہا مان سکتے ہیں جبکہ پولیس ویسے بھی خوشدلی سے فرائض سرانجام دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ سو‘ حکومت میں اگر اخلاقی جرأت ہو تو وہ اب بھی اس مقصد کے لیے فوج سے درخواست کر سکتی ہے‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ فوج ہی کی طرف سے معاملات کو مذاکرات سے حل کرنے کی تاکید اور شرط بھی ہے۔ 
آج کا مطلع 
گھر نہیں ہے تو سرِ راہ جلاتے ہیں چراغ 
اور‘ دیوار ہوا پر بھی جماتے ہیں چراغ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved