عوام کو بیدار کرنے اور شعور بخشنے کے نام پر سجایا جانے والا میلہ اب آخری لمحات میں داخل ہوچکا ہے۔ کلائمیکس گزر بھی چکا۔ اب اینٹی کلائمیکس کی منزل ہے۔ بقول فراقؔ گورکھپوری ع
رُکی رُکی سی شبِ ہجر ختم پر آئی
پہلے سے پریشان حال قوم کو سیاسی اُچھل کُود نے مزید اُلجھادیا ہے۔ تین ہفتوں تک یہ حالت رہی کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کریں تو کیا کریں اور جائیں تو کہاں جائیں۔ سیاسی بحران میں اب وہ شِدّت نہیں رہی۔ کپتان سمیت سب کا اسٹیمنا جواب دے چکا ہے۔ سیاسی جنگل میں لگی آگ بُجھنے کو ہے تو اب اندازے لگائے جارہے ہیں کہ کتنے درخت جلنے سے رہ گئے۔ بعض تجزیوں کے انداز سے تاسّف جھلک رہا ہے کہ جو درخت جل نہ سکے وہ کیونکر بچ گئے!
معاملات جتنے الل ٹپ انداز سے اُلجھے یا اُلجھائے گئے تھے تقریباً اُتنے ہی الل ٹپ انداز سے اب سُلجھنے کی منزل میں اٹکے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پشت پناہی کرنے والے منظر سے غائب تھے، اب ناپید بھی ہوئے۔ کپتان کی طلسماتی شخصیت کے پرستاروں اور علامہ طاہرالقادری کی شُعلہ بیانی کے جلے ہوؤں کا یہ حال ہے کہ سمجھ نہیں پارہے کون سا طرزِ عمل اختیار کریں۔
کپتان کو یاد ہی ہوگا کہ 1987ء میں پاکستان اور بھارت میں مشترکہ طور پر منعقد کئے جانے والے ریلائنس کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کے دورے پر آنا تھا۔ لاہور میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا سے ہارگئی۔ دوسری طرف انگلینڈ کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں آسٹریلیا سے فائنل ہارا۔ پاکستان میں لوگ سیمی فائنل کی شکست سے دل برداشتہ تھے۔ ایسے میں دونوں ٹیمیں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے موڈ میں نہ تھیں مگر کھیلنا تو تھا۔ عمران خان سمیت کئی اسٹار کھلاڑیوں نے ٹیم سے دور رہ کر غم غلط کرنے اور آرام کرنے کو ترجیح دی۔ اُس افسردہ ماحول میں فیصل آباد ٹیسٹ کے دوران مائک گیٹنگ اور شکور رانا مرحوم کے درمیان تو تو میں میں والا مشہور واقعہ بھی رونما ہوا۔
اِس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں سارا جھاگ بیٹھ چکا ہے۔ یہ طے کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ کون کون جیتا یا کون کون ہارا۔ جو کسی آسرے پر گھر سے نکلے تھے وہ پریشان ہیں کہ اب کہاں جائیں۔ حقیقت پسندی کا ریڈ زون مُنہ کھولے کھڑا ہے مگر کوئی اُس میں داخل ہونے کو تیار نہیں۔ حکومت ہاری نہیں مگر فتح کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی۔ عوام بھی حیران و پریشان ہیں کہ کس کے لیے تالیاں پیٹیں اور کس پر آوازے کَسیں۔ بحران کی عمارت بہت حد تک گرچکی ہے۔ اب قوم پریشانی کے عالم میں ملبے کو دیکھ رہی ہے۔ لاکھ روپے کا سوال یہ ہے کہ ملبہ کون اُٹھائے گا؟
حکومت نے کسی نہ کسی طور اپنی آبرو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی سمیت ایوان کی بیشتر جماعتوں نے ن لیگ کو بھرپور حمایت سے نوازا تاکہ پارلیمنٹ بچ جائے، سسٹم کو لاحق خطرات دور ہوجائیں۔ مگر یہ سب کچھ ایویں ای نہیں تھا۔ انگریزی میں کہاوت ہے کہ دُنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر معاملہ سَودا ہی ہوتا ہے۔ یہاں بھی معاملہ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے والا رہا ہے۔ کچھ لو اور کچھ کی بنیاد پر ن لیگ اور نواز شریف کو حمایت سے نوازا گیا۔
چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز احسن کی لڑائی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سسٹم وغیرہ سے زیادہ اب بھی انفرادی مفاد ہی کو اولیت دی جارہی ہے۔ سب اپنی اپنی دکانداری بچانے کے لیے متحرک ہیں۔ اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ گھر کے اندر کی لڑائی باہر آئی ہے۔ اِس بار باہر کی لڑائی پارلیمنٹ میں پہنچ گئی ہے۔ جو کچھ باہر رونما ہوا ہے اُسے بنیاد پر بناکر دو بڑی جماعتیں زبانی سطح پر دست و گریباں ہیں۔ اللہ ہی جانے اُس وقت کیا دھماچوکڑی مچے گی جب حکومت کی ریکوری یقینی بنانے والی پارلیمانی قوتیں وصولی پر آئیں گی!
شریف امروہوی ریٹائرڈ بینکار ہیں۔ وہ حساب کتاب کے
ماہر ہیں۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں کیا چل رہا ہے۔ بہت ہی نپے تُلے انداز سے شریف امروہوی صاحب نے جواب دیا۔ ''پیپلز پارٹی نے سسٹم بچانے کے نام پر جو کچھ کیا اب اُس کی قیمت وصول کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں انفرادی سطح کے مناقشے بھی گڑبڑ گھوٹالے کی پتیلی سے باہر آگئے ہیں۔ مثلاً دو چودھریوں کی لڑائی۔ خورشید شاہ نے بھی پہلے تو نواز شریف کو 'غیر مشروط‘ حمایت سے نوازا مگر پھر لتاڑنے پر بھی تُل گئے۔ خود وزیر اعظم کو بھی کہنا پڑا کہ خورشید شاہ نے بہت کلاس لے لی، اب مزید گنجائش نہیں۔ سیاست اِسی کا نام ہے۔ جہاں سب کچھ حساب کتاب کی بنیاد پر ہوتا ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے اور ایک عالمی طاقت کے صدر کا دورہ ملتوی کیا جاچکا ہے۔ مگر اب بھی انفرادی لڑائی لڑی جارہی ہے، بالمشافہ بنیاد پر کیچڑ اُچھالا جارہا ہے۔‘‘
جس فلم کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سِلور جوبلی یا گولڈن جوبلی کرکے اُترے گی وہ تین ہفتوں میں ریڈ زون کے اوپن تھیٹر سے اُتر گئی ہے۔ سیاسی بحران کے غُبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اِس بار ٹائر شاید ٹیوب لیس تھا اِس لیے پنکچر ہونے پر احتجاج کی گاڑی تادیر چلتی رہی ہے۔
اخبارات کے ادارتی صفحات پر اب سیاسی بحران کی تہہ سے برآمد ہونے والے ''گہر ہائے آبدار‘‘ کی افادیت پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ہم بھی ہر بات میں کسی ایسی ویسی بات کی بُو سُونگھنے کے عادی ہوگئے ہیں تاکہ کچھ لکھنے کا موقع ملے۔ ہمارے کالم نے بھی تو صحافت کے ادارتی ریڈ زون میں دھرنا دے رکھا ہے۔
سیاسی بحران نے بظاہر واپسی کی راہ پکڑ لی ہے۔ جگہ کی تنگی کو بنیاد بناکر عمران خان نے دھرنا وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے سے ڈی چوک پر منتقل کردیا ہے۔ کوچۂ یار سے بہت بے آبرو ہوکر نکلنے کے عمل کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جو بحران رونما ہوا وہ تو خیر نقصان دہ تھا ہی، اب تو یہ فکر لاحق ہے کہ حکومت کو بچانے کے لیے آگے آنے والے وصولی کے لیے جو دھما چوکڑی مچائیں گے اُس سے گلو خلاصی کس طور ممکن ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے جو کچھ کیا اُسے بنیاد بناکر اب وہ حکومت پر اپنا وزن ڈالنے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ دبئی سے آصف علی زرداری یونہی تو واپس نہیں آئے۔ کچھ نہ کچھ تو طے ہوا ہی ہوگا۔ قوم نے پارلیمنٹ کے باہر کا ملبہ دیکھ لیا جو ابھی تک اُٹھایا نہیں جاسکا ہے۔ اب پارلیمنٹ کے اندر جو کچھ رونما ہو رہا ہے اُس کا ملبہ بھی تو ہٹانا ہی پڑے گا۔
بحران پارلیمنٹ کے باہر ہو یا اندر، دُکھ اِس بات کا ہے کہ یار لوگ کھا پی کر چل دیتے ہیں۔ دستر خوان اُٹھانے اور برتن دھونے کہ ذمہ داری عوام کے کاندھوں پر آ پڑتی ہے۔ کبھی تو کچھ ایسا ہو جو سیاسی معمول سے ہٹ کر ہو۔ کبھی تو یوں بھی ہو کہ سیاسی خرابی کا ملبہ عوام کو نہ اُٹھانا پڑے۔