یہ ہے دماغ کی دنیا ۔100کلو کا آدمی ، دماغ کل تین اونس لیکن جسم کی بیس فیصد توانائی یہ عفریت ہضم کرجاتاہے ۔ دنیا میں اس نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ درمیان میں اوپر سے نیچے ،مکمل طور پر دو حصوں میں منقسم۔ ابتدامیں یہ سمجھا گیا کہ آنکھوں اور ہاتھ پائوں کی طرح دماغ بھی ہم دو رکھتے ہیں ۔ عام خیال یہ تھا کہ ایک کو نقصان پہننے کی صورت میں دوسرا اس کی جگہ سنبھال سکتاہے ۔ درمیان میں باریک تاروں (Nerves)کا ایک گچھا دونوں کو ملانے والا پُل کا کام دیتا ہے۔ 1940ء کی دہائی میں وہ مریض ، جو مرگی کی جان لیوا اقسام کا شکار ہوتے ،سرجن ان میں اس پُل کو کاٹ ڈالتے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دو دماغوں کا نظریہ بالکل غلط ہے۔ درحقیقت یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؛ اگرچہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ان میں سے ہر ایک مخصوص افعال میں مہارت حاصل کرتا چلا جاتا ہے ۔
یہ ہے دماغ کی دنیا ۔ بایاں دماغ بولنے اور لکھنے جیسی صلاحیتیں رکھتاہے ۔ تخلیقی صلاحیتیں دائیں میں پوشیدہ ہیں ۔ یادداشت بھی یہیں ہے۔ ان دونوں کے سامنے والے حصے ان اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل ہیں ،انسان کے سوا کسی دوسرے جانور میں جس کا تصور بھی نہیں ۔ صورتِ حال اور مسائل کا تجزیہ ، مصیبت سے نکلنے کی منصوبہ بندی ۔ ایسی زبان ، جو کسی اور کے نصیب میں نہیں ۔قصہ مختصر یہ کہ ساری کی ساری ذہانت یہیں دھری ہے ۔یہی ذہانت جب جبلّت سے تعامل کرتی ہے تو ہم بدترین جانوروں میں بدل جاتے ہیں ۔ وہ خوراک کے لیے ایک دوسرے پہ پنجوں اور دانتوں سے حملہ آور ہوتے ہیں ، ہم وسائل لوٹنے کے لیے ایٹمی میزائلوں سے ۔ جانور جبلّت ہے ، انسان ذہانت اور جبلّت کا مجموعہ ۔ عقل کی طرح ، جبلّت بھی دماغ ہی میں موجود ہے ۔ مخالف جنس میں کشش کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس نچلے حصے میں موجود ہوتی ہے ، جہاں ریڑھ کی ہڈی دماغ سے جڑتی ہے ۔ اسے برین سٹیم کہتے ہیں ۔
عجیب بات یہ ہے کہ جوانی یا بڑھاپے میں جن افراد میں بائیں نصف کرّے کو نقصان پہنچتاہے ، اکثر وہ بولنے کی صلاحیت سے جزوی یا مکمل طور پر محروم ہو جاتے ہیں ۔ یہی نقصان اگر کم عمری میں ہو تو رفتہ رفتہ بچہ بولنا سیکھ ہی جاتاہے ۔بچوں کا دماغ مختلف ہوتا ہے۔ وہ بڑوں سے زیادہ توانائی استعما ل کر تا ہے۔ تب دماغی خلیات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے درمیان نئے نئے رابطے استوار کرنے اور نتیجتاً سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ۔
آئیے اب میں آپ کو میڈیکل ہسٹری کا ایک انوکھا واقعہ بتائوں ۔ ستمبر1984ء میں پیدا ہونے والے ریان پیٹر سن کو پیدائش کے صرف آٹھ گھنٹے بعد ہی مرگی کا پہلا دورہ پڑگیا تھا۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد پندرہ سے بیس روزانہ تک جا پہنچی ۔ایسے بچے دس برس کی عمر سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ ان دنوں اس کی عمر پندرہ ماہ تھی، جب ایک دن وہ گرا اور 40منٹ تک تڑپتا رہا۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سکول آف میڈیسن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بایاں دماغ پوری طرح بیمار ہو چکا ہے ۔ سرجری کے ذریعے اسے نکال دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ 7گھنٹے تک یہ آپریشن جاری رہااور دماغ کا بایاں حصہ تقریباً مکمل طور پر الگ کر دیا گیا۔ وہ زندہ رہا اور آہستہ آہستہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ اس کی ماں نے کہا کہ درحقیقت وہ اس سرجری کے دن ہی پیدا ہوا تھا۔
دماغ کو آکسیجن اور گلوکوز کی فراہمی میں تعطل پیدا ہو تو وہ مفلو ج ہو جاتاہے ...اور یہ رسد خون ہی کے ذریعے اس تک پہنچتی ہے ۔آدمی زندگی بھر کے لیے ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار ہو جاتاہے لیکن انحصار اس پر ہے کہ کون سا حصہ کس قدر متاثر ہوا ہے ۔ ایک انوکھی بیماری نیگلیکٹ سینڈروم (Neglect Syndrome)ہے ۔ سر کی دائیں طرف پچھلے حصے پر خطرناک چوٹ اس کا سبب بنتی ہے ۔ ایسے افراد اس قسم کی ذہنی معذوری کا شکار ہوتے ہیں کہ بظاہر دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہونے کے باوجود، انہیں صرف اور صرف کسی بھی شے ، حتیٰ کہ اپنے جسم کا بھی دایاں حصہ ہی دکھائی دیتاہے ۔ بایاں حصہ نہ صرف یہ کہ نظر نہیں آتا بلکہ ان کا دماغ بھی ہمیشہ کے لیے اسے بھول جاتاہے ۔ ایسے لوگ شیو کرتے ہوئے چہرے کے بائیں حصے کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے ۔ خواتین چہرے کے صرف دائیں حصے پر میک اپ کرتی ہیں ۔ یہ لوگ پلیٹ کے دائیںحصے سے کھاتے ہیں ۔شاید اس لیے کہ نظر نہ آنے کے علاوہ، بائیں طرف کی اشیا وہ محسوس بھی نہیں کر سکتے ۔ حقیقت یہی ہے کہ آنکھیں نہیں ، دماغ دیکھتاہے ۔ کان نہیں ، دماغ سنتاہے ۔ کیا ٹانگ اور بازو میں درد ہوتاہے ؟ جی نہیں ، دماغ میں ۔ آپریشن کے دوران اگر جسم سے دماغ تک پیغامات کی ترسیل روک دی جائے تو پیٹ چاک کر دینے پر بھی اس کااحساس تک نہیں ہوتا۔
آگاہی کی لذت (Pleasure of knowing)اگر نہ ہوتی تو زندگی کس قدر ویران ہوا کرتی ۔ اب جب کہ یہ نکتہ میری سمجھ میں آیا ہے ، میں سوچتا ہوں کہ بارہ برس قبل کامرس کی بجائے مجھے میڈیکل سائنس میں داخلہ لینا چاہیے تھا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی معلوم ہوتا کہ رحمِ مادر میں آٹھ گھنٹے بعد ایک خلیہ دو میں کیسے بدل جاتاہے ۔
جان لینے کی لذت! نہیں ، میں بیرونِ ملک چلا جاتا ۔ فلکیات میں پی ایچ ڈی کرتا۔ ایک نظر کائنات کو دیکھتا۔ کم از کم یہ تو معلوم ہوتا کہ کہکشائیں دِکھتی کیسی ہیں؟۔ ہائیڈروجن کے بادل اور گرد۔ ایکس ریز ، انفرا ریڈ ، گیما رے اور دوسری شعاعوں کی مدد سے کائنات کا جائزہ کیسے لیا جاتاہے ۔ نظر نہ آنے کے باوجود بلیک ہول کیسے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔
ریاضی پڑھنی چاہیے تھی ۔ یہ تمام علوم کی ماں ہے ۔ Mother of all sciences۔ کمپیوٹر کی سکرین پہ نظر آنے والے نقطے سے لے کر زمینوں کی سورج کے گرد گردش تک ، ہر جگہ ریاضی ہی کارفرما ہے ۔
نہیں ، میں نینو ٹیکنالوجسٹ بنتا۔ یہ موجودہ دور کی وہ جادو نما سائنس ہے ، انسان کو جو خوردبینی سطح پرہر شعبے میں مداخلت کرنے اور نتیجتاً تخلیق کا ہنر سکھائے گی۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ان کے ایک ملاقاتی نے کہا تھا : دیگر تحقیقاتی اداروں کی طرح، فوج کو نینو ٹیکنالوجی پہ کام کرنا چاہیے وگرنہ ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے ۔ کیا اس ضمن میں کچھ پیش رفت ہو چکی ہے ؟اگر نہیں تو جلدی کیجیے ۔ آنے والا وقت بہت خطرناک ہے ۔ صرف وہ قومیں بچ پائیں گی،جن کا دفاع گولے بارود کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہوگا۔
پھر سوچتا ہوں ، شیخ علی بن عثمان ہجویری (داتا گنج بخشؒ) نے یہ کہا تھا: ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔ ہر علم میں سے ...اور دنیا کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ انسان نے آج تک کچھ بھی ایجاد نہیں کیا۔ صرف اور صرف قوانینِ فطرت کو سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھایا ہے ۔