تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     08-09-2014

ایک خطرناک جنگ کی طرف

اسد حکومت کی طرف سے زہریلی گیس سے اپنے مخالفین کو مبینہ طور پرہلاک کرنے کی ویڈیو شہادتوںسے دنیا میں اتنا اشتعال نہیں پھیلا جتنا دو امریکی صحافیوں کا سفاکی سے سرقلم کرنے والے مناظر نے پھیلا دیا ۔برطانیہ سے تعلق رکھنے والے فلاحی تنظیم کے ایک کارکن کی اس طرح ہلاکت کے خدشے کے پیش ِ نظر برطانوی پارلیمنٹ نے ڈیوڈ کیمرون کو شام میںمداخلت کرتے ہوئے فضائی حملے کرنے کی اجازت دے دی ۔ 
ایک زندہ بے گناہ انسان کو قربانی کے جانور کی طرح ذبح کرنے کا تصور بھی انسانوں کو خوف سے لرزا دیتا ہے۔ آئی ایس آئی ایس اور پاکستانی طالبان اپنے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے ذبح کرتے ہیں۔ ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں امریکی صحافیوں کو ہلاک کرنے سے پہلے نارنجی لباس پہنایا گیا تھا۔ امریکہ کی بدنامِ زمانہ جیل گوانتاناموبے میں رکھے جانے والے قیدیوںکو ایسا ہی نارنجی لباس پہنایا جاتا ہے۔اب امریکی صحافیوں کو ہلاک کرنے سے پہلے ایسا لباس پہنانے سے تمام معاملہ سمجھ میں آجاتا ہے۔ 
سرقلم کرنے کے مناظر والی ان ویڈیوز نے آئی ایس آئی ایس کا کم از کم ایک مقصد پورا کردیا ۔ انھوںنے ایک مرتبہ پھر مغربی افواج کو اس خطے میں کارروائی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ تاہم افغانستان اور عراق کی طویل جنگیں لڑنے کے بعد نہ تو امریکی اور نہ ہی برطانوی عوام میں اتنادم خم ہے کہ وہ ایک اور طویل محاذآرائی میں خود کو الجھا لیں۔ امکان یہی ہے کہ امریکی اور برطانوی طیارے بمباری کریں گے جبکہ اردن اور ترکی کے فوجی دستے زمینی کارروائی میں حصہ لیں گے۔ تاہم ترکی اور ایک عرب ملک کی اس کارروائی میں شمولیت پر ابھی ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ اگر آئی ایس آئی ایس کمزور ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عراق کے کرد تقویت پاجائیں گے اور ترکی کو کردوںسے تحفظات ہیں کیونکہ اس کی کرد آبادی اس کے لیے مسائل پیدا کردے گی۔ جہاں تک عرب ملک کا تعلق ہے تو یہ اپنی فوج کو آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ میں نہیں جھونک سکتا۔ 
اس تمام صورت ِحال میں ایران کا کردار سب سے عجیب ہے۔ مغربی ممالک کی طرح اس کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ آئی ایس آئی ایس جیسے انتہا پسند گروہ کو کچل دیا جائے لیکن ایٹمی پروگرام اور پابندیوںکی وجہ سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان کھلا تعاون بھی مسائل کا شکار ہے۔ تاہم کسی حد تک پوشیدہ تعاون خارج ازامکان نہیں کیونکہ ایران کی پشت پناہی سے ''پاسدارانِ انقلاب‘‘ نے آئی ایس کے جنگجووں کو عراقی قصبے ایمرالی (Amerli) سے نکال دیا۔ ان کے ہمراہ عراقی فوج کے دستوں کے علاوہ کرد جنگجو بھی تھے لیکن یہ امریکی فضائی حملے تھے جنھوںنے آئی ایس آئی ایس کو کمزور کرتے ہوئے یہ کامیابی ممکن بنائی۔
ویلز میں ہونے والا نیٹو کا حالیہ اجلاس اس بات پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا تھا کہ افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں کیا صورت ِحال پیش آسکتی ہے لیکن بحث زیادہ تر یوکرائن اور مشرق ِ وسطیٰ میں ہونے والی کشمکش کے گرد ہی گھومتی رہی۔ امریکی صحافیوں کے حالیہ قتل کے پیشِ نظرامکان پیدا ہوچلا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف مغربی ممالک مل کر کارروائی کرنے کا سوچیںگے۔ اگر چہ سرکاری اعلامیے میں ایران کا نام نہیں لیا گیا لیکن کسی بھی ہونے والی کارروائی میں اس کا کردار اور تعاون بے حد اہمیت کا حامل ہوگا۔ درحقیقت اس بحران نے ایران کو اپنی مخصوص پوزیشن سے بلند ہوکر عالمی معاملات میں کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، تاہم تمام کولیشن پارٹنر اس جنگ کو فرقہ وارانہ کشمکش میں تبدیل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اردن کی افواج اپنے عوام کو کچلنے میں تو بہت تیز ہیں لیکن کسی بیرونی جنگ میں ان کی کارکردگی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں عراقی فوجی دستوں بشمول ان کے افسران نے جس طرح موصل سے راہ ِ فرار اختیار کی، اس کی وجہ سے ان کی آئی ایس آئی ایس کے خلا ف لڑنے کی صلاحیت بھی مشکوک دکھائی دیتی ہے۔ 
ایک اور سوال بھی زیرِ گردش ہے کہ اس صورت ِحال میں شامی حکومت کا کیا کردار ہوگا؟ اگرچہ تمام دنیا نے بشار الاسد کی مذمت کی تھی کیونکہ اُنھوںنے وحشیانہ طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف لڑنے والے بہت سے گروہوں کو کچل دیا لیکن آئی ایس آئی ایس کے سراٹھانے کے بعد اب اُنہیں نسبتاً ''چھوٹی برائی‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ بمباری کرنے کے لیے کولیشن کی فضائیہ کو شام کی فضائی حدود میں کارروائی کرنا ہوگی۔ کیا اس کارروائی میں شام کی فضائیہ کو بھی شامل کیا جائے یا پہلے ان پر حملے کیے جائیں؟ یقینا یہ سوال محتاط جائزے کا متقاضی ہے، لیکن دانش مندی کا تقاضا یہی دیتا ہے کہ اسد حکومت کومزید کمزور کرنے کی بجائے اس کا تعاون حاصل کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کولیشن فورسز شام کے دفاعی مورچوں کو بھی نشانہ بناتی ہیں تو اس بات کو ایران قبول نہیں کرے گا۔ 
ان تمام معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے آئی ایس آئی ایس کے خطرے کا تدارک کیا جانا چاہیے لیکن واشنگٹن، تہران اور دمشق کے درمیان موجود تنائو معاملے کو خراب کررہا ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ کھلے فوجی تعاون کی بجائے ان ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے یا خفیہ حمایت سے بڑھ کر کوئی تعاون دکھائی نہیں دے گا۔ اس وقت مغربی ممالک میں کم و بیش اتفاق پایا جاتاہے کہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف کارروائی کی جائے حالانکہ 2003ء میں عراق پر حملے کے وقت ان کی صفوں میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صحافیوں کے سرقلم کرنے کا واقعہ 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں ٹاورز کی تباہی جیسے نتائج برآمد کرنے والا ہے۔ 
جہاں تک نہاد خودساختہ خلیفہ ابو بکر بغدادی کا تعلق ہے تو وہ اس جہاد کو ایک اور صلیبی جنگ قرار دیتا ہے۔ حال میں دی گارڈین میں مارٹن چولوف(Martin Chulov) لکھتے ہیں۔۔۔بغدادی کو عرب دنیا کی افواج کا خوف نہیں ہے۔ اُس نے انتشار کے لیے ایک ایسی ریاست کا چنائو کیا ہے جو اپنے عوام کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے انتقال ِ اقتدار کے لیے راضی نہ تھی۔ وہ جانتا ہے کہ امریکی اور مغربی افواج سے لڑنے کے لیے اُسے مقامی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ اُسے یہ بھی پتہ ہے کہ کسی بھی زمینی کارروائی کے بغیر اُسے حاصل دستوں کی طاقت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘اگر آئی ایس آئی ایس کی طاقت اور مغربی افواج کی فائر پاور کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا ایک اور طویل اور خطرناک جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved