مون سون کی کرشمہ کاریاں جاری ہیں یعنی بارش کے بعد پھر بارش۔ موسم بدلتا ہے تو اندر کا موسم بھی تبدیل ہوتا ہے۔ یادوں کی بند کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ پاکستان ان چند خوش قسمت ترین ملکوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر موسم سے نوازا ہے یعنی بہار‘ خزاں‘ گرمی‘ سردی‘ برسات وغیرہ۔ سطح زمین پر بھی ہر طرح کی ورائٹی موجود ہے۔ سمندر‘ دریا‘ برف باری‘ جھیلیں‘ میدان‘ صحرا‘ پہاڑ اور کیا کچھ۔ بارانِ رحمت کہیں کہیں زحمت بھی بن جاتی ہے۔ کسی پرانے گھر کی چھت یا دیوار گر کر ایک سانحے میں تبدیل ہو جاتی ہے تو شہر کی سڑکوں پر گٹر الگ سے ابلنے لگ جاتے ہیں‘ جو پہلے ہی پینے والے پانی کے پائپوں سے گھل مل چکے ہوتے ہیں جو شاید حکومتی متعلقات سے باہر ہے‘ مزید یہ کہ سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں بلکہ اس بار تو بارشوں نے ایسی تباہی مچائی ہے جس کی ماضی میں مثال مشکل سے ملے گی۔ باہر آ کر بیٹھا ہوں تو بگلوں کا ایک پورا غول نزدیکی پلاٹ سے اُڑ کر ذرا دور جا بیٹھا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنے بگلے اکٹھے کبھی نہیں دیکھے۔ وہاں بیٹھے کیا ہیں‘ ایک سفید چادر بچھا دی ہے۔ بگلا شاید اسے اس کے سفید رنگ کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بگا پنجابی میں سفید کو کہتے ہیں۔ راج ہنس غالباً اس کی اعلیٰ اور بہتر نسل ہے۔ ایک راج ہنس کے کسی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہونے کی کہانی بچپن میں پڑھی تھی۔ انتظار حسین کو تو جاتک کہانیاں ازبر ہیں اور وہ ماشاء اللہ ٹرانس فارمیشن کے بھی ماہر ہیں۔ کیا وہ مجھے ایک بگلا نہیں بنا سکتے؟
اذان ہو رہی ہے‘ ہو کیا رہی ہے‘ بیک وقت تین چار اذانیں شروع ہیں۔ ملحقہ گائوں کی ہر مسجد سے اذانوں کی آواز کھل کر اس لیے بھی آ رہی ہے کہ درمیان میں کوئی رکاوٹ ہے ہی نہیں۔ شہروں کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں جس سے اذان کا سارا لطف ہی خلط ملط ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حضرات وقفے وقفے سے باری باری اذان نہیں دے سکتے؟ ماڈل ٹائون میں تھا تو ان اذانوں میں ایک اذان ایسی بھی تھی کہ جس کا باقاعدہ انتظار رہتا تھا اور حضرت بلال حبشی کی اذان یاد آتی تھی جو اگرچہ سنی تو نہیں لیکن اس کی دھوم تو ساری اسلامی دنیا میں مچی ہوئی ہے۔ چونکہ اس کا مقصد لوگوں کو نماز کی دعوت دینا ہے‘ اس لیے حکم ہے کہ یہ کام تاخیر سے نہیں بلکہ تیزی سے کیا جائے۔ سلیم احمد کا کیا لاجواب شعر یاد آیا ہے ؎
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
اس سے عبدالحمید عدم بھی بہت یاد آئے جن کا یہ شعر مجھے ہمیشہ ہانٹ کرتا ہے ؎
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری، آستانے ترے
عدم ان بدقسمت شعراء میں شامل ہے جسے اس کے میرٹ کے مطابق شہرت نہیں ملی اور اسے تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے۔ جب اس کا مجموعہ ''خرابات‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو میرا اپنڈیکس کا آپریشن ہوا تھا اور میں ہسپتال میں تھا‘ چنانچہ مجھے معلوم ہوا تو میں نے وہیں وہ کتاب منگوا کر پڑھی۔ شاید کہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ گورنمنٹ کالج میں آنے سے پہلے ایف اے کا پہلا سال میں نے ایف سی کالج میں گزارا تھا اور کالج میگزین ''فولیو‘‘ میں میں نے ''عدم اور ذکرمے‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ انہی دنوں ''نقوش‘‘ میں عدمؔ اور جگر مراد آبادی کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس کا کیپشن تھا‘ دو شہریارانِ غزل۔ وہ ہمارے ہاں پاکستان کے عمر خیام کے لقب سے بھی مشہور تھا۔ اس کے بعد یہ روایت ساغر صدیقی سے ہوتی ہوئی اب آ کر انور شعور پر رُکی ہوئی ہے لیکن اس موضوع پر عدم نے جو جو شعر نکالے ہیں وہ لاجواب اور حیرت انگیز ہیں جبکہ شعورؔ تو صرف اپنی شراب نوشی کی اطلاع ہی اپنے اشعار میں دیا کرتے ہیں۔ غالبؔ نے جو کہا تھا کہ ؎
غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
اور
کوئی کہے کہ شبِ مہ میں کیا برائی ہے
بلا سے آج اگر دن میں ابر و باد نہیں
تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مے نوشی کا ایک گہرا تعلق بارش سے بھی ہے۔
بہرحال عدم کا ایک قطعہ دیکھیے:
شراب کا کوئی اپنا صریح رنگ نہیں
شراب تجزیہ و احتساب کرتی ہے
جو اہلِ دل ہیں بڑھاتی ہے آبرو ان کی
جو بے ضمیر ہیں اُن کو خراب کرتی ہے
شاید صحیح نقل نہیں کر سکا ہوں؛ تاہم بات سمجھ میں آ ہی جاتی ہے۔ اس کا ایک اور شعر ؎
فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے
سو‘ بارش کی ایک اور خاصیت کا ذکر بھی آ گیا جو غالبؔ کے اشعار سے ظاہر ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے یہ باہر تو ایک
انقلاب لاتی ہی ہے‘ آپ کے اندر بھی دھوم مچا سکتی ہے کہ ا س کے بعد گھر سے نکل کر باغوں کا رُخ کرنا بھی ایک ضروری وظیفہ خیال کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ لوگ ژالہ باری سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پنجابی میں اسے گڑا کہتے ہیں جس کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں ہو سکی کیونکہ اردو میں تو گڑا کا مطلب ہے گاڑا یا دھنسا ہوا۔ جبکہ اردو میں اگر اسے اولہ کہتے ہیں تو یہ بھی اپنے نام سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا جبکہ ہماری زبانوں میں اکثر الفاظ ایسے ہیں جن کے نام کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے یا ہم معنی الفاظ بھی ایک دوسرے سے اپنا تعلق ظاہر کرتے نظر آتے ہیں اور ان کا مماثل ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے مثلاً بارش اور باراں ایک دوسرے کے قریب قریب ہی لگتے ہیں۔ نیز باد اور بادل کا تعلق بھی سمجھ میں آتا ہے کہ باد یعنی ہوا ہی بادل کو ساتھ لاتی اور لے جاتی ہے۔ کبھی پنجابی میں یہ شعر کہا تھا ؎
وسیا مینہ تے بھِجے کپڑے گھر پہچن توں پہلاں
کھِیسے اندر کھُریاں چارے پُڑیاں زہر دیاں
سردی‘ گرمی اور بہار و خزاں تو ایسے آتے ہیں کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا جبکہ بارش باقاعدہ اعلان کرتی ہوئی آتی ہے اور یہ لکھاری کو صحیح معنوں میں انسپائر کرتی ہے خواہ اس سے ایک بے تکا کالم ہی وجود میں آئے جیسا کہ یہ ہے؟
آج کامطلع
میرا اور تمہارا کچھ
چکراتا ہے سارا کچھ