جب سے دھرنے والوں نے شہر اقتدار میں پڑائو ڈالا ہے‘ فضا تقریروں کی گھن گرج سے مسلسل گونج رہی ہے۔ سو عوام کبھی کپتان کو حکومت پر گرجتے اور برستے سنتے اور کبھی علامہ قادری کی شاندار خطابت سے مستفیض ہوتے رہے پھر یوں ہوا کہ جوش خطابت کا یہ وائرس پارلیمنٹ کے اندر گھس گیا اور عوامی نمائندوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر موقع غنیمت جانتے ہوئے‘ جوشیلی اور بھڑکیلی تقریروں کی ایک تاریخ رقم کردی۔ دھیمے لہجے والے خورشید شاہ بھی اپنے مخصوص سندھی لہجے میں ''پارلیامنٹ‘‘ کے تحفظ کی قسم کھاتے نظر آئے تو مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے عالمانہ اور مدبرانہ انداز میں دھرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ساتھ ہی ملک کے وسیع تر قومی مفاد اور جمہوریت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان وقفے وقفے سے اپنے کنٹینر سے ہی شعلہ بیانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے مگر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی یہ ضروری سمجھا کہ پارلیمنٹ کے اندر جا کر اپنا موقف بیان کیا جائے اور فنِ تقریر کو مزید تقویت دی جائے۔ شاہ صاحب کی تقریر سننے کو سبھی ہمہ تن گوش تھے۔ ٹی وی کے ناظر بھی اور ہمارے پارلیمنٹیرینز بھی! ان کی تقریر میں سیاسی تاریخ کے حوالے بھی موجود تھے اور بحیثیت مجموعی سیاستدانوں کی غلطیوں کا اعتراف تھا۔ اب تک وہ پارلیمنٹ میں ہونے والی بہترین تقریروں میں سے تھی۔ تقریر کی تیاری میں ان کی محنت جھلک رہی تھی اور بار بار وہ کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ میں کہا گیا ہر لفظ تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ عمران خان نے اپنے وائس چیئرمین کی اس اعلیٰ کارکردگی پر انہیں خوب داد دی۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے مشاہد حسین‘ محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپائو نے بھی تقریروں میں اپنے جذبات کا اظہار خوب کیا اور رسم دنیا بھی ہے‘ موقع بھی ہے‘ دستور بھی ہے۔ تو پھر اعتزاز احسن کیسے پیچھے رہتے۔ ان کی شخصیت میں سیاست اور ادب کا امتزاج جھلکتا ہے۔ سو اعتزاز احسن کی تقریر خوب صورت اشعار سے مزین تھی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کا جواب بھی انہوں نے خوب دیا۔ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ تقریر سننے لائق تھی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی یہ شعلہ بیانی اس لیے بھی اہم ہے کہ وزیراعظم ہر سیشن میں بہ نفسِ نفیس موجود ہوتے۔ جب بھی کوئی اپنی تقریر میں آئین دستور اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھاتا اور دھرنے والوں پر برستا تو وزیراعظم جوش اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے ڈیسک بجاتے اور اطمینان ان کے چہرے پر دکھائی دیتا۔ آخر کو وہ سب ان کی حکومت ڈگمگاتی کشتی ہی کو سہارا دینے کے لیے اس چھت کے نیچے اکٹھے ہوئے تھے۔ ایک عظیم مقصد نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو ایک لڑی میں پرو کر بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ وہ عظیم مقصد جمہوریت کا تحفظ تھا۔ ہم جمہوریت کو مضبوط بنائیں گے۔ جمہوریت ہی اصل انتقام ہے۔ جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ جمہوریت کے لیے دس حکومتیں قربان کر دیں گے۔ جمہوریت قائم رہنی چاہیے۔ جمہوریت میں ہماری بقا ہے۔ جمہوریت ہمارا راستہ ہے۔ جمہوریت ہماری منزل ہے۔ علیل‘ بیمار‘ پولیو زدہ جمہوریت پر ہمارے عوامی نمائندے قربان ہوتے رہے اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کرتے رہے۔ اس کی اہمیت اور ضرورت پر سیر حاصل گفتگو کرتے رہے مگر جمہوریت کے اس شور میں جمہور کا تذکرہ کہیں نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس جس کے انعقاد پر دنیا نیوز کی ایک خبر کے مطابق روزانہ 10 لاکھ خرچ ہو رہے ہیں اور یہ پیسہ عوام ہی ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ اس اجلاس میں صرف سیاسی اشرافیہ نے اپنے مفاد کی باتیں کیں اور حیرت ہے کہ ان تقریروں میں کسی نے کھل کر ماڈل ٹائون سانحے کی سنگینی کا احساس وزیراعظم کو نہیں دلایا۔ کسی نے انصاف پر مبنی نظام کی بات نہیں کی۔ ماڈل ٹائون کا سانحہ تو ایک علامت ہے ورنہ یہاں روز ایسی قیامتیں برپا ہوتی ہیں۔ طاقتور کے ہاتھوں کمزور کی تذلیل... جب حکومت اور سیاسی اشرافیہ میرٹ پر ذات برادری اور اقربا پروری کے ناسور کو اہمیت دیتی ہے تو قابل نوجوان اپنی ڈگریوں کو آگ لگا کر مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں کیونکہ ایسے ماحول میں رشوت اور سفارش کا بول بالا ہوتا ہے۔ اس پرچی کلچر میں بے وسیلہ لوگوں کی قسمت کبھی نہیں بدلتی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں روز بروز مایوسیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امیر امیر تر ہو رہے ہیں جبکہ سفید پوش‘ غریب ہو رہے ہیں اور غریب... خطِ غربت سے نیچے جا رہے ہیں۔ ہر روز اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں آمدنی قلیل سے قلیل ہوتی جا رہی ہے۔ یوں اپنی قسمت کو بدلنے کا عزم کرنے والے بھی جب سخت محنت کے بعد وہ اجر نہیں پاتے تو ان کے خواب بُری طرح ٹوٹتے ہیں۔ حکومت کا کیا خیال ہے کہ دھرنے میں شریک ہونے والی یہ مخلوق مریخ سے آئی ہے۔ جناب شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے اپنے میلے کپڑے دھوتی‘ یہ مخلوق آپ کی رعایا ہے۔ یہ پاکستانی عوام ہے۔ اس سے قطع نظر کہ دھرنے میں شریک ہونے یہ اپنے جذبے سے آئے یا پھر انہیں کسی اور کشش سے لایا گیا۔ ایک بات طے ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی زندگیوں میں مطمئن اور خوشحال ہوتے تو اس طرح شہر اقتدار میں آ کر سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں خوار نہ ہوتے۔ اگر ان کے پاس روزگار ہوتا‘ اگر انہیں انصاف مل رہا ہوتا اور اگر انہیں ان کے حقوق مل رہے ہوتے تو انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ اپنا گھر اور اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر ڈیرے ڈالتے جہاں نہ سر پر چھت ہے نہ کوئی سائباں۔ اس طرح کی زندگی تو خانہ بدوش بھی نہیں گزارتے۔ وہ بھی کسی ایسی جگہ پڑائو کرتے ہیں جہاں انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ ایسے میں ان لوگوں کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ تنقید کرنی ہو تو ان کو لانے والوں پر کی جا سکتی ہے جن کے مقاصد کا کسی کو ابھی تک علم ہی نہیں ہو سکا۔
عوام کے حقیقی مسائل سے حکمرانوں نے اتنی پہلو تہی برتی کہ اب تبدیلی کا کوئی بھی نعرہ ہو‘ وہ انقلاب کی صورت میں ہو یا پھر نئے پاکستان کی صورت میں وہ عوام کو لبھاتا ہے اور عوام اس دھوکے میں بار بار آتے رہیں گے۔
فراز کے الفاظ میں غریب شہر کی حالت یہ ہے کہ ؎
یہ سوچ کے غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے ہر بار آ گئے
موجودہ سیاسی بحران کا حل نکالنے کے لیے سیاسی قوتیں میدان میں سرگرم ہیں۔ اس سیاسی اشرافیہ کی بے حسی دیکھیے کہ اب بھی‘ ان کے کسی مصالحتی ڈرافٹ اور کسی مفاہمتی ایجنڈے میں عوام کے مسائل کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے حکومت بچائو... جمہوریت بچائو! اسی لیے تو پارلیمنٹ میں ہونے والی دھواں دھار تقریروں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر نہیں ہوتا۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے وعدے تو ہیں مگر سیلاب کی لہروں میں بہہ جانے والے کچی منڈیروں کے خوابوں پر کوئی تاسف کا اظہار تک نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ اس دنیا سے بہت دور ہے‘ جس مسائل بھری دنیا میں پاکستان کے عوام جی رہے ہیں۔ اب اگر موجودہ بحران وقتی طور پر حل بھی ہوتا ہے تو حکمران زیادہ عرصے تک خوشی میں بغلیں نہیں بجا سکیں گے۔ مسائل کے ستائے ہوئے لوگ کل کسی اور انقلاب کی دُھن پر پھر رقص کرتے ہوئے دوبارہ بھی اسلام آباد کا رُخ کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب حکومت کرنے کے لیے جمہوریت کے ساتھ جمہور کو بھی بچانا ہوگا۔