قرائن تو بتاتے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا اسلام آباد پر حملہ ناکام ہوگیا ہے، جس جنگ میں انہیں اپنی جیت یقینی نظر آرہی تھی اس میں شکست کھا کر دونوں 'بھائی‘ شاہراہ دستور کی فٹ پاتھ پر بیٹھے ہانپ رہے ہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اب اپنے منتخب کردہ میدان سے یہ دونوں کتنی قوت بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طاقت کو جو ٹھیس پہنچی ہے اس کا ازالہ تو شاید تحریک منہاج القران کچھ عرصے میں اپنے بے پناہ وسائل کے زور پر کر لے لیکن عمران خان کی سیاست دھرنے سے جانبر ہوسکے گی یا نہیں،اس کا جواب اسی دن ملے گا جب وہ اپنے دھرنے کے باقاعدہ خاتمے کا اعلان کرکے اپنی پارلیمانی پارٹی یا تحریک انصاف کے اکابرین کا کوئی اجلاس بلائیں گے۔ ادھراُدھر سے جو معلومات مل رہی ہیں ان کے مطابق تو پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کے بے رحم احتساب کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ انہوں نے جس طرح عملی سیاست کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے اپنی جماعت کی ایک صوبے میں حکومت اور اپنی مقبولیت کا جوا کھیلا ہے ، انہیں اس کا جواب دینا ہے ۔ اب یہ ان کی پارٹی پر ہے کہ ان کا عذر قبول کرتی ہے یا ان کے لیے کچھ اور تجویز کیا جاتا ہے۔ اپنے لیڈر کی جواب طلبی کے شوق کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے چند بڑے اپنی جماعت کے دستورکی کچھ شقوں کو نشان زد کرکے ان پر عمل درآمد کے طریق کار پر بحث مباحثہ کررہے ہیں۔ خان صاحب نے اپنی پارٹی میں بڑی محنت سے چیک اینڈ بیلنس کے جو نظام بنائے تھے، ان سب نے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔ اس وقت تک تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ عمران خان کے لیے اپنی پارٹی کو یکجا رکھنا ایک بڑا چیلنج بننے والا ہے۔ انہوں نے ملک کو جس آئینی بحران میں مبتلا کیاتھا اب وہ ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اسلام آباد پر جنگ مسلط کرنے میں تو ڈاکٹر طاہرالقادری ان کے ساتھ تھے لیکن اپنی پارٹی میں ہونے والی جنگ عمران خان کو تنہا لڑنی ہوگی۔
عمران خان کے ساتھ تو اب جو ہوگا سو ہوگا لیکن یہ طے ہے ان کی دھرنے والی حرکت سے ملک کا نظام اپنی رہی سہی توانائی کے ساتھ بروئے کار آگیا اور اس کی مضبوطی کے ساتھ اس کی کمزوری بھی عیاں ہوگئی۔اس کی مضبوطی یوں اجاگر ہوئی کہ پارلیمنٹ نے اپنے ناکارہ اجزائے ترکیبی کے باوجود ثابت کردیا کہ جب یہ ادارہ یکسو ہو کر کچھ ٹھان لے تو کوئی طاقت اس کے راستے میں آنے کی جرأ ت نہیں کرسکتی۔ اس کے ارکان نے قابل داد بہادری دکھائی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے آمادۂ فساد لٹھ بند لشکریوں کے گھیرے میں بھی انہوں نے اپنے اجلاس اسی جگہ کیے اور کسی دباؤ میں آنے سے انکار کردیا۔ پارلیمنٹ سے اتحاد و اتفاق کا پیغام آیا تو حیرت انگیزطور پر ملک کے ہر طبقے نے اس پر لبیک کہا اور دستور کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگیا۔ دستور کی تقدیس، اپنے نظام پر بھروسے اور کسی بھی آمریت کی مزاحمت کے ارادوں کا جو مظاہرہ پاکستان میں نظر آیا‘ یہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ غیر معمولی بات ہے کہ قابل اعتماد سروے کے مطابق پاکستان کے بیاسی فیصد افراد اپنے پارلیمانی اداروں کی دانش پر اعتماد کا اظہار کررہے ہیںاوراپنی پارلیمنٹ کو دستوری مدت پورا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں!اس بحران میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار اداکیا اور واضح کردیا کہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کی توثیق کے لیے کوئی سپریم کورٹ کی سیڑھیاں چڑھنے کی زحمت نہ کرے کیونکہ یہاں پر فیصلے دستورکے دائرے میں ہی ہوں گے۔ جمہور اور دستور کی یکجہتی نے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو خالی کرسیوں یا اپنے مریدوں کو خطاب کرتے ہوئے کبھی امپائر کی انگلی اٹھنے کا مژدہ سناتے تو کبھی زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگواکر پیغام دیتے کہ 'ہم تمہارے ساتھ ہیں‘۔
نظام کی کمزوری یوں سامنے آئی کہ ہمیں عین وقت پر پتا چلا کہ سیاسی یلغار کرنے والوں اوروفاقی حکومت کے درمیان کوئی ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ پولیس کسی بھی یلغار کے پہلے ہلے میں ہی بھاگ جانے میں عافیت محسوس کرتی ہے اور ایک بار ایسا ہوجائے تو اسلام آباد تک حملہ آور کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ ویسے بھی جب حملہ آور قوتوں کا نشانہ ہی وزیراعلیٰ اور وزیراعظم ہوں تو کسی سرکاری ملازم کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ درمیان میں آکر دادِ شجاعت دے کر شہید ہونے کی کوشش کرے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں مرکزی حکومتوں کے علاوہ بلدیاتی ادارے موجود ہوتے ہیں جو اول تو ایسے کسی تموّج کو مقامی طور پر ہی ختم کردیتے ہیں اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو مخالفانہ لہروں کو اتنا کمزور ضرور کردیتے ہیں کہ یہ کسی نقصان کا باعث نہیں بنتیں۔ خان و ڈاکٹر قادری کے دھرنے کم از کم یہ ضروربتا رہے ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعدادموجود ہے جو اس نظام میں حصہ دار بننا چاہتی ہے مگر اسے کوئی راستہ نہیں مل پارہا اور وہ مجبور ہوکر اپنی جگہ تلاش کرنے اسلام آباد آن پہنچے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہی نظام میں لانے کے لیے بلدیاتی ادارے بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ یہ ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ مکمل اختیار چاہتا ہے اور جو حکومت سے باہر ہوتا ہے اسے اپنی بے بسی کا احساس ہی چین نہیں لینے دیتا۔بلدیاتی ادارے معاشرے میں مکمل اختیار اور مکمل بے بسی کی کیفیات پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ ان اداروں کی موجودگی میں معاشرے کے ہر متحرک شخص کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ تھوڑی سی ہلچل پیدا کرکے کسی نہ کسی طرح اس نظام میں نمایاں ہوسکتا ہے، جبکہ ان اداروں کی عدم موجودگی میں اسے اپنی سیاسی نمود کے لیے کوئی بڑا طوفان ہی اٹھانا پڑے گا تو اس نظام میں اس کی کوئی جگہ بن سکے گی۔ ذرا فرض کریں کہ آج بلدیاتی ادارے موجود ہوتے تو شاید ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے آبائی شہر جھنگ کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے ہوتے، عمران خان کی جماعت پنجاب کے چند شہروں میں اپنی کارکردگی دکھانے میں مصروف ہوتی، چودھری برادران گجرات ، اٹک اور منڈی بہاء الدین کی ضلعی حکومتیں بچانے میں مصروف ہوتے تو کیا یہ سب کچھ ہوتا جو ہوا ہے یا ہورہا ہے؟ اگر ان دھرنوں سے سبق لے کر پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب اور پیپلزپارٹی سندھ میں بلدیاتی نظام بحال کردیں تو ملک پر احسان تو ہوگا ہی ، ان کا یہ اقدام ان کے اپنے عرصۂ اقتدار کو بھی محفوظ بنا دے گا۔ بلدیاتی اداروں کی بحالی معاشرے کی سیاسی تنظیم نو کے لیے اتنی ضروری ہوچکی ہے کہ اگر اب یہ نہ ہوئی تو شایدآئندہ کسی حملے سے یہ نظام جانبر نہ ہوسکے۔