آج کل ٹی وی چینلز الفاظ کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے بیشتر پروگراموں میں گھوم پھر کر وہی پرانے چہرے موجودہوتے ہیں جن کے بارے میں قوم کو شبہ ہوچلا ہے کہ انھوںنے آب ِ حیات پی رکھا ہے۔ ان افراد نے اتنی سول حکومتوں پر تبصرے کررکھے ہیں کہ ان کے تبصروں میں آورد کی جگہ آمد کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے ۔ بسا اوقات آمدبھی مسروقہ ہوتی ہے لیکن یادداشت کی کمی آڑے آنے کی وجہ سے کام چل جاتا ہے۔ عمر اتنی کہ نیک و بدکی حدود سمٹ جائیں۔۔۔گویا ضرورت باقی نہ رہے۔ تبصرے چاہے درست ہوں یا غلط(موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ ٹی وی سیاسی مبصرین کا جم ِ غفیر غلط ثابت ہوا ہے)، ان کی پیشانی شرمندگی کے عرق سے محفوظ۔ سخن فہمی کا دعویٰ بھی اور غالب کے طرف دار بھی اور بے چارے ناظرین سردرد کی گولیاں استعمال کرکر کے بے حال۔ ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینلز میں اس طرح کے مباحثے ہوتے ہیں جو ہر موقع پر چل جائیں۔ اگر ان میں حریفوں کے نام بدل بھی دیں تو گفتگو پر کوئی فرق نہ پڑے۔ کلاسیکی سیاسی رقابت پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان رہی ہے ۔ ان کی جگہ کھلاڑی بدل لیں لیکن میچ وہی رہے گا۔
کیا ہمارے ٹی وی چینلز کے اکابرین نے 1916ء میں امریکہ میں ''ایک رپورٹر کے فرائض ‘‘پر شائع ہونے والی کتاب پڑھی ہے؟ اس کتاب کے مطابق ایک رپورٹر کا فرض ہے کہ وہ۔۔۔'' عوامی شاہد بن کر ان کے لیے دیکھے جو اُس موقع پر موجود نہیں ہوتے۔‘‘مباحثے کے پروگراموں کے اہم ستارے اراکین ِ پارلیمنٹ ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ محو ِ رقص، انسانی حقوق کے رہنما اور جغادری صحافی اور سابق سفارت کار اور جنرل۔ خدا کے لیے ، یہ لوگ منظر سے رخصت کب ہوںگے؟ ایسا لگتا ہے کہ اُنھوںنے صحافت پر مستقل دھرنا دیا ہوا ہے اور ہر پروگرام ان کے لیے شاہراہ ِ دستور کی مانند ہے۔
کچھ صحافیوں کا خیال ہے کہ قدرت نے اُنہیں جمہوریت کے تحفظ کے لیے اس عالم ِ آب وگل میں اتارا ہوا ہے۔ وہ عمران خان کے خلاف ''کف آرا ‘‘ ہوتے ہوئے اُنہیں عدالتوں میں لے جانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ تاہم ہمیں آئین، قانون اور جمہوریت کا درس دینے والے خود جمہوری اصولوں کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ کیا ناظرین نے ان کو منتخب کیا ہے کہ وہ جمہوریت کو بچانے کا فریضہ سرانجام دیں؟جس پارلیمنٹ کے ستر فیصد اراکین ٹیکس چور ہیں، اس کو بچانے کا مینڈیٹ انہیں کس نے دیا ہے؟عوام نے اِ نہیں ایسی کوئی ذمہ دار ی نہیں سونپی تو پھر یہ جمہوریت کے بچائو کے لیے آسمان سر پر کیوں اٹھائے ہوئے ہیں۔
اس تمام مکالمے (اگر اسے مکالمہ کہا جاسکے) میں پاکستان کا دانشور طبقہ دکھائی نہیں دیتا۔ یقینا پاکستان میں لاکھوں تعلیم یافتہ، ماہرین، پیشہ ور افراد اور جمہوریت اور آئین اور قانون کو سمجھنے والے ہیں لیکن یہ معاشرے کے خاموش طبقے ہیں۔ اگر آپ ایسے افراد سے بات کریں توان کی ذہانت ٹی وی پر لگے ہوئے تماشے کا منہ چڑائے گی ۔ زیادہ تر لوگ ٹی وی پر مباحثے کو علم میں اضافے کے لیے نہیں بلکہ صرف چسکا لگانے کے لیے دیکھتے ہیں۔ وہ صرف مخالف افراد کی نوک جھونک ، جو بہت جلد شورشرابے میں بدل جاتی ہے، سے لطف لیتے ہیں ۔ مجھے اپنے کولیگ حبیب غوری یاد آرہے ہیں جو نثار عثمانی مرحوم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ مسٹر عثمانی ایک سرکردہ صحافی تھے جو ہمیشہ پریس کی آزادی کے لیے سینہ سپر رہے ۔ حبیب غوری افسوس کرتے ہیں کہ ہمارے میڈیا مین صحافتی اقدار سے بیگانہ ہوتے جارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔۔۔''آج ٹی وی کے ٹاک شوز میں جو کچھ پیش کیا جارہا ہے، وہ اس ملک میں پریس کی آزادی سے لگا نہیں کھاتا حالانکہ ہم نے طویل عرصے تک جدوجہد کرتے ہوئے پریس کو آزاد کرایا تھا۔ ‘‘حبیب غوری صاحب درست کہتے ہیں۔ میرے دوست ایاز امیر بھی اپنے کالموں میں بہت معقول بات کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔'' عاصمہ جہانگیر اور محمود خان اچکزئی اس طرح غم سے نڈھال ہورہے ہیں جیسے کہ یہ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کوئی معرکہ ہو۔ کیا شریف خاندان کا تمام حکومت پر تسلط جمہوریت کہلاتاہے؟کیا اقتدار اور دولت کے درمیان ناجائز تعلق کوجمہوریت کہا جاتاہے؟جیسے ستم ظریفی میں کوئی کمی رہ گئی ہو، آصف علی زرداری بھی بڑی سبک رفتاری سے آئے اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہرن کا گوشت کھاتے پائے گئے۔ قومی اسمبلی میں قائد ِ حزب ِ اختلاف، سید خورشید شاہ کا رنگ آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے تقریر کرتے وقت سرخ(مزید) ہوجاتا ہے۔۔۔ خدا خیر کرے۔‘‘مسٹر ایاز امیر آگے چل کر لکھتے ہیں۔۔''اگر جمہوریت کا مطلب ہمیشہ استحقاق یافتہ طبقے کی حکمرانی ہے تو پھر بہتر ہے کہ ہم اس سے جان چھڑا لیں۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر قادری کی جمہوریت کی تشریح حکمران طبقے اور اشرافیہ کو پسند نہ آئے لیکن یہ کچلے اور پسے ہوئے مظلوم عوام کی خواہشات کی آئینہ دار ہے۔ٹی وی چینلز پر اس طرح کا مواد آنا چاہیے ۔‘‘ ایاز امیر کہتے ہیں۔۔۔کہ '' ڈاکٹر قادری صرف اقتدار کی خاطر جدوجہد نہیں کررہے اور نہ ہی وہ کوئی قانون شکن قوت ہیں۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو سماجی انصاف اور زندگی گزارنے کے بہتر مواقع فراہم کیے بغیر جمہوریت صرف کاغذی کارروائی ہے کیونکہ یہ عوام کی بجائے صرف مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریے ''پاکستان خود اپنا بدترین دشمن ہے‘‘ میں پاکستان کو درپیش اہم مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ اس ملک کو بیمار معیشت، طالبان کی دہشت گردی اور بھارت کے ساتھ تنائو کے مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔تاہم سیاسی رہنما ان مسائل کے گرداب سے ملک کو نکالنے کی بجائے اسے مزید الجھا رہے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ ''نواز شریف کا دور فرقہ وارانہ کشیدگی، لوڈ شیڈنگ، تشدد اور دہشت گردی اور گڈگورننس کے فقدان کے طور پر جانا جاتا ہے۔وہ معاشی بحالی کے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ‘‘ تاہم نیویارک ٹائمزکا کہنا ہے کہ نواز شریف کو طاقت سے اقتدار سے نکالنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ ایسی کاوش کی بجائے ملک میں جمہوری عمل کو تقویت دے کر اقربا پروری اور انتخابات میں روا رکھی جانے والی بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے۔
دراصل یہ ہیں وہ مسائل جن کو ٹی وی ٹاک شو ز کا موضوع بننا چاہیے۔ کیا ہم سب پاکستان کو ایک خوشحال ریاست نہیں دیکھنا چاہتے اور کیا ہم یہ نہیں جانتے (جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے کہا ہے) کہ ہمیں ان مسائل کا سامنا ہے، لیکن کیا ہمارے ٹی وی پر گزشتہ تین ہفتوں کے دوران یہی مسائل زیر ِ بحث تھے؟یقینا ایک چیتے کی کھال کے نشانات تبدیل نہیں ہوتے اور اسی طرح کچھ اینکرز کے نظریات بھی۔ وہ چاہے اخبار میں ہوں یا ٹی وی پر یا سوشل میڈیا پر، ان کی اپروچ میں تبدیلی نہیں آنی تھی، نہیں آئی۔