تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     09-09-2014

بی جے پی اور بھارتی خارجہ پالیسی

ایک عام پاکستانی کے لیے یہ اچنبھے کی بات ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بڑے خلوص سے اپنے ہم منصب نریندر مودی کی راج سنگھاسن سنبھالنے کی تقریب میں نئی دہلی گئے اور بھارت سرکار نے تاریخیں طے کرکے خارجہ سیکرٹری لیول کے مذاکرات منسوخ کردیے۔ آئے دن جموں سیالکوٹ بارڈر پر بھارت کی طرف سے فائرنگ ہورہی ہے۔ آئیے ان وجوہ کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھارتی پالیسی میں تبدیلی کی وجوہ کیا ہوسکتی ہیں۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے مودی حکومت کی سوچ ،بھارت کی ممکنہ عظمت کے نظریے کے گرد گھومتی ہے۔ واجپائی بھی بی جے پی کے ہی وزیراعظم تھے مگر مودی اور واجپائی کی شخصیت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ واجپائی امن پسند شاعر تھے جبکہ نریندر مودی کا ہیرو سردار پٹیل ہے جس نے پاکستان کو اس کے جائز مالی اثاثے دینے سے انکار کردیا تھا۔آپ کو یاد ہوگا کہ انتخابات کی تیاری کے دوران جنتا پارٹی کے وعدے تھے کہ خارجہ پالیسی میں جان ڈالی جائے گی۔ ایٹمی ہتھیاروں کو پہلے استعمال نہ کرنے کے نظریہ پر نظر ثانی ہوگی۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہوگی اور کشمیر کے بارے میں بھارتی آئین کے آرٹیکل نمبر 370کو تبدیل کیاجائے گا۔ ہمیں پھر بھی خوش فہمی تھی کہ شاید بی جے پی سرکار جیت کے بعد امن پسند رویہ اپنالے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بھارت کے نئے جارحانہ انداز کو سمجھنے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا ہوگا۔
کوئی شک نہیں کہ پچھلے بیس سال میں بھارت نے شاندار اقتصادی ترقی کی جبکہ اسی عرصے میں پاکستان میں شرح نمو مایوس
کن رہی ۔مجموعی قومی دولت کے حوالے سے بھارت جاپان کو کراس کرگیاہے۔ ایشیا میں چین کے بعد دوسری اقتصادی طاقت بھارت ہے۔2014-15ء میں بھارت کا دفاعی بجٹ 36ارب ڈالر سے زائد ہوگا اور یہ موجودہ سال کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہوگا۔ آزاد سروے کے مطابق 2006ء سے 2010ء تک پوری دنیا میں درآمد شدہ اسلحے کا نو فیصد بھارت نے امپورٹ کیا ۔ اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھارت آخر اتنا زیادہ اسلحہ کیوں درآمد کررہا ہے جبکہ اس کی آبادی کا اچھا خاصا حصہ غربت کی دلدل میں اب بھی پھنسا ہوا ہے۔
بھارت کے سٹریٹجک اہداف کو جاننے کے لیے اس کے اپنے سکیورٹی امور کے ماہر راجہ موہن کے خیالات ہمارے ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کااظہار راجہ موہن نے 2006ء میں امریکی میگزین فارن افیئرز میں کیا تھا۔ راجہ موہن کے بقول بھارت کی سٹریٹجک سوچ دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ سب سے پہلا حصہ ہمسایہ ممالک سے متعلق ہے۔ یہ خطہ جس میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، برما، سری لنکا، نیپال، افغانستان سب شامل ہیں، بھارتی سوچ کے مطابق اس کے زیر اثر ہونا چاہیے ۔یعنی ان ممالک کے بارے کسی اور عالمی طاقت نے اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو بھارت سے پوچھ کر کرے۔ دوسرا دائرہ ایشیا کے ان ممالک پر محیط ہے جوبحر ہند کے پانیوں میں واقع ہیں۔ مثلاً انڈونیشیا اور ملائشیا۔ اس علاقے میں بھارت کی خواہش ہے 
کہ اسے بھی عالمی عظیم قوتوں کے اثرو رسوخ کی برابری ضرور حاصل ہو۔ مثلاً امریکہ اور چین کے بحری بیڑے اس خطے میں موجود ہیں تو بھارتی نیوی بھی یہاں نظر آتی ہے ۔ بھارت مستقبل میں اس رول کو مزید مستحکم کرنا چاہے گا۔ آخری اور تیسرے دائرے میں راجہ موہن کے بقول پوری دنیا شامل ہے اور یہاں بھارت کی خواہش ہے کہ انٹرنیشنل امن اور سکیورٹی کے حوالے سے بھارت کی پوزیشن مُسلَّم ہو۔ آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر پوری دنیا کے سربراہوں کا بڑا کھانا ہورہا ہو تو بھارتی لیڈر صرف ہیڈ ٹیبل پر ہی بیٹھنا پسند کریں گے۔
مندرجہ بالا سوچ کو سابق امریکی نیشنل سکیورٹی مشیر برزنسکی نے اپنی حالیہ کتاب سٹریٹجک وژن میں واضح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے '' بھارت کے سٹریٹجک پالیسی ساز کھل کر اس عظیم بھارت کی بات کرتے ہیں جس کا اثرورسوخ ایران سے لے کر تھائی لینڈ تک ہوگا۔ بحرہند میں بھارتی نیوی کو ایک پوزیشن حاصل ہوگی۔ بھارتی ایئرفورس اور نیوی کی ترقی کے منصوبے اس طرف واضح اشارے ہیں۔بھارت کی انٹرنیشنل سیاسی کاوشیں بھی اسی بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ وہ بنگلہ دیش اور برما کو زیر اثر کرنا چاہتا ہے۔ برزنسکی اور راجہ موہن کی نگار شات خاصی حد تک صحیح ہیں۔ بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی شدید خواہش بھی اسی سوچ کی غماز ہے۔بھارت آہستہ آہستہ ایک منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ شناخت کو ختم کرتا جارہا ہے اور یہ عمل عرصے سے جاری ہے۔ 1965ء میں صدر ریاست کا عہدہ تبدیل کرکے اس کانام گورنر رکھ دیاگیا اور وزیراعظم کے نام کو وزیراعلیٰ میں بدل دیاگیا۔ پہلے کشمیر کے معاملات بھارتی وزارت خارجہ دیکھتی تھی پھر یہ کام ہوم منسٹری کو سونپ دیاگیا۔ جموں اور کشمیر ریاست کی سب سے بڑی اور مختلف شناخت بھارت کے آئین کا آرٹیکل نمبر 370ہے اس آرٹیکل کے مطابق دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام اختیارات ریاست کے پاس ہوں گے۔ اس آرٹیکل کے مطابق غیر کشمیری ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتے۔ شیخ عبداللہ نے پنڈت نہرو سے وعدہ لیا تھا کہ آرٹیکل 370دائمی ہوگا اور آج بی جے پی کی حکومت اسی آرٹیکل کے درپے ہے۔کشمیر پر نریندر مودی کی سوچ واجپائی سے مختلف ہے۔1993ء میںحریت کانفرنس بننے کے بعد جو بھی پاکستانی لیڈر بھارت کے سرکاری دورے پر جاتا تھا، وہ حریت کے قائدین سے ضرور ملتا تھا۔ اس طرح خارجہ سیکرٹریز کی سطح کے مذاکرات سے پہلے بھی کشمیری لیڈروں سے صلاح مشورہ ہوتا تھا۔ وجہ سیدھی سی ہے دونوں ملک تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے بغیر نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ امر بالکل عیاں ہے کہ مذاکرات کے اس رائونڈ سے پہلے جو 25اگست کو اسلام آباد میں ہونا تھا۔کشمیری قیادت سے مشاورت ضروری تھی لیکن پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط ، کشمیری رہنما شبیر شاہ سے ملے تو طوفان کھڑا کردیاگیا۔ مذاکرات کا دور نہیں ہوسکا۔ بھارت کا پیغام واضح تھا کہ یا ہم سے بات کیجیے یا کشمیری لیڈروں سے۔ بھارت نے شبیر شاہ کے ساتھ ہائی کمشنر کی ملاقات کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔
بھارت کے اس عجیب اور جارحانہ رویے کے پیچھے مجھے کشمیر کے آئندہ الیکشن نظر آرہے ہیں،جہاں کم از کم چوالیس نشستیں حاصل کرنا بی جے پی کا مطمح نظر ہے تاکہ 87کے ایوان میں اکثریت حاصل کی جائے اور آرٹیکل 370کا خاتمہ کیاجائے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کے ملٹری اوبزرورز سے کہا گیا کہ وہ واپس چلے جائیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھارت کی غیر معقول ڈیمانڈ کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔بی جے پی کی قیادت کا خیال ہے کہ جموں اور لداخ سے اسے 35سے لگ بھگ سیٹیں مل جائیں گی۔ ہندو پنڈت واپس جموں آرہے ہیں۔ بی جے پی کا خیال ہے کہ حریت والے حسب سابق الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے اور وادی کے مسلمان ووٹ دینے کم نکلیں گے لہٰذا کچھ نشستیں وادی سے بھی مل جائیں گی۔ ریاست میں ہندو نیشنلزم کو ابھارنے کے لیے پاکستان کی طرف بلا اشتعال فائرنگ کی جاتی ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ پہل پاکستان نے کی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مودی سرکار کی کوتاہ نظری نے اتنی جلدی خیرسگالی کے اس جذبے کو کافور کردیا ہے جو وزیراعظم نوازشریف کے دور سے پیدا ہواتھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved